اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
کالم پڑھتے ہوے قارئین کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ کالم میں درج اقلیتوں کے حقوق اسلامی ریاست کے لئے دین اسلام نے بتائے ہیں،ھمارے حکمرانوں ،اعلی سرکاری حکام میڈیا پہ چھائے ہوئے دانشوروں اینکروں،اینکرنیوں، ملحدوں،اور لنڈے کے لبرلز کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ریاست پاکستان کو سیکولر، یہاں کی نوجوان نسل کو بے حیاء ،گستاخ اور ملحد بنا کر پھر ان سے توقع یہ رکھتے ہیں کہ وہ عورتوں ،بزرگوں،اقلیتوں وغیرہ کے اسلامی حقوق ادا کرنے والے بن جائیں ،یورپ سے مرعوب منافقین کے اس مخصوص گروہ کو کوئی بتائے کہ کیکر کے درخت پہ آم تلاش کرنے والے کو دماغی بیمار سمجھا جاتا ہے، اس لئے اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کاسیاپا ڈالنے والے این جی او مارکہ ڈالر خوروں کو چاہئے کہ پہلے وہ ریاست پاکستان میں حقیقی نظام اسلام کے نفاذ کو یقینی بنائیں،تاکہ پوری قوم اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق سمیت تمام انسانوں کے اسلامی حقوق ادا کرنے والے بن جائیں ،قرآن پاک میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی سازشی سرگرمی میں ملوث ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے،
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک۔(الممتحنة: ۸)
اسلامی ریاست میں تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا، جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انھیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن کے مسلمان ہیں۔تحفظ جان:جان کے تحفظ میں ایک مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا یکساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کی جان کا تحفظ کرے اور انھیں ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔ (بخاری شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرمِ، ج:۱، ص: ۴۴۸)
حضرت عمر نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:”میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے عہد کو وفا کیا جائے، ان کی حفاظت و دفاع میں جنگ کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔“(۱)
تحفظ مال:اسلامی ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں کے مال وجائیداد کا تحفظ کرے گی، انھیں حق ملکیت سے بے دخل کرے گی نہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ، حتیٰ کہ اگر وہ جزیہ نہ دیں، تو اس کے عوض بھی ان کی املاک کو نیلام وغیرہ نہیں کرے گی۔ حضرت علی نے اپنے ایک عامل کو لکھا:”خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے اور ان کے کپڑے ہرگز نہ بیچنا۔“(۲)ذمیوں کو مسلمانوں کی طرح خرید و فروخت، صنعت و حرفت اور دوسرے تمام ذرائع معاش کے حقوق حاصل ہوں گے، اس کے علاوہ، انھیں اپنی املاک میں مالکانہ تصرف کرنے کا حق ہوگا، وہ اپنی ملکیت وصیت و ہبہ وغیرہ کے ذریعہ دوسروں کو منتقل بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی جائیدادانھیں کے ورثہ میں تقسیم بھی ہوگی، حتیٰ کہ اگر کسی ذمی کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا تھا اور وہ مرگیا تو اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثہ پر کوئی دباؤ ڈالا جائے گا۔کسی جائز طریقے کے بغیر کسی ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔(۳) تحفظِ عزت و آبرو:مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، اسلامی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔
4۔عدالتی و قانونی تحفظ:فوج داری اور دیوانی قانون ومقدمات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یکساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ مذہبی آزادی:ذمیوں کو اعتقادات و عباداتح اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:
دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔(البقرہ)
وہ بستیاں جو امصار المسلمین (اسلامی شہروں) میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ امصار المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں اور جو ان کے دین و دھرم میں حرام ہیں، تو ان کے اعلانیہ ارتکاب سے انھیں روکا جائے گا۔ خواہ وہ امصار المسلمین میں ہوں یا اپنے امصار میں ہوں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں کیا جائے گا اسلامی ریاست کرسکتے ہیں اور مذہبی کے حقوق نہیں کی اور ان کے لیے ہوں گے
پڑھیں:
سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے لیے جائیداد خریدنے کا نیا نظام منظور
سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو مخصوص شرائط کے تحت جائیداد خریدنے کی اجازت دینے کے لیے ایک جامع قانونی فریم ورک کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ منگل کے روز ولی عہد ووزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں کیا گیا۔
وزیر بلدیات و رہائش اور جنرل اتھارٹی برائے املاک کے سربراہ ماجد بن عبداللہ الحقیل کے مطابق نیا نظام مملکت میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو مزید متحرک کرنے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی غرض سے تیار کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’پرتگالی ہوں، لیکن سعودی عرب سے ہوں‘ رونالڈو کا النصر کے ساتھ نئی کامیابیوں کا عزم
ان کا کہنا تھا کہ اس نظام کے تحت ریاض اور جدہ سمیت بعض شہروں میں غیر ملکیوں کو مخصوص حدود میں جائیداد خریدنے کی اجازت دی جائے گی، جبکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہروں میں کچھ شرائط کے تابع ہوگی۔
نئے نظام کے تحت عمومی اتھارٹی برائے املاک کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان جغرافیائی حدود کی نشاندہی کرے جہاں غیر ملکیوں کو ملکیتی حقوق یا دیگر عینی حقوق حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔
اس سلسلے میں آئندہ 180 دنوں کے اندر مجوزہ لائحہ عمل (استطلاع) پلیٹ فارم پر پیش کیا جائے گا، جس کے بعد اس کی حتمی منظوری متوقع ہے۔ نظام کا باقاعدہ نفاذ جنوری 2026 میں متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب کا ایران اسرائیل جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم
سرکاری اعلامیے کے مطابق، اس لائحہ عمل میں غیر ملکیوں کے لیے جائیداد کے قانونی حقوق کے حصول کے طریقہ کار، ان پر عائد ذمہ داریوں، اور معاشی و سماجی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل تفصیلات شامل ہوں گی۔
نئے قواعد اقامہ پلس نظام اور خلیجی ممالک کے شہریوں کو حاصل جائیداد کے حقوق سے متعلق ضوابط کے ساتھ ہم آہنگ کیے گئے ہیں، تاکہ قانونی یکسانیت اور پائیدار سرمایہ کاری کا ماحول یقینی بنایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Saudi Arab پراپرٹی جائیداد زمین سعودی عرب