اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی افغانستان کے خلاف قرارداد کیا روس کے ردعمل میں منظور کی گئی؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
7 جولائی کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں افغانستان میں انسانی حقوق اور خواتین کی حالتِ زار سے متعلق افغان حکومت کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ چارٹر کے کسی آرٹیکل کا حوالہ نہیں دیا گیا لیکن چارٹر کے آرٹیکل ایک اور 55 کے اصولوں کے تحت یہ قرارداد منظور کی گئی جن میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی ذمے داریوں کا ذکر ہے۔
اس قرارداد کو 116 ممالک کی حمایت حاصل ہوئی، جبکہ امریکا اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی، اور 12 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ بھارت نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد میں افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں، دہشتگردی کے خطرات اور انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تشویش کا اظہار
قرارداد میں طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں، دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کریں اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنائیں۔
3 جولائی کو روس نے افغان طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرلیا تھا جو کہ بین الاقوامی طور پر افغان حکومت کے تسلیم کیے جانے کی طرف ایک قدم تھا۔ اس سے قبل چین، ترکیہ، پاکستان، متحدہ عرب امارات، ایران اور آذربائیجان کے افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں لیکن مذکورہ ممالک نے بھی افغان طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا۔
کیا مذکورہ قرارداد بین الاقوامی طور پر افغان طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کی طرف ایک رکاوٹ بن سکتی ہے اور اس قرارداد کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں ہم نے سفارتی ماہرین سے اُن کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔
یہ افغان حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے، آصف درانیافغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ افغان حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ روس کی طرف سے افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرنے پر کوئی ردعمل دیا گیا ہو۔ افغان طالبان کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں بھی مقدمات چل رہے ہیں۔
امریکا اور اسرائیل کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت پر آصف درانی نے کہا کہ وہ کس منہ سے اس کی حمایت کریں گے جبکہ وہ خود فلسطینیوں کی نسل کُشی میں ملوث ہیں۔
ایسی قراردادوں کا مقصد کسی ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنا ہوتا ہے، علی سرور نقویسینٹر آف انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس طرح کی قراردادوں کا مقصد کسی ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنا ہوتا ہے لیکن افغان طالبان حکومت کے خلاف ایسی ہی آبزرویشنز بین الاقوامی عدالت انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بھی دے چُکی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے ریسپانسیبیلیٹی ٹو پروٹیکٹ آرٹیکل کا اطلاق تو نہیں کیا گیا لیکن یہ اُسی کی روشنی میں یا اُس میں دیے گئے اُصولوں کے تحت منظور کی گئی ہے۔ اس آرٹیکل کا اطلاق لیبیا میں بھی کیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اِس کا اطلاق غزہ میں کیوں نہیں کیا جا رہا۔ یہ طاقتور مُلکوں کی دوغلی پالیسیاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے امدادی مشن کا افغانستان پر فضائی حملے کی تحقیقات پر زور
امریکا اور اسرائیل کی مخالفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اُن کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ روس کی جانب سے افغان حکومت کو تسلیم کیے جانے کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل افغان طالبان اقوام متحدہ امریکا روس عالمی قوانین قرارداد وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل افغان طالبان اقوام متحدہ امریکا عالمی قوانین وی نیوز بین الاقوامی افغان طالبان منظور کی گئی افغان حکومت اقوام متحدہ حکومت کو حکومت کے کے خلاف کیا گیا ا رٹیکل اور اس
پڑھیں:
افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں. عاصم افتخار
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 جولائی ۔2025 )اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں صرف ہمارے لئے نہیں پوری دنیا کیلئے خطرہ ہیں، القاعدہ ، ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند افغانستان سے بدستور سرگرم ہیں ان خیالات کااظہارانہوں نے قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کیا.(جاری ہے)
پاکستان کے مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ ہمیں افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی دراندازی کا سامنا ہے، کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں چھوڑے گئے ہتھیار پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال ہو رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ یہ ہتھیار افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں گزشتہ دو ہفتوں کے حملے بھی شامل ہیں. انہوں نے کہاکہ افغانستان کسی بھی ملک کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، افغان سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے انہوں نے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا ہے کہ اس بات کے مستند شواہد موجود ہیں کہ دہشت گرد گروہوں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) ، اور مجید بریگیڈ کے درمیان بڑھتا ہوا گٹھ جوڑ قائم ہو چکا ہے جو ملک کے اسٹریٹیجک انفرااسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں. انہوں نے کہاکہ یہ گروہ افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں سے کام کر رہے ہیں پاکستانی مندوب نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوﺅں کی تعداد تقریبا 6 ہزار ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے، جو افغان سرزمین سے کام کر رہا ہے اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے. انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان دوبارہ ایسے دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بنے جو اپنے ہمسایوں اور وسیع تر عالمی برادری کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں جو اس خطے میں دوبارہ تنازع کو ہوا دے سکتے ہیں.