Daily Ausaf:
2025-07-10@16:38:10 GMT

خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

تاریخ کے اوراق پرجب کبھی انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات ابھرتے ہیں،تب سیاست کی بازی گری،عسکری چالاکی اور سفارتی مکاری اپنے جوبن پرنظرآتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطی کے افق پروہی کہانی ایک نئے باب کے ساتھ ابھری،جہاں امریکی پینٹاگون میں تیارکی گئی خفیہ حکمتِ عملی نے دنیاکی نظریں ایران کی جوہری تنصیبات سے ہٹاکرایک گمنام جزیرے پر مرکوزکردیں۔گویایہ منظروہی تھاجسے عربی محاورے کے مطابق’’چشمِ زدن میں صحراؤں کو گلستان اورگلستانوں کوویرانہ کرنے والی‘‘چال کہاجاسکتا ہے ۔امریکااوراسرائیل کاتعلق محض دو ریاستوں کادوستانہ رشتہ نہیں،بلکہ بیسویں اوراکیسویں صدی کی تاریخ کاسب سے پیچیدہ،ہمہ گیر اورہمہ جہت باب ہے۔یہ باب محض مادی امداداورسیاسی حمایت تک محدود نہیں،بلکہ تاریخی،تہذیبی،اقتصادی اوراسٹریٹجک پہلوئوں کا ہمہ گیرامتزاج ہے۔اس کی بنیادمحض ’’دوستی‘‘ یا ’’اتحاد‘‘کی سادہ تعریف میں سمیٹ دینا تاریخ اور سیاسیات دونوں کی توہین ہوگی۔امریکی سیاسی تاریخ میں اسرائیلی لابی کااثرورسوخ محض محاورہ نہیں بلکہ وہ محکم حقیقت ہے،جووائٹ ہاس اورکیپیٹل ہِل تک پھیلی ہوئی ہے۔اسرائیل اورامریکاکارشتہ محض دوریاستوں کا دوستانہ بندھن نہیں،بلکہ اس کی بنیادگہری اسٹریٹجک ہم آہنگی،مشترکہ تہذیبی بیانیے اورسرمایہ واثرونفوذکی مضبوط زنجیر پراستوارہے۔
(اے آئی پی اے سی)،(اے ڈی ایل)، (جے آئی این ایس اے)،وہ تمام تنظیمیں ہیں جن کے مختلف کرداراورتوجہ اسرائیل اوریہودی قوم سے متعلق ہے،حالانکہ وہ الگ الگ ادارے ہیں۔اے آئی پی اے سی،امریکامیں اسرائیل نوازلابنگ گروپ ہے۔ اے ڈی ایل،(اینٹی ڈیفیمیشن لیگ)سام دشمنی اورنفرت کی دیگراقسام کامقابلہ کرتی ہے،جبکہ اسرائیل سے متعلق مسائل کوبھی حل کرتی ہے۔جے آئی این ایس اے (یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے قومی سلامتی امور) امریکی قومی سلامتی اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات پر توجہ مرکوزکرتاہے، گویاامریکی سیاست میں اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ کایہ عالم ہے کہ امریکامیں کوئی بھی جماعت ان کے تعاون کے بغیرحکومت سے قاصررہتی ہے۔
1948ء میں اسرائیل کی تشکیل کے بعد، سردجنگ کے سائے تلے امریکانے اسرائیل کومحض خطے کااتحادی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کا’’نگہبانِ اقتدار‘‘ قرار دیا۔اسرائیل کا جغرافیائی محلِ وقوع،اس کی جدیدعسکری صلاحیت اوراس کا سٹریٹجک محاذپرہمہ تن مصروف رہناواشنگٹن کی پالیسی کاحصہ بن گیا۔یوں اسرائیل، امریکی سامراجی پالیسی کامحوری ستون بن کر ابھرا اور امریکااوراسرائیل کے مابین حربی اوراسٹریٹجک تانے بانے لازم وملزوم ہوگئے۔امریکاکی سیاسی تاریخ میں اسرائیل کی لابی کااثرورسوخ محض خارجی پالیسی تک محدود نہیں ،بلکہ انتخابی مہمات، قانون سازی اور وائٹ ہاس کی پالیسی ترجیحات تک پھیلاہواہے۔ یہی وجہ ہے کہ1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے فورابعدامریکااس کاسب سے بڑاسفارتی واقتصادی پشت پناہ بن کرسامنے آیا۔
امریکااوراسرائیل کارشتہ محض ریاستی یا اسٹریٹجک اتحادتک محدودنہیں۔یہ تاریخی،تہذیبی اور اقتصادی پہلوئوں کاہمہ گیرحصہ ہے۔ امریکی صدر،خواہ ری پبلکن ہو یا ڈیموکریٹ،اس ناطے کاحصہ بننے اوراس کاتحفظ کرنے پرمجبورہے۔ اے آئی پی اے سی اوردیگر یہودی لابی تنظیمیں امریکاکی داخلی سیاست میں اس درجہ نفوذرکھتی ہیں کہ کسی بھی امریکی صدرکو اسرائیل کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تاریخی نتائج کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکی تاریخ میں اس امرکی مثالیں موجودہیں کہ اسرائیلی لابی کااثرورسوخ امریکی صدراور پالیسی سازوں پرکس طرح غالب آسکتاہے۔
اس تناظرمیں جان ایف کینیڈی،رچرڈنکسن اوربارک اوباما تین ایسے امریکی صدورتھے، جنہوں نے اپنے دورمیں اسرائیل یااس کی پالیسیوں کوچیلنج کرنے کی جرت کی،یاآزادی سے اقدامات کیے لیکن اس آزادی کی قیمت چکانی پڑی،کیونکہ یہودی لابیوں اور طاقتور تنظیموں نے تینوں کی سخت مخالفت کی۔
1960ء کی دہائی میں جان ایف کینیڈی اوراسرائیل کاتاریخی تنااس بات کااولین مظہر ہے۔ کینیڈی نے اسرائیل کودیمونانیوکلیئرری ایکٹر پرعالمی معائنے کی شرط عائدکرنے کی کوشش کی،اوراس پالیسی نے اسرائیل اوراس کی لابی میں شدیدبے چینی اور مزاحمت کوجنم دیا۔کینیڈی نے اسرائیل پرزور دیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کوبین الاقوامی معائنے اورکنٹرول میں لائے۔اس کامقصدمشرقِ وسطی میں جوہری اسلحے کی دوڑکاسد باب تھا۔اسرائیلی حکومت نے اس دباؤکو شدید ناپسندکیا۔کینیڈی کاکھلے عام قتل اوراس کے اردگرد تاریخی سازشوں کاتذکرہ محض سازشی نظریہ نہیں بلکہ امریکی سیاسی ذہن میں پائے جانے والے شکوک کاحصہ بھی ہے۔یہ واقعہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اوراسرائیلی لابی کاتنامحض سیاسی نہیں،بلکہ تاریخی،اسٹریٹجک اورنفسیاتی محاذکاحصہ ہے۔
رچرڈ نکسن (1969۔1974)کا دور سردجنگ کاحساس ترین حصہ تھا۔اسرائیل اورعرب ریاستوں کامحاذگرم تھااورامریکا دونوں طرف توازن قائم کرنے کی جدوجہدمیں تھا۔ 1973ء کی یومِ کپورجنگ میں اسرائیل کی بقاخطرے میں تھی۔ نکسن نے بڑے پیمانے پراسلحہ اورسازوسامان اسرائیل کومہیاکیا، تاہم اس عمل میں اس کی پالیسی میں تذبذب اور دیگرعرب ریاستوں کوبھی انگیج کرنے کی خواہش اسرائیلی لابی کوناگوارگزری۔
اس دورمیں وزیرخارجہ ہینری کسنجر نے عرب۔ اسرائیل معاملے میں نسبتاً متوازن رویہ اپنایالیکن ہینری کسنجر کااعتدال پسندرویہ جو یہودی لابیوں اوراسرائیل کی سخت گیرقیادت کو ناپسندتھا۔لابیوں نے نکسن کواسرائیل کی حمایت میں ’’کمزور‘‘ اور’’دوغلا‘‘ قراردیا۔ مکافاتِ عمل میں واٹرگیٹ اسکینڈل نے نکسن کواقتدارچھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ بعض مبصرین نے اس ضمن میں یہودی لابیوں اورمیڈیا کارویہ غیرمعمولی سخت قراردیاحالانکہ واٹرگیٹ کامعاملہ قانون اوراحتساب کاحصہ تھالیکن اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے اس دوران نکسن کی پالیسیوں کوتنقیدکاحصہ بناتے ہوئے اس کی ساکھ اورسیاسی طاقت کو مزید کمزورکرنے کی کوشش کی۔ واٹرگیٹ کا معاملہ محض قانون شکنی کامعاملہ نہیں رہا بلکہ اقتدارکے قبل ازوقت خاتمہ کے علاوہ سیاسی محاذ پربھی تاریخی دھبہ اور دشمنیوں کاحصہ بن گیا۔ اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے یہ پیغام دیاکہ جو امریکی صدراسرائیل یااس کی پالیسیوں پرتنقید کرے گا،وہ اقتدارمیں مشکلات کاشکار ہو سکتا ہے ۔
بارک اوباما 2009۔2017ء ) کا دور مشرقِ وسطیٰ میں نئے چیلنجوں اورنئے رجحانات کادورتھا۔عرب اسپرنگ،ایران نیوکلیئرڈیل اور اسرائیل کی بستیاں بسانے کی پالیسی جیسے مسائل اس دورکی نمایاں نشانیاں بنے۔اوبامانے ایران کونیوکلیئرمیدان میں محدودکرنے اور خطے کوبڑے جنگی خطرے سے بچانے کی خاطر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن تاریخی معاہدہ کیا۔ اسرائیل اوراس کی حامی یہودی لابیوں نے اس معاہدے کواسرائیل کی سلامتی اورامریکی اسٹریٹجک مفادکا ’’ناقابلِ معافی سودا‘‘قراردیا۔نیتن یاہونے امریکی کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے اس معاہدے کی شدیدمخالفت کی،اوراوباماانتظامیہ کواسرائیل دشمن قراردیا۔امریکی یہودی لابی نے اوباماکی پالیسیوں کو ’’تاریخی غلطی ‘‘قرار دیا ۔
اوبامانے فلسطین۔اسرائیل تنازعے میں دوریاستی حل کی تائیداورمغربی کنارے میں اسرائیل کی بستیاں بسانے کی مخالفت کی۔اس پالیسی کوامریکی یہودی لابی نے اسرائیل کی سکیورٹی اوربقاپرحملہ تصورکیا۔اوبامااورنیتن یاہوکی ذاتی اورسیاسی کشمکش وتناؤ اس دورکا حصہ رہی۔اس تناؤنے یہ تاثرمضبوط کیاکہ اوبامااسرائیل اوریہودی لابی کی روایتی حمایت سے کچھ فاصلے پرکھڑے تھے۔ایران ڈیل کی حمایت کرنے والاامریکی صدر،اسرائیل اوراس کی لابی کی نظروں میں’’مخالف‘‘قرار پایا۔ نیتن یاہواوراوباماکی سردمہری نے اسرائیل ۔ امریکاتعلقات میں عارضی تناؤپیداکیا، تاہم روایتی امداداوراسٹریٹجک اتحادبرقراررہا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ رچرڈنکسن اوربارک اوباماکی مثال اس تاریخی سچائی کاحصہ ہے کہ امریکاکی داخلی سیاسی بساط پریہودی لابیوں اوراسرائیلی اثرورسوخ کاغیرمعمولی اثرہے۔ نکسن کادوراس بات کی مثال ہے کہ امریکی صدور کو اسرائیل کی پالیسیوں پر آزادی یاتذبذب کی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔اوباماکادوریہ درس دیتاہے کہ ایک مضبوط صدر،جو سفارت کاری اورامن کی زبان بولے،بھی لابیوں اورتنظیموں کی طاقت کا سامنا کرتے ہوئے تنقید،سیاسی دبااور تاریخی جدوجہد کا حصہ بن سکتاہے۔نکسن اوراوباماکی مثال اس امر کا بھی اعلان ہے کہ اسرائیل کی پالیسیوں اوراس کی لابیوں کا اثر امریکی نظامِ سیاست اوراقتدارکی راہ گزرپرکس حدتک محیط ہے۔
امریکی سیاسی روایت گواہ ہے کہ اسرائیلی لابی کسی بھی صدریاقانون سازکو،جواس کی پالیسی یا مفادات سے متصادم ہو،مختلف محاذوں پرچیلنج کرسکتی ہے۔ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اوردیگربڑے ذرائع ابلاغ میں اسرائیل نواز بیانیے کافروغ سب سے بڑاہتھیارہوتاہے۔ دوسرااسرائیلی لابی اپنے مالی اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہمات میں تمام سیاسی پارٹیوں میں چندہ اورسرمایہ کاری کابے دریغ استعمال کرتی ہیں۔قانون سازمحاذمیں مضبوط عمل دخل کے ساتھ سینیٹ اورایوانِ نمائندگان میں اسرائیل حامی ارکان کامحاذآرائی پرآمادہ ہونابھی اس بات کی دلیل ہے اوراس کے ساتھ ہی پینٹاگون اوراسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اسرائیل نوازبیوروکریٹس کامؤثر انتظامی دباؤبھی حکومت کومجبور کردیتاہے۔تین تاریخی مثالوں سے باآسانی سمجھاجاسکتاہے۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل اوریہودی یہودی لابیوں اور میں اسرائیل کی اسرائیلی لابی اس کی پالیسی کی پالیسیوں نے اسرائیل اسرائیل کا کہ اسرائیل یہودی لابی نہیں بلکہ کرتے ہوئے اوراس کی کاحصہ بن کرنے کی کی لابی کے ساتھ

پڑھیں:

ایلون مسک کو نئی امریکی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان مہنگا پڑ گیا

ایلون مسک کو نئی امریکی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان مہنگا پڑ گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 8 July, 2025 سب نیوز

نیویارک(آئی پی ایس) دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کو نئی امریکی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان مہنگا پڑ گیا۔
ان کی کمپنی ٹیسلا کے شیئرز میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے، جس سے کمپنی کی مالیت میں تقریباً 76 ارب ڈالر کی کمی ہو گئی۔
برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق پیر کو ٹریڈنگ کے آغاز پر ٹیسلا کے حصص کی قیمت میں 7.5 فیصد کمی دیکھی گئی، جس کی وجہ ایلون مسک کی جانب سے نئی “امریکا پارٹی” کے قیام کا اعلان بتایا جا رہا ہے۔


یہ گراوٹ سرمایہ کاروں کے اس خدشے کے باعث سامنے آئی کہ سیاست میں مسک کی دلچسپی ٹیسلا کی توجہ اور ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک کی سیاسی جماعت کے قیام کو “مضحکہ خیز” قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر ان پر تنقید کے تیر برسا دیے۔ ٹرمپ نے کہا، “ایلون مسک مکمل طور پر پٹڑی سے اتر چکے ہیں، اور ایک ٹرین ریک بن گئے ہیں۔”


ایلون مسک نے اپنے پلیٹ فارم X (سابق ٹوئٹر) پر لکھا: “ہم ایک جماعتی نظام میں جی رہے ہیں، جمہوریت میں نہیں۔ ’امریکا پارٹی‘ آپ کو آپ کی آزادی واپس دلانے کے لیے بنائی گئی ہے۔”
اس صورتحال کے بعد سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایلون مسک کی توجہ کمپنیوں سے ہٹ کر سیاست کی طرف چلی جائے گی، جو ٹیسلا کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسرکاری ملازمین اور ٹیکس کی وصولی برطانیہ نے ایران میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھول دیا عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں جلد سماعت کرنے کی استدعا مناسب وقت پر ایران پر سے پابندیاں اٹھالوں گا، امریکی صدر اسرائیل غزہ کے 75 فی صد زیر قبضہ علاقے کو خالی کرنے کے لیے آمادہ روسی وزیرِ ٹرانسپورٹ نے برطرفی کے چند گھنٹوں بعد خودکشی کرلی اسرائیل بے لگام، لبنان کے شمالی، مشرقی اور جنوبی علاقوں پر فضائی حملے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • کچھ تاریخی حقیقتیں
  • ابراہم ایکارڈ معاہدہ دو ریاستی حل کسی صورت منظور نہیں‘ باقر عباس
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود خصوصی آپریشنز، حزب اللہ خاموش
  • نیتن یاہو کی غزہ پر کسی بڑے پیشرفت کے بغیر امریکا سے واپسی؛ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوا
  • امریکی ٹیرف پالیسی عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے نقصان دہ
  • پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی کردار سے انکار  پر بھارت جھوٹا قرار
  • ایلون مسک کو نئی امریکی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان مہنگا پڑ گیا
  • گریٹر اسرائیل ‘امریکی و یہودی لابی خواہ کتنی کوشش کر لے ناکام ہوگی ‘اسامہ رضی
  • پاکستان میں ہائبرڈ ماڈل مکمل فعال، طاقتور حلقے پس پردہ نہیں رہے