آل محمد (ع) کے خطبات نے یزیدی ایوان میں زلزلہ بپا کیا، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
علامہ مقصود ڈومکی و دیگر نے کہا کہ جیکب آباد یوم عاشور کے جلوس پر کالعدم دہشتگرد تنظیم کے شرپسندوں کا حملہ نہایت افسوسناک اور شرمناک واقعہ ہے۔ اس واقعے میں کالعدم دہشتگرد تنظیم سپاہ یزید کے شرپسند عناصر ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ دربار یزید میں امام زین العابدین علیہ السلام کا خطبہ حق و صداقت کا روشن مینار ہے۔ آل محمد (علیہ السلام) کے ان خطبات نے یزیدی ایوان میں زلزلہ بپا کیا۔ جیکب آباد میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضرت امام زین العابدین سید الساجدین علیہ الصلوۃ والسلام کا دربار یزید میں تاریخی خطبہ، اہلِ بیت اطہار علیہ السلام کی جرأت، شجاعت، علم اور حق گوئی کا بے مثال نمونہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سید الساجدین علیہ السلام نے دربارِ یزید میں نہایت فصیح و بلیغ انداز میں خاندان اہل بیت علیہ السلام اور اپنی ذات گرامی کا تعارف کرایا اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان امتیازی صفات و فضائل کا ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ نے آل محمد (ص) کو خاص طور پر عطا فرمائیں۔ ان میں علم، حلم، سخاوت، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت اہل بیت علیہ السلام شامل ہیں۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ خاندان نبوت کی قدسی صفات شخصیات کے یہ خطبے تاریخ کا ایسا جری موقف ہے، جس میں ظلم و باطل کے ایوانوں میں کھڑے ہو کر حق و صداقت کی صدا بلند کی گئی، اور یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم حکمرانوں کو کھلے عام للکارا گیا۔ آل محمد (ص) کے ان خطبات نے یزیدی ایوان میں زلزلہ بپا کیا۔
مزید برآں، مرکزی امام بارگاہ جیکب آباد میں شیعہ اکابرین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ جیکب آباد یوم عاشور کے جلوس پر کالعدم دہشت گرد تنظیم کے شرپسندوں کا حملہ نہایت افسوسناک اور شرمناک واقعہ ہے۔ اس واقعے میں کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ یزید کے شرپسند عناصر ملوث ہیں، جو مسلسل فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان شرپسند عناصر کے خلاف قانون کے مطابق اے ٹی سی کی ایف آئی آر درج کی جائے تاکہ امن و امان کا قیام ممکن ہو اور عزاداران سید الشہداء علیہ السلام کو مکمل تحفظ دیا جا سکے۔ پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین عزاداری ونگ صوبہ سندھ کے صوبائی نائب صدر سید غلام شبیر نقوی، ایم ڈبلیو ایم ضلع جیکب آباد کے ضلعی صدر نذیر حسین جعفری، بزرگ شیعہ رہنماء قبلہ سید احسان علی شاہ بخاری، انجمن سپاہ علی اکبر ٹرسٹ کے وائس چیئرمین راجہ سید ریاض علی شاہ، مرکزی امام بارگاہ کے متولی سید محمد علی اصغر، ایم ڈبلیو ایم یوتھ ونگ کے ڈویژنل رہنماء اللہ بخش سجادی جاوید مغل و دیگر شریک تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا علیہ السلام جیکب آباد نے کہا کہ
پڑھیں:
حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کربلا کوئی قصۂ پارینہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور تازہ پیغام ہے جو ہر دور کے باطل کے سامنے سر بلند ہو کر حق کی صدا بلند کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ معرکہ صرف نیزوں، تلواروں اور خیموں کا نہیں تھا بلکہ اصول و حق اور باطل کے درمیان وہ جنگ تھی جو قیامت تک انسانیت کو راہ دکھاتی رہے گی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق امام حسینؓ کی شہادت محض ایک شخص کا نذرانۂ جاں نہ تھی بلکہ ایک گمراہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔ ایسا نظام جو خلافت کے لبادے میں ملوکیت بیچتا تھا، عدل کے نام پر ظلم کرتا اور اسلام کے نام پر فریب پھیلاتا رہا تھا۔ آج ہم بھی ایک ویسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک جانب ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف شخصی آمریت، مورثی سیاست اور مذہبی ملمع کاری ہے۔ وہی پرانے یزیدی چہرے اب نئی پگڑیوں کے نیچے اور وردیوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کیا امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار محض اقتدار کی جنگ کے لیے کیا تھا؟ ہرگز نہیں! ان کا پیغام واضح تھا جہاں دین کو دنیا کا کاروبار بنا دیا جائے وہاں خاموشی بذاتِ خود جرم بن جاتی ہے۔ آج کے پاکستان میں بھی کیا ہم کسی اور کربلا کا مشاہدہ نہیں کر رہے؟ کیا اسلام کو محض نعرے، ’’اسلامی ٹچ‘‘ اور رمضان ٹرانسمیشن کے مولویوں تک محدود نہیں کر دیا گیا؟ کیا سیاست خدمت کے بجائے موروثی تاج پوشی نہیں بن چکی ہے؟ سوائے جماعت اسلامی کے، کیا دیگر تمام بڑی مذہبی جماعتیں اقتدار کی موروثی نرسریاں نہیں بن چکیں؟ اسی المیے کو اقبالؒ نے یوں لکھا تھا:
’’صوفی و مْلّا مْلوکیّت کے بندے ہیں تمام‘‘۔ یہ ایک اہم سوال ہے جو کہ ہماری قوم کو جمہوریت کے علمبرداروں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب عالی! آپ کی جماعتیں تو اپنے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں، وہ قوم میں جمہوریت کیسے نافذ کریں گی؟ جو اپنے حلقے میں مشورے کی روایت کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ امت کی رہنمائی کا حق کیسے رکھتی ہیں؟
دکھ تو یہ ہے کہ حسینیت کا پیغام صرف نوحوں اور جلوسوں تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تو ظلم کے خلاف عملی جہاد کا نام ہے صرف یاد نہیں زندہ لائحہ عمل ہے۔ اگر ہمیں واقعی ملوکیت اور وراثتی بادشاہت کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں امام حسینؓ کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا وہ اسوہ جو خلافت کو عدل، مشورہ اور احتساب کا نظام سمجھتا ہے نہ کہ اقتدار کی وراثت یا بادشاہی کی توسیع۔ حسینؓ نے دکھایا کہ اصل اسلامی سیاست اصولوں کی پاسداری کا نام ہے چاہے اس کی قیمت سر کٹوانا ہی کیوں نہ ہو۔ سید مودودیؒ نے کیا خوب کہا تھا: ’’یزید اگر خلیفہ بن سکتا ہے تو خلافت اور ملوکیت میں پھر کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اور اگر حسینؓ خاموش رہتے تو اسلام کے نام پر ظلم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جاتا‘‘۔
تاریخ ایک بار پھر ہمیں اسی دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں ہمیں عزم کرنا ہے کہ ہم حق کا ساتھ دیں، چاہے اس کی قیمت اپنی جان ہی کیوں نہ ہو، ہم کوفیوں جیسی خاموش اختیار کرکے باطل کے جرائم میں سہولت کار نہیں بنے گے۔
آج وقت ہے بصیرت کی آنکھ کھولنے کا، سچ اور فریب میں فرق کرنے کا۔ پہچاننے کا کہ کون ہیں وہ جو دین کا جامہ پہن کر، اقتدار کی غلام گردشوں میں یزیدیت کی نحوست بکھیر رہے ہیں؟ اور کون ہیں وہ جو فکرِ حسینی کے سچے پیروکار بن کر، ملوکیت کے ایوانوں سے ٹکرا رہے ہیں؟ وہی جو اقتدار کو امانت سمجھتے ہیں، وراثت نہیں۔ جو شورائیت، شراکت اور احتساب کو ترجیح دیتے ہیں، چاپلوسی اور خوشامد کو نہیں جو اہلیت کو معیار بناتے ہیں، خاندانی نسبت کو نہیں اور وہ جو وقت کے یزیدیوں کے سامنے بے خوف و خطر سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں۔ یہی وہ سچے رہنما ہیں جو عالمی اسلامی تحریکوں کا وقار اور امتِ مسلمہ کی امید ہیں وہ جو خلافتِ راشدہ کے فکری وارث اور عدل و شراکت پر مبنی اسلامی نظام کے اصل ترجمان ہیں۔ مگر افسوس! آج یہی صاحبانِ کردار ظلم کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں، اقتدار سے محروم اور یزیدی ذہنیتوں کے کینے کا نشانہ ہیں۔ گویا یزید آج بھی زندہ ہے تخت و تاج کے ساتھ، اور حسینؓ کا قافلہ آج بھی مظلوم ہے مگر سچ کے ساتھ۔
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کیا ہم صرف زبان سے ’’لبیک یا حسینؓ‘‘ کہتے رہیں گے، یا کردار و عمل سے حسینیت کا علم بلند کریں گے؟ کیا ہم یونہی فرقہ پرستی، مفاد پرستی اور فرقہ واریت کے نام پر دین کی تجارت کرنے والوں کے فریب میں آتے رہیں گے؟ یا اب وہ گھڑی آ گئی ہے جب ہم اس قیادت کو پہچانیں جو عدل، دیانت اور شورائیت کی بنیاد پر اٹھتی ہے، نہ کہ فرقہ واریت خاندانی وراثت اور اندھی تقلید پر۔ کیونکہ اصل حسینیت یہی ہے ظلم کے سامنے ڈٹ جانا، خواہ کربلا ہی کیوں نہ بچھ جائے۔
’’غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ‘‘