Islam Times:
2025-09-18@17:29:40 GMT

فرشِ عزائے حسینؑ اور ہمارا یزیدی کردار

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

فرشِ عزائے حسینؑ اور ہمارا یزیدی کردار

اسلام ٹائمز: کل تک عزاداری میں ہمارے آباء و اجداد کی وہ رسومات جن کے ذریعے بچوں اور جوانوں کی تربیت کی جاتی تھی آج مِٹ چکی ہیں۔ پاک لباس، مجلس سے پہلے غسل، وضو، علم اٹھانے سے پہلے دو رکعت نماز ہدیہ، نذر و نیاز کے برتنوں میں پورا سال کچھ کھانے پکانے کی ممانعت اور پھر نذر کے جھوٹے برتنوں کا پانی بھی کیاریوں میں ڈالنا تاکہ بے حرمتی نہ ہو۔ فرش عزا کا اتنا تقدس کہ ہر بچہ با ادب آکر بیٹھ جاتا تھا اور اسے جرائت نہیں ہوتی تھی کہ اٹھ کر باہر چلا جائے وہ وہیں سو جاتا تھا لیکن بزرگوں کے احترام میں باہر نہیں جاتا تھا۔ تحریر: حجت الاسلام یوشع ظفر حیاتی
قم المقدسہ
محرم الحرام 1447 ہجری

گزشتہ ایام میں عجیب، افسوس ناک، کریہہ و شرمناک واقعات دیکھنے اور سننے کو ملے کہ دردِ دل بیان کرنا ناگزیر ٹھیرا۔ کہیں فرش عزا پکنک پوائنٹ بنا ہوا ہے۔ کہیں جلوس عزا عشق و محبت کا سنگم بن چکا ہے تو کہیں ایسی خرافات عزاداری کے نام پر سامنے آرہی ہیں کہ جس پر انسانیت شرم سے پانی پانی پانی ہورہی ہے۔ مجھے یہ واقعات دیکھ کر بس قوم بنی اسرائیل یاد آئی کہ جن کا امام وقتی طور پر موجود نہیں اور نائبِ امام کی بات قوم نے سننی نہیں ہے۔ قوم پر ایسا سامری مسلط ہے جو قوم کے سرمایہ داروں سے بھاری رقوم نکلوا کر (اینٹھ کر) گوسالہ بنا رہا ہے اور اب خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کے بجائے صرف اسی گوسالے کی پرستش ہونی ہے جو دکھنے میں سنہرا ہے اور اس پر بہت سارا پیسہ لگ چکا ہے (خبردار کوئی اسے ذاکرین سے تشبیہ نہ دے)۔

ان خرافات کے سامنے قوم کا باشعور طبقہ اور امام کا نمائندہ اتنا بے بس ہے کہ دن رات خون کے آنسو رو رہا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ پورا سسٹم، سرمایہ دارانہ نظام اور جاھل عوام اسکے خلاف کھڑی ہے۔ ہم وہ مردہ اور بے حس قوم بن چکے ہیں جس نے اپنے مذہب کی سب سے زیادہ اہم اور حساس عبادتوں اور عزاداریوں کو بھی نہیں چھوڑا اور اس کا تقدس اپنے شہوت پرستانہ رویہ سے تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ کیا مقصدِ قیامِ امامِ عالی مقامؑ اتنا حقیر تھا کہ اسے سوشل میڈیا کے سورما اپنی نفسانی و دنیاوی اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کریں اور ان کو لگام دینے والا کوئی نہ ہو؟ یا اسکی ترویج کا ذمہ غیر اٹھائیں اور ہم محض حسینیت کا جھوٹا بھرم رکھیں اور باطن میں یزید کو بھی زندہ رکھیں؟

کل تک عزاداری میں ہمارے آباء و اجداد کی وہ رسومات جن کے ذریعے بچوں اور جوانوں کی تربیت کی جاتی تھی آج مِٹ چکی ہیں۔ پاک لباس، مجلس سے پہلے غسل، وضو، علم اٹھانے سے پہلے دو رکعت نماز ہدیہ، نذر و نیاز کے برتنوں میں پورا سال کچھ کھانے پکانے کی ممانعت اور پھر نذر کے جھوٹے برتنوں کا پانی بھی کیاریوں میں ڈالنا تاکہ بے حرمتی نہ ہو۔ فرش عزا کا اتنا تقدس کہ ہر بچہ با ادب آکر بیٹھ جاتا تھا اور اسے جرائت نہیں ہوتی تھی کہ اٹھ کر باہر چلا جائے وہ وہیں سو جاتا تھا لیکن بزرگوں کے احترام میں باہر نہیں جاتا تھا۔ 

حدیث کساء کی آواز آتے ہی فرش عزا عزاداروں سے بھر جاتی تھی۔ سادہ انداز میں سوز و سلام اور مرثیے، انتہائی علمی شخصیات کی خطابت اور روایتی نوحہ خوانی دلوں کو چیر کر رکھ دیتی تھی پھر تبرک میں انتہائی سادہ اور کم قیمت تبرکات بانٹے جاتے تھے چونکہ ہدف یہ تھا کہ عزاداری من حیث عبادت قائم و دائم رہے اور اسکا تقدس برقرار رہے۔ ہر محلے میں ایک انتہائی معزز اور دین دار شخصیت ان عزاداریوں کی رونق ہوتی تھی جن کا وجود برکت کی علامت ہوا کرتا تھا، لیکن آج نہ پاکی ناپاکی کا خیال نہ تقدس کا تصور، سوز اور نوحہ خوانوں کی جگہ بھانڈ مراثیوں نے، علمی شخصیات کی جگہ کم علم، فتنہ گر، اداکاروں نے ہتھیا لی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عزاداری ایک میلہ بن کر رہ گئی ہے۔ 

ہمارے اجداد کا خلوص اور جذبہ جس میں اللّہ کا کرم اور معصومین علیہم السلام کی سرپرستی جھلکتی تھی آج وہ ناپید ہو چکا ہے۔ وہ عزاداری جو ہمارے بچوں کی درس گاہ تھی اب شیطان سے نزدیک لانے کا کردار ادا کررہی ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس بات پہ فخر کیا کہ ہماری نسل کی تربیت فرشِ عزا پہ ہوتی ہے کیا آج بھی ہم فخریہ اس بات کا پرچار کر سکتے ہیں؟ تقوی، عزت، شجاعت، صداقت، فہم و شعور، اور دینداری کی جگہ ہمارے بچے آج کی رائج عزاداری سے بے دینی، فحاشی، جھوٹ، شہرت کی ہوس، بے شعوری اور ہوس پرستی کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔

ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے ایک دوسرے کا انتظار کررہے ہیں کہ کوئی اٹھے تو پھر فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہاں ایسا بھی نہیں کہ پورا معاشرہ یکسر خرافات کا شکار ہے بلکہ ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں کا مصداق بہت سارے افراد موجود ہیں جو اس عزاداری کے تحفظ کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور خون دل رو رہے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت بس نقار خانے میں طوطی کی آواز جتنی ہی نظر آرہی ہے۔

ظاہر ہے جہاں دین کے نام پر دینی اصطلاحات استعمال کرکے دین کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے اور محاذ بھی ایسا جس میں دنیا کی ہر رنگینی موجود ہو تو وہاں کسی باشعور فرد کی بات کہاں سنی جاتی ؟ ہم ایسے شش و پنج میں گرفتار ہوچکے ہیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر افسوس سے بیٹھے بیٹھے تھوک بھی رہے ہیں لیکن عملی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے چہروں پر خود ہمارا اپنا ہی تھوک پلٹ کر واپس آرہا ہے۔ قافلہِ حسینی آج بھی ہمارا منتظر ہے لیکن ہم رستہ بھٹکتے جا رہے ہیں۔ قریب ہے کہ ہم اپنے غیر کو اپنا ہادی و رہبر مان کے اپنے ہی امام کے مدِ مقابل کھڑے ہوں۔

فاعتبروا یا اولی الابصار

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی تربیت جاتا تھا رہے ہیں سے پہلے ہیں کہ ہے اور اور اس

پڑھیں:

دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی

ممبئی(شوبز ڈیسک) بھارتی ٹی وی کی مشہور اداکارہ دیشا وکانی نےمعروف ڈرامہ ”تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ“ میں دیا بین کا یادگار کردار نبھایا تھا لیکن وہ پچھلے سات سال سے شو سے غائب ہیں۔ان کے چہرے کے شرارتی تاثرات، منفرد لہجہ، دلچسپ گیربا ڈانس اور زبردست کامیڈی ٹائمنگ نے انہیں لاکھوں مداحوں کے دلوں میں بسا دیا۔

مداح کئی سالوں سے دیا بین کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اب ان کے بھائی اور شو میں بھی ان کے بھائی کا کردار نبھانے والے اداکار مایور وکانی (سندر لال) نے خاموشی توڑ دی ہے اور بتایا ہے کہ دیشا اب اس ڈرامے میں واپس نہیں آئیں گی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مایور وکانی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ،’میں دیشا سے دو سال بڑا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ اس نے کتنی محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ اسی لیے لوگ اسے اتنا پسند کرتے ہیں۔ اب وہ اپنی فیملی کو وقت دے رہی ہیں اور اسی کردار کو پوری لگن سے نبھا رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے والد ہمیشہ سکھاتے تھے کہ زندگی میں بھی ہم اداکار ہی ہیں اور جو بھی کردار ملے، اسے دیانتداری سے نبھانا چاہیے۔ دیشا اب حقیقی زندگی میں ماں کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ اسے بھی اسی لگن اور محنت سے نبھا رہی ہیں جس طرح وہ اداکاری کرتی تھیں۔‘

مایور نے مزید بتایا کہ ان کے والد ہی نے دیشا کو بچپن سے اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ’میں نے دیشا کی پہلی اسٹیج پرفارمنس دیکھی تھی جب وہ صرف پانچ سال کی تھیں اور بچوں کے شِبِر میں 90 سالہ خاتون کا کردار نبھا کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ تب ہی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اندر کچھ خاص ہے۔‘

مایور کا کہنا تھا کہ دیشا نے دیا بین کا کردار ایسے نبھایا کہ وہ گھر گھر کی پہچان بن گئیں اور ان کے والد کے لیے یہ کسی خواب کی تکمیل جیسا لمحہ تھا۔ لیکن اب دیشا سمجھتی ہیں کہ ماں کا کردار ان کی زندگی کا سب سے قیمتی کردار ہے۔

دیشا وکانی 2018 میں زچگی کی چھٹی پر گئی تھیں اور اس کے بعد واپس نہیں آئیں۔ شو کے پروڈیوسر اسِت مودی نے بھی مان لیا ہے کہ اب ان کے لیے شو میں واپس آنا مشکل ہے کیونکہ شادی کے بعد خواتین کی زندگی بدل جاتی ہے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ شوٹنگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیشا واپس نہ آئیں تو انہیں کسی اور اداکارہ کو دیا بین کے کردار کے لیے لینا پڑے گا۔

اگرچہ دیشا وکانی کی غیر موجودگی مداحوں کو محسوس ہوتی ہے، لیکن تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ اب بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔

یہ شو 17 سال سے نشر ہو رہا ہے اور اب تک 4500 سے زائد اقساط مکمل کر چکا ہے۔

اب کہانی صرف ایک کردار پر نہیں بلکہ گوکلدھم سوسائٹی کے تمام رہائشیوں کی زندگیوں اور مسائل کے گرد بھی گھومتی ہے جو ڈرامہ کو نیا رنگ اور تازگی بخش رہا ہے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • قطر ہمارا قریبی اتحادی ہے‘اسرائیل دوبارہ حملہ نہیں کرئے گا.صدرٹرمپ
  • پی ٹی آئی کے سینئر رہنما قاضی انور کی پارٹی قیادت پر تنقید
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  • قطر ہمارا اتحادی، اسرائیل دوحہ پر دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: امریکی صدر کی یقین دہانی
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ