فرشِ عزائے حسینؑ اور ہمارا یزیدی کردار
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کل تک عزاداری میں ہمارے آباء و اجداد کی وہ رسومات جن کے ذریعے بچوں اور جوانوں کی تربیت کی جاتی تھی آج مِٹ چکی ہیں۔ پاک لباس، مجلس سے پہلے غسل، وضو، علم اٹھانے سے پہلے دو رکعت نماز ہدیہ، نذر و نیاز کے برتنوں میں پورا سال کچھ کھانے پکانے کی ممانعت اور پھر نذر کے جھوٹے برتنوں کا پانی بھی کیاریوں میں ڈالنا تاکہ بے حرمتی نہ ہو۔ فرش عزا کا اتنا تقدس کہ ہر بچہ با ادب آکر بیٹھ جاتا تھا اور اسے جرائت نہیں ہوتی تھی کہ اٹھ کر باہر چلا جائے وہ وہیں سو جاتا تھا لیکن بزرگوں کے احترام میں باہر نہیں جاتا تھا۔ تحریر: حجت الاسلام یوشع ظفر حیاتی
قم المقدسہ
محرم الحرام 1447 ہجری
گزشتہ ایام میں عجیب، افسوس ناک، کریہہ و شرمناک واقعات دیکھنے اور سننے کو ملے کہ دردِ دل بیان کرنا ناگزیر ٹھیرا۔ کہیں فرش عزا پکنک پوائنٹ بنا ہوا ہے۔ کہیں جلوس عزا عشق و محبت کا سنگم بن چکا ہے تو کہیں ایسی خرافات عزاداری کے نام پر سامنے آرہی ہیں کہ جس پر انسانیت شرم سے پانی پانی پانی ہورہی ہے۔ مجھے یہ واقعات دیکھ کر بس قوم بنی اسرائیل یاد آئی کہ جن کا امام وقتی طور پر موجود نہیں اور نائبِ امام کی بات قوم نے سننی نہیں ہے۔ قوم پر ایسا سامری مسلط ہے جو قوم کے سرمایہ داروں سے بھاری رقوم نکلوا کر (اینٹھ کر) گوسالہ بنا رہا ہے اور اب خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کے بجائے صرف اسی گوسالے کی پرستش ہونی ہے جو دکھنے میں سنہرا ہے اور اس پر بہت سارا پیسہ لگ چکا ہے (خبردار کوئی اسے ذاکرین سے تشبیہ نہ دے)۔
ان خرافات کے سامنے قوم کا باشعور طبقہ اور امام کا نمائندہ اتنا بے بس ہے کہ دن رات خون کے آنسو رو رہا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ پورا سسٹم، سرمایہ دارانہ نظام اور جاھل عوام اسکے خلاف کھڑی ہے۔ ہم وہ مردہ اور بے حس قوم بن چکے ہیں جس نے اپنے مذہب کی سب سے زیادہ اہم اور حساس عبادتوں اور عزاداریوں کو بھی نہیں چھوڑا اور اس کا تقدس اپنے شہوت پرستانہ رویہ سے تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ کیا مقصدِ قیامِ امامِ عالی مقامؑ اتنا حقیر تھا کہ اسے سوشل میڈیا کے سورما اپنی نفسانی و دنیاوی اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کریں اور ان کو لگام دینے والا کوئی نہ ہو؟ یا اسکی ترویج کا ذمہ غیر اٹھائیں اور ہم محض حسینیت کا جھوٹا بھرم رکھیں اور باطن میں یزید کو بھی زندہ رکھیں؟
کل تک عزاداری میں ہمارے آباء و اجداد کی وہ رسومات جن کے ذریعے بچوں اور جوانوں کی تربیت کی جاتی تھی آج مِٹ چکی ہیں۔ پاک لباس، مجلس سے پہلے غسل، وضو، علم اٹھانے سے پہلے دو رکعت نماز ہدیہ، نذر و نیاز کے برتنوں میں پورا سال کچھ کھانے پکانے کی ممانعت اور پھر نذر کے جھوٹے برتنوں کا پانی بھی کیاریوں میں ڈالنا تاکہ بے حرمتی نہ ہو۔ فرش عزا کا اتنا تقدس کہ ہر بچہ با ادب آکر بیٹھ جاتا تھا اور اسے جرائت نہیں ہوتی تھی کہ اٹھ کر باہر چلا جائے وہ وہیں سو جاتا تھا لیکن بزرگوں کے احترام میں باہر نہیں جاتا تھا۔
حدیث کساء کی آواز آتے ہی فرش عزا عزاداروں سے بھر جاتی تھی۔ سادہ انداز میں سوز و سلام اور مرثیے، انتہائی علمی شخصیات کی خطابت اور روایتی نوحہ خوانی دلوں کو چیر کر رکھ دیتی تھی پھر تبرک میں انتہائی سادہ اور کم قیمت تبرکات بانٹے جاتے تھے چونکہ ہدف یہ تھا کہ عزاداری من حیث عبادت قائم و دائم رہے اور اسکا تقدس برقرار رہے۔ ہر محلے میں ایک انتہائی معزز اور دین دار شخصیت ان عزاداریوں کی رونق ہوتی تھی جن کا وجود برکت کی علامت ہوا کرتا تھا، لیکن آج نہ پاکی ناپاکی کا خیال نہ تقدس کا تصور، سوز اور نوحہ خوانوں کی جگہ بھانڈ مراثیوں نے، علمی شخصیات کی جگہ کم علم، فتنہ گر، اداکاروں نے ہتھیا لی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عزاداری ایک میلہ بن کر رہ گئی ہے۔
ہمارے اجداد کا خلوص اور جذبہ جس میں اللّہ کا کرم اور معصومین علیہم السلام کی سرپرستی جھلکتی تھی آج وہ ناپید ہو چکا ہے۔ وہ عزاداری جو ہمارے بچوں کی درس گاہ تھی اب شیطان سے نزدیک لانے کا کردار ادا کررہی ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس بات پہ فخر کیا کہ ہماری نسل کی تربیت فرشِ عزا پہ ہوتی ہے کیا آج بھی ہم فخریہ اس بات کا پرچار کر سکتے ہیں؟ تقوی، عزت، شجاعت، صداقت، فہم و شعور، اور دینداری کی جگہ ہمارے بچے آج کی رائج عزاداری سے بے دینی، فحاشی، جھوٹ، شہرت کی ہوس، بے شعوری اور ہوس پرستی کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔
ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے ایک دوسرے کا انتظار کررہے ہیں کہ کوئی اٹھے تو پھر فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہاں ایسا بھی نہیں کہ پورا معاشرہ یکسر خرافات کا شکار ہے بلکہ ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں کا مصداق بہت سارے افراد موجود ہیں جو اس عزاداری کے تحفظ کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور خون دل رو رہے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت بس نقار خانے میں طوطی کی آواز جتنی ہی نظر آرہی ہے۔
ظاہر ہے جہاں دین کے نام پر دینی اصطلاحات استعمال کرکے دین کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے اور محاذ بھی ایسا جس میں دنیا کی ہر رنگینی موجود ہو تو وہاں کسی باشعور فرد کی بات کہاں سنی جاتی ؟ ہم ایسے شش و پنج میں گرفتار ہوچکے ہیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر افسوس سے بیٹھے بیٹھے تھوک بھی رہے ہیں لیکن عملی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے چہروں پر خود ہمارا اپنا ہی تھوک پلٹ کر واپس آرہا ہے۔ قافلہِ حسینی آج بھی ہمارا منتظر ہے لیکن ہم رستہ بھٹکتے جا رہے ہیں۔ قریب ہے کہ ہم اپنے غیر کو اپنا ہادی و رہبر مان کے اپنے ہی امام کے مدِ مقابل کھڑے ہوں۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی تربیت جاتا تھا رہے ہیں سے پہلے ہیں کہ ہے اور اور اس
پڑھیں:
پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی کردار سے انکار پر بھارت جھوٹا قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: بین الاقوامی سفارتی منظرنامے پر ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بحث نے شدت اختیار کر لی ہے۔
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان سامنے آیا جس نے نئی دہلی کے سرکاری مؤقف کی بنیاد ہلا دی۔ بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی میں امریکا کا کردار نہ صرف موجود تھا بلکہ اس کی نوعیت اہم اور فیصلہ کن تھی، اس حوالے سے بھارتی حکومت کا مسلسل انکار جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زور دیا کہ موجودہ دور میں کسی ایک بیانیے پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ بعض اوقات بیانات اپنی حقیقت خود بیان کر دیتے ہیں اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی ملک کا سچ چھپانے کی کوشش بیکار ثابت ہوتی ہے جب زمینی حقائق اور سفارتی بیانات ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔
ٹیمی بروس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس معاملے میں کوششوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس حساس نوعیت کے تنازع پر واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا کردار ادا کیا۔
ترجمان کے مطابق ٹرمپ نے صرف بیان بازی نہیں کی بلکہ عملی سطح پر بھی خطے میں تناؤ کم کرنے کے لیے اقدامات کیے، جو قابلِ اعتراف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی اس عمل میں اہم شمولیت اختیار کی اور یہ کہنا کہ امریکا کا کوئی کردار نہیں تھا، حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارتی حکام بار بار میڈیا پر دعویٰ کر رہے تھے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان ہونے والی جنگ بندی صرف دو طرفہ بات چیت کا نتیجہ تھی اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہیں ہوئی۔
اس بھارتی مؤقف کو امریکا نے نہ صرف مسترد کیا بلکہ اسے جھوٹا اور گمراہ کن بھی قرار دیا۔ ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن اس مسئلے کو کتنی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے بھی متعدد مواقع پر اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرانے میں ان کا فعال کردار رہا ہے۔ ان کے اسی مؤقف کی بنیاد پر انہیں نوبیل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا، تاہم بھارتی حکومت اس دعوے کو ہمیشہ مسترد کرتی رہی ہے، جسے اب امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے براہ راست چیلنج کر دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کار اس پیش رفت کو خطے میں طاقت کے توازن کے حوالے سے نہایت اہم قرار دے رہے ہیں۔ اگر امریکا اس معاملے میں واقعی کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے، تو اس کا اثر نہ صرف پاک بھارت تعلقات پر پڑے گا بلکہ عالمی سفارتی توازن میں بھی تبدیلی آئے گی۔