نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جولائی2025ء) اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں صرف ہمارے لئے نہیں پوری دنیا کیلئے خطرہ ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ ہمیں افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی دراندازی کا سامنا ہے، کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں چھوڑے گئے ہتھیار پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال ہو رہے ہیں، افغانستان کسی بھی ملک کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، افغان سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

عاصم افتخار کا مزید کہنا تھا کہ یقینی بنانا ہوگا افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے، القاعدہ، الخوارج، ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند افغانستان سے بدستور سرگرم ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پاک افغان ایڈیشنل سیکرٹری سطح مذاکرات کے دوران پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردی کو خطے کے امن کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مذاکرات کے دوران پاکستان نے افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی پر زور دیا اور کہا کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، دہشت گرد گروپس علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق مذاکرات میں فریقین نے تجارت و ٹرانزٹ تعاون کو گہرا کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان سے

پڑھیں:

افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات میں اضافے کا خدشہ، پاکستان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جولائی 2025ء) پاکستان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کو بتایا کہ اس کے پاس کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ جیسے دہشت گرد گروپوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کے معتبر ثبوت ہیں، جن کا مقصد ملک کے اسٹریٹجک انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ دہشت گردوں کے یہ گروپ افغانستان کے اندر ان مقامات سے کام کر رہے ہیں، جہاں حکومت کی رٹ بے اثر ہے۔

ان کی یہ تنبیہ ایک ایسے وقت آئی ہے، جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

(جاری ہے)

باجوڑ بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ افراد ہلاک

28 جون کو ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی شمالی وزیرستان میں فوجی قافلے سے ٹکرا دی تھی، جس کے نتیجے میں 16 فوجی ہلاک اور متعدد شہری زخمی ہو گئے تھے۔

اس کے چند روز بعد ہی باجوڑ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ سینیئر اہلکار اس وقت مارے گئے جب ان کی گاڑی معمول کے دورے کے دوران سڑک کنارے نصب بم سے ٹکرا گئی۔ پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ سے کیا کہا؟

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ دہشت گردوں کی جانب سے ایسے بیشتر حملے ان جدید ترین ہتھیاروں اور آلات سے کیے جاتے ہیں، جو سن 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے بعد بین الاقوامی افواج نے اپنے پیچھے چھوڑ دیے تھے۔

انہوں نے کہا، " گزشتہ دو ہفتوں کے دوران افغانستان میں مقیم دہشت گردوں نے ان جدید ترین ہتھیاروں کو پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کے لیے استعمال کیا ہے۔"

پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ اندازے کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریبا 6,000 جنگجو ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد یہ سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے، جو افغان سرزمین سے کام کر رہا ہے۔

انہوں بتایا کہ یہ گروپ نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔

پاکستان نے سکیورٹی خطرات کے درمیان افغانستان کے ساتھ اہم سرحدی گزرگاہ بند کردی

انہوں نے افغانستان میں سرگرم ایسے دیگر گروہوں کی بھی نشاندہی کی، جن میں آئی ایس-خراسان، القاعدہ اور مختلف بلوچ علیحدگی پسند دھڑے شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ افغانستان دہشت گردوں کی افزائش گاہ نہ بن جائے، جو اس کے پڑوسیوں اور وسیع تر عالمی برادری کے لیے خطرہ ہیں۔

" انہوں نے اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ معاملات کو "خراب کرنے والے" ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کریں، جو خطے میں دوبارہ تنازعات کو ہوا دے سکتے ہیں۔

ایران: ایک ماہ میں دو لاکھ تیس ہزار افغان مہاجرین کی واپسی

اسلام آباد اور کابل میں مذاکرات

کابل اور اسلام آباد نے پیر کے روز اپنے پہلے ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے مذاکرات کیے، جو گزشتہ اپریل میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے دوران طے پانے والے معاہدے کے تحت ہوئے۔

پاکستان کی طرف سے ایڈیشنل سیکریٹری (افغانستان اور مغربی ایشیا) سفیر سید علی اسد گیلانی نے نمائندگی کی جبکہ افغان فریق کی قیادت وزارت خارجہ میں فرسٹ پولیٹیکل ڈویژن کے ڈی جی مفتی نور احمد نور نے کی۔

زندگی بھر کی جمع پونجی سمیٹ کر پاکستان چھوڑنے کے لیے صرف 45 منٹ

اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بات چیت کے دوران فریقین نے تجارتی امور، ٹرانزٹ تعاون، سیکورٹی اور رابطے پر تبادلہ خیال کیا۔

دونوں فریقوں نے دہشت گردی کو علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ سلامتی کے مسائل کو حل کیے بغیر خطہ ترقی نہیں کر سکتا۔

اس موقع پر بھی پاکستانی وفد نے "افغان سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائیوں" کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے گروہ سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

پاکستان: شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی، 14 شدت پسند ہلاک

بات چیت کے دوران تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا جن میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت، 10 فیصد پروسیسنگ فیس کا خاتمہ، انشورنس گارنٹی کی فراہمی اور سکیننگ میں کمی اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو فعال کرنا شامل ہے۔

ملاقات کے دوران ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے فریم ورک معاہدے پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور دونوں فریقوں نے اسے جلد حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا۔

افغان شہریوں کی وطن واپسی بھی بحث کا اہم موضوع تھا۔

مذاکرات کا اگلا دور باہمی اتفاق سے تاریخوں پر طے کیا جائے گا، جس میں دونوں ممالک مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پائیدار تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کریں گے۔

ص ز/ ج ا نیوز ایجنسیاں

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں. عاصم افتخار
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مکمل، دہشتگردی علاقائی امن و سلامتی کیلئے مشترکہ خطرہ قرار
  • افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات میں اضافے کا خدشہ، پاکستان
  • افغانستان سے مذاکرات، دہشت گرد گروپوں کیخلاف ٹھوس کارروائیاں کی جائیں: پاکستان
  • دہشتگردی علاقائی امن و سلامتی کیلئے خطرہ، پاکستان و افغانستان کا اتفاق
  • دہشتگردی علاقائی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے، پاکستان اور افغانستان کا اتفاق
  • افغانستان سے مذاکرات، پاکستان کا دہشت گرد گروپوں کیخلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ
  • افغانستان سے مذاکرات، پاکستان کا دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ