پاکستان کے ٹیکس نظام سے متعلق ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ جاری
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
سٹی 42 : ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے ٹیکس نظام سے متعلق رپورٹ جاری کردی.
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اصلاحاتی اقدامات کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب خطے کے دیگر ممالک سےکم ہے، پاکستان میں ٹیکس بیس محض عددی طور پر بڑھا. نئے فائلرز میں سے اکثر نے یا تو کم آمدنی ظاہرکی یا ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کیا، کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کی بڑی وجہ ٹیکس نظام کی محدود رسائی ہے۔
سونے کی قیمت میں کمی
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ صرف رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے بجائے پالیسی کوبہتربنایا جائے، بہترپالیسیوں سے موجودہ ٹیکس دہندگان سے تعمیل کوبہتر اور ٹیکس وصولی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایف بی آر کو اپنی ترجیحات مؤثر طور پر طے کرنی چاہیے تاکہ بہتر نتائج حاصل ہوسکیں، رجسٹرڈ فائلرز کی تعداد میں اضافےکے باوجود خاطر خواہ محصولات حاصل نہیں ہوسکے، رجسٹرڈ فائلرز میں اضافے سے مالی شفافیت کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔
جیل روڈ پر پلازے میں آگ لگ گئی
رپورٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان کی ٹیکس وصولی تقریباً وہی تھی جو2007 میں تھی، اس سے ٹیکس اصلاحات کی مؤثریت پر سوال پیدا ہوتا ہے۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔