7 جولائی کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں افغانستان میں انسانی حقوق اور خواتین کی حالتِ زار سے متعلق افغان حکومت کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ چارٹر کے کسی آرٹیکل کا حوالہ نہیں دیا گیا لیکن چارٹر کے آرٹیکل ایک اور 55 کے اصولوں کے تحت یہ قرارداد منظور کی گئی جن میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی ذمے داریوں کا ذکر ہے۔

اس قرارداد کو 116 ممالک کی حمایت حاصل ہوئی، جبکہ امریکا اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی، اور 12 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ بھارت نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد میں افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں، دہشتگردی کے خطرات اور انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تشویش کا اظہار

قرارداد میں طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں، دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کریں اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنائیں۔

3 جولائی کو روس نے افغان طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرلیا تھا جو کہ بین الاقوامی طور پر افغان حکومت کے تسلیم کیے جانے کی طرف ایک قدم تھا۔ اس سے قبل چین، ترکیہ، پاکستان، متحدہ عرب امارات، ایران اور آذربائیجان کے افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں لیکن مذکورہ ممالک نے بھی افغان طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا۔

کیا مذکورہ قرارداد بین الاقوامی طور پر افغان طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کی طرف ایک رکاوٹ بن سکتی ہے اور اس قرارداد کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں ہم نے سفارتی ماہرین سے اُن کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

یہ افغان حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے، آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ افغان حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ روس کی طرف سے افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرنے پر کوئی ردعمل دیا گیا ہو۔ افغان طالبان کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں بھی مقدمات چل رہے ہیں۔

امریکا اور اسرائیل کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت پر آصف درانی نے کہا کہ وہ کس منہ سے اس کی حمایت کریں گے جبکہ وہ خود فلسطینیوں کی نسل کُشی میں ملوث ہیں۔

ایسی قراردادوں کا مقصد کسی ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنا ہوتا ہے، علی سرور نقوی

سینٹر آف انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس طرح کی قراردادوں کا مقصد کسی ملک کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنا ہوتا ہے لیکن افغان طالبان حکومت کے خلاف ایسی ہی آبزرویشنز بین الاقوامی عدالت انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بھی دے چُکی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے ریسپانسیبیلیٹی ٹو پروٹیکٹ آرٹیکل کا اطلاق تو نہیں کیا گیا لیکن یہ اُسی کی روشنی میں یا اُس میں دیے گئے اُصولوں کے تحت منظور کی گئی ہے۔ اس آرٹیکل کا اطلاق لیبیا میں بھی کیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اِس کا اطلاق غزہ میں کیوں نہیں کیا جا رہا۔ یہ طاقتور مُلکوں کی دوغلی پالیسیاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے امدادی مشن کا افغانستان پر فضائی حملے کی تحقیقات پر زور

امریکا اور اسرائیل کی مخالفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اُن کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ روس کی جانب سے افغان حکومت کو تسلیم کیے جانے کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسرائیل افغان طالبان اقوام متحدہ امریکا روس عالمی قوانین قرارداد وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل افغان طالبان اقوام متحدہ امریکا عالمی قوانین وی نیوز بین الاقوامی افغان طالبان منظور کی گئی افغان حکومت اقوام متحدہ حکومت کو حکومت کے کے خلاف کیا گیا ا رٹیکل اور اس

پڑھیں:

مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان

حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے
جنرل اسمبلی میں بھارتی نمائندے کے ریمارکس پرپاکستانی مندوب کا دوٹوک جواب

پاکستان نے اقوام متحدہ میں واضح کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ای چالان کیخلاف متفقہ قرارداد کے بعد کے ایم سی کا یوٹرن
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • پاکستان میں دہشتگردی کی پشت پر طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ نے تصدیق کردی