سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے لیے جائیداد خریدنے کا نیا نظام منظور
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو مخصوص شرائط کے تحت جائیداد خریدنے کی اجازت دینے کے لیے ایک جامع قانونی فریم ورک کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ منگل کے روز ولی عہد ووزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں کیا گیا۔
وزیر بلدیات و رہائش اور جنرل اتھارٹی برائے املاک کے سربراہ ماجد بن عبداللہ الحقیل کے مطابق نیا نظام مملکت میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو مزید متحرک کرنے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی غرض سے تیار کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’پرتگالی ہوں، لیکن سعودی عرب سے ہوں‘ رونالڈو کا النصر کے ساتھ نئی کامیابیوں کا عزم
ان کا کہنا تھا کہ اس نظام کے تحت ریاض اور جدہ سمیت بعض شہروں میں غیر ملکیوں کو مخصوص حدود میں جائیداد خریدنے کی اجازت دی جائے گی، جبکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہروں میں کچھ شرائط کے تابع ہوگی۔
نئے نظام کے تحت عمومی اتھارٹی برائے املاک کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان جغرافیائی حدود کی نشاندہی کرے جہاں غیر ملکیوں کو ملکیتی حقوق یا دیگر عینی حقوق حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔
اس سلسلے میں آئندہ 180 دنوں کے اندر مجوزہ لائحہ عمل (استطلاع) پلیٹ فارم پر پیش کیا جائے گا، جس کے بعد اس کی حتمی منظوری متوقع ہے۔ نظام کا باقاعدہ نفاذ جنوری 2026 میں متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب کا ایران اسرائیل جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم
سرکاری اعلامیے کے مطابق، اس لائحہ عمل میں غیر ملکیوں کے لیے جائیداد کے قانونی حقوق کے حصول کے طریقہ کار، ان پر عائد ذمہ داریوں، اور معاشی و سماجی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل تفصیلات شامل ہوں گی۔
نئے قواعد اقامہ پلس نظام اور خلیجی ممالک کے شہریوں کو حاصل جائیداد کے حقوق سے متعلق ضوابط کے ساتھ ہم آہنگ کیے گئے ہیں، تاکہ قانونی یکسانیت اور پائیدار سرمایہ کاری کا ماحول یقینی بنایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Saudi Arab پراپرٹی جائیداد زمین سعودی عرب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پراپرٹی میں غیر ملکیوں کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی افغانستان کے خلاف قرارداد کیا روس کے ردعمل میں منظور کی گئی؟
7 جولائی کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں افغانستان میں انسانی حقوق اور خواتین کی حالتِ زار سے متعلق افغان حکومت کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ چارٹر کے کسی آرٹیکل کا حوالہ نہیں دیا گیا لیکن چارٹر کے آرٹیکل ایک اور 55 کے اصولوں کے تحت یہ قرارداد منظور کی گئی جن میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی ذمے داریوں کا ذکر ہے۔
اس قرارداد کو 116 ممالک کی حمایت حاصل ہوئی، جبکہ امریکا اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی، اور 12 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ بھارت نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد میں افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں، دہشتگردی کے خطرات اور انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تشویش کا اظہار
قرارداد میں طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں، دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کریں اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنائیں۔
3 جولائی کو روس نے افغان طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرلیا تھا جو کہ بین الاقوامی طور پر افغان حکومت کے تسلیم کیے جانے کی طرف ایک قدم تھا۔ اس سے قبل چین، ترکیہ، پاکستان، متحدہ عرب امارات، ایران اور آذربائیجان کے افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں لیکن مذکورہ ممالک نے بھی افغان طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا۔
کیا مذکورہ قرارداد بین الاقوامی طور پر افغان طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کی طرف ایک رکاوٹ بن سکتی ہے اور اس قرارداد کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں ہم نے سفارتی ماہرین سے اُن کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔
یہ افغان حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے، آصف درانیافغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ افغان حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ روس کی طرف سے افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرنے پر کوئی ردعمل دیا گیا ہو۔ افغان طالبان کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں بھی مقدمات چل رہے ہیں۔
امریکا اور اسرائیل کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت پر آصف درانی نے کہا کہ وہ کس منہ سے اس کی حمایت کریں گے جبکہ وہ خود فلسطینیوں کی نسل کُشی میں ملوث ہیں۔
ایسی قراردادوں کا مقصد کسی ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنا ہوتا ہے، علی سرور نقویسینٹر آف انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس طرح کی قراردادوں کا مقصد کسی ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنا ہوتا ہے لیکن افغان طالبان حکومت کے خلاف ایسی ہی آبزرویشنز بین الاقوامی عدالت انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بھی دے چُکی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے ریسپانسیبیلیٹی ٹو پروٹیکٹ آرٹیکل کا اطلاق تو نہیں کیا گیا لیکن یہ اُسی کی روشنی میں یا اُس میں دیے گئے اُصولوں کے تحت منظور کی گئی ہے۔ اس آرٹیکل کا اطلاق لیبیا میں بھی کیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اِس کا اطلاق غزہ میں کیوں نہیں کیا جا رہا۔ یہ طاقتور مُلکوں کی دوغلی پالیسیاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے امدادی مشن کا افغانستان پر فضائی حملے کی تحقیقات پر زور
امریکا اور اسرائیل کی مخالفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اُن کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ روس کی جانب سے افغان حکومت کو تسلیم کیے جانے کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل افغان طالبان اقوام متحدہ امریکا روس عالمی قوانین قرارداد وی نیوز