ایک بیان میں سربراہ پاکستان سنی تحریک نے کہا کہ ابراہم اکارڈ کے نام سے امریکہ اور اسرائیل ڈرامہ بازی اور جھانسہ دینے کی فنکاری کررہے ہیں، اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور ابراہم اکارڈ کا جھانسہ دے کر فلسطینیوں کی آزادی سلب اور اسرائیل کو منوانے کی سازش رچائی جارہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سربراہ پاکستان سنی تحریک محمد شاداب رضا نقشبندی نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی حق خود ارادیت آزاد فلسطین میں رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گئی، اسرائیل ناجائز ریاست ہے اس کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا، ابراہم معاہدہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور امن کے جھانسے کی آڑ میں فلسطینیوں کی آزادی چھیننے کے سوا کچھ نہیں ہے، اسرائیل کو پاکستان کے عوام کسی صورت قبول نہیں کریں گے، اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے سازشوں سے باز آجائیں، اسرائیل سے تانے بانے جوڑنے والے فلسطین اور کشمیر کاز کے دشمن گردانے جائیں گے، قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا، قائداعظم کا یہ فیصلہ نظریاتی اور اسلامی روح کے تحت تھا، فلسطینیوں کی آزادی ان کا مقدر ہے، اسرائیل کا ساتھ دینے والوں کو پاکستان کی زمین قبول نہیں کریگی، اسرائیل کا خاتمہ ہوکر رہے گا، ابراہم اکارڈ فلسطینیوں کی آزادی میں رکاوٹ اور اسرائیل کو تسلیم کرانے کا جھانسہ ہے، امریکا  اسرائیل کے غاصبانہ و جابرانہ تسلط کو تسلیم کرانے کیلئے مسلم ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے اور آسان شرائط پر قرضوں کا لالچ دے رہا ہے، اسرائیل کی حیثیت کمزور ہوچکی فلسطین کے عوام اپنے حقوق اور آزاد فلسطین کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں، نیتن یاہو کو گرفتار کرنے اور جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنے کی بجائے ابراہم اکارڈ کا کھیل انصاف کا قتل اور عالمی قوانین کو روندنے کے مترادف ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ابراہم اکارڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔

محمد شاداب رضا نقشبندی نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل فلسطین کے عوام کی آزادی سلب اور اسرائیل کو تسلیم کرانے کیلئے امن سے خوشحالی کی طرف کا جھانسہ دے رہے ہیں، فلسطین و غزہ میں اسرائیلی حملے مسلسل جاری ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر وہاں شہادتیں ہورہی ہیں، امریکہ امن معاہدے کی آڑ لینے کی بجائے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کروا رہا ہے، اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور ابراہم اکارڈ کا جھانسہ دے کر فلسطینیوں کی آزادی سلب اور اسرائیل کو منوانے کی سازش رچائی جارہی ہے، مسلم حکمران یاد رکھیں قرآن پاک کا فیصلہ ہے یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے، مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کی سازشوں سے ہوشیار ہوجائیں، فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس سے اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کیلئے عالمی سطح پر آواز بلند کریں، سلامتی کونسل نے جب بھی غزہ جنگ بندی کی قرارداد منظور کی امریکا اس کا سب سے بڑا مخالف رہا ہے، اقوام متحدہ اور عالمی فوجی عدالت آج کہاں ہے کیوں نیتن یاہو کو گرفتار نہیں کیا جارہا، ابراہم اکارڈ کے نام سے امریکہ اور اسرائیل ڈرامہ بازی اور جھانسہ دینے کی فنکاری کررہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی آزادی امریکہ اور اسرائیل اور اسرائیل کو ابراہم اکارڈ کا جھانسہ کو تسلیم رہا ہے

پڑھیں:

اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے ایک قرارداد کی منظوری دے دی ہے۔ یہ قرارداد 142 ممالک کے ووٹوں سے منظور ہوئی۔ امریکا اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ واضح رہے کہ یہ قرارداد ’’نیویارک ڈیکلریشن‘‘ پر مبنی ہے جو فرانس اور سعودی عرب نے جولائی میں تیار کی تھی اور جسے عرب لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ اس اعلامیے کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل میں نئے سرے سے جان ڈالنا ہے لیکن اس میں فلسطینی تنظیم حماس شامل نہ ہو۔ یہ ووٹنگ عالمی رہنمائوں کی 22 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات سے قبل منعقد ہوئی ہے۔ قرارداد کی تمام خلیجی عرب ریاستوں نے حمایت کی۔ قرارداد کے منظور شدہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکام مشن کی تعیناتی کی حمایت کی گئی ہے۔ اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے امریکا کا کہنا تھا کہ اس سے سنجیدہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے، یہ غلط سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ امریکی سفارت کار مورگن اورٹیگس نے جنرل اسمبلی میں کہا کہ یقین رکھیے، یہ قرارداد حماس کے لیے تحفہ ہے، امن کو فروغ دینے کے بجائے اس کانفرنس نے جنگ کو طول اور حماس کو حوصلہ دیا ہے۔ اسرائیل، جو طویل عرصے سے اقوامِ متحدہ پر الزام لگاتا آیا ہے کہ اس نے 7 اکتوبر کے حملوں پر حماس کا نام لے کر مذمت نہیں کی، اس نے بھی جنرل اسمبلی کے اعلامیے کو یکطرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا اور ووٹ کو تماشا قرار دیا۔ قرارداد میں حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کی شدید مذمت کی گئی اور حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت چھوڑ دے، ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے، اور تمام یرغمالوںکو رہا کرے۔ واضح رہے کہ 22 ستمبر کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی 80 ویں تاسیس کے موقع پر جنرل اسمبلی میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہورہا ہے، جس کا مرکزی ایجنڈا اقوامِ متحدہ کی اسی سالہ تاریخ کا جائزہ لینا، ماضی کی کامیابیوں پر غور کرنا اور مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی مرتب کرنا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس اجلاس کے موقع پر برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، بلجیم اور دیگر ممالک باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ ادھر نیتن یاہو نے قرارداد کی منظوری پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ’’کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہیں انہوں نے فلسطینی مغربی کنارے میں نئی متنازع آباد کاری کے توسیعی منصوبے پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے متنازع توسیعی منصوبے کے تحت اسرائیلی آباد کاروں کے لیے 3400 نئے گھر بنائے جائیں گے، مقبوضہ بیت المقدس سے مغربی کنارے کا بیش تر حصہ منقطع کردیا جائے گا اور اس علاقے میں دیگر اسرائیلی آباد کاروں کی بستیوں کو ساتھ ملایا جائے گا۔ بادی النظر میں دو ریاستی حل کی قرارداد مسئلہ فلسطین کے باب میں ایک اہم پیش رفت محسوس ہو رہی ہے تاہم بنظر غائر دیکھا جائے تو جسے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین پر پیش رفت خیال کیا جارہا ہے وہ اس کے سو ا کچھ نہیں کہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر اسرائیل کو قانونی حیثیت دے دی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوامِ عالم ایک ایسا فیصلہ کرتی جو عدل و انصاف اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ ہو تا، اس فیصلے میں مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت کی جاتی مگر حق و انصاف کی راہ اپنانے اور اسرائیل کو جارحیت سے روکنے کے بجائے سارا زور اس بات پر رہا کہ حماس غیر مسلح ہو جائے، اپنے ہتھیار حوالے کردے اور یرغمالیوں کو رہا کردے اور غزہ کی حکومت چھوڑ دے، سوال یہ ہے کہ حماس کے غیر مسلح ہونے کا جواز کیا ہے؟ یرغمالیوں کو کس بنیاد پر رہا کیا جائے؟ عزہ پر حماس کی حکومت ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، جسے تسلیم نہیں کیا گیا، حقائق، اصول اور بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کر کے حماس کو بے دست و پا کرنے کی کوشش دراصل فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اسے اقوامِ متحدہ اور مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل نامی شجرِ خبیثہ کا بیج برطانیہ نے بویا، اس کی نمو کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کا فریضہ اقوامِ متحدہ نے انجام دیا اور جس کی نگہداشت امریکا اور مغربی طاقتیں کر رہی ہیں، مغربی طاقتوں کی اسی بے جا حمایت اور سرپرستی نے اسرائیل کو معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اسرائیل کی پوری تاریخ اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ وہ کسی طور فلسطین کی سرزمین سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں 1947 میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیش کیا جانے والے پارٹیشن پلان ہو یا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ یا اوسلو معاہدہ، صہیونی قیادت اسرائیل کے قیام سے قبل ہی گریٹر اسرائیل کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے، اب تو خود نیتن یاہو بھی کھل کر اپنے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ گریٹر اسرائیل کے ایک تاریخی اور روحانی مشن پر ہیں اور یہ کہ وہ گریٹر اسرائیل کے وژن سے خود کو منسلک محسوس کرتے ہیں، جس میں فلسطینی ریاست کے لیے مخصوص علاقے اور موجودہ اردن اور مصر کے ممکنہ حصے شامل ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود ہی بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جبکہ قابض طاقت کے طور پر جو پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں اور جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ سب بھی غیر قانونی ہیں۔ یہ حقیقت کس سے مخفی ہے کہ 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہودی کمیونٹی کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے قیام میں ان کی مدد کی جائے گی، جس کے بعد بڑے پیمانے پر یہودیوں کی نقل مکانی میں ان کی مدد کی گئی، دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسایا گیا، فلسطینیوں کی زمینیں جبراً ضبط کر کے انہیں یہودی آباد کاری کے حوالے کیا گیا۔ اقوام عالم کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دو ریاستی حل کسی طور فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں، اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ ضروری ہے۔ دنیا اگر مسئلہ فلسطین واقعتا حل کرانا چاہتی ہے تو اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور یہ کہ بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے، جس میں مسلح مزاحمت بھی شامل ہے۔ قرارداد کی منظوری سے یہ سمجھ لینا کہ یہ مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے سراسر عاقبت نااندیشی ہے، آج اگر طاقت اور قبضے کو بطور دلیل تسلیم کرلیا گیا توکمزور اقوام کے پاس جینے کا حق نہیں رہ سکے کا اور ان غیر منصفانہ اقدامات اور فیصلوں کے نتیجے میں دنیا طواف الملوکی کا منظر پیش کرے گی اور خطے میں قیامِ امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • ایک شخص نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پی ٹی آئی کو کرش کیا، عدلیہ کو اپنے ساتھ ملالیا، عمران خان
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد
  • قطر اور فلسطین کے ساتھ بنگلہ دیش کا غیر متزلزل اظہار یکجہتی، اسرائیل کو نکیل ڈالنے کا مطالبہ