اسلام ٹائمز: صیہونی فوج ایک طویل اور نہ ختم ہونیوالی جنگ میں پھنسی ہوئی ہے، جس میں بے شمار ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ میدان کے دوسری طرف فلسطینی مجاہدین غاصبوں کے ہاتھوں آسانی سے شکست کھاتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ وہ گھات لگا کر جن اور بھوتوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں، انسانیت کے دشمنوں کو جانی نقصان پہنچاتے ہیں اور غائب ہوجاتے ہیں۔ غزہ کے مجاہدین کے گوریلوں کی موجودہ صورتحال، جو برسوں تک جنگ جاری رکھنے کیلئے تیار ہیں، غاصبوں کو اپنے گھروں میں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیگی۔ تحریر: سارہ ہوشمندی
پیر 7 جولائی کو صہیونی فوج نے 21 ماہ سے جاری جنگ میں اپنے بدترین اور سیاہ ترین دن کا مشاہدہ کیا۔ ایک ایسا حملہ جس کا قابض افسروں اور سپاہیوں نے کافی عرصے سے سامنا نہیں کیا تھا۔ فلسطینی مجاہدین کے 3 مرحلوں پر مشتمل اس آپریشن نے بڑی تعداد میں غاصب صیہونیوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کیا۔ ایران کے ساتھ جنگ سے شکست کھانے کے بعد صیہونی حکومت نے غزہ کے عوام کی نسل کشی کی کوشش کے تسلسل میں بیت حنون میں جب ظلم و تشدد کی انتہاء کی تو فلسطینی مجاہدین نے ایک حیران کن کارروائی میں گھات لگا کر بڑی تعداد میں صیہونیوں کو ہلاک و زخمی کیا۔ صیہونیوں پر حماس کے حملوں کی شدت اس قدر تھی کہ صیہونی حکومت کا جلاد وزیراعظم جو واشنگٹن میں تھا، اسے غزہ کی صورتحال اور قابض افواج کی عبرتناک شکست کے بارے میں جاننے کے لیے امریکی صدر کے فریب کار ایلچی اسٹیو وائٹیکاف سے ملاقات کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔
بے شک نیتن یاہو جس نے اپنی بقا کے لیے اس خطے میں آگ لگا رکھی ہے، اسے صیہونیوں کے انجام کی کوئی پرواہ نہیں ہے، لیکن بیت المقدس کے غاصبوں کے دباؤ سے بچنے کے لئے پریشان ہونے اور میٹنگ ادھوری چھوڑنے کا ڈرامہ رچایا۔ اگر نیتن یاہو غزہ کے لوگوں کے ساتھ جنگ ختم کرتا ہے تو وہ گویا شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گا، کیونکہ اس کا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ لہذا اس کا پہلا شکار وہ خود ہوگا اور اسے وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہو کر چار عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا، کیونکہ نیتن یاہو پر رشوت ستانی اور بدعنوانی کے بے شمار الزامات لگ بھگ ثابت ہوچکے ہیں۔ پھر اسے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی ناکامی، حماس کے ساتھ جنگ بندی کو تسلیم کرنے سے انکار اور اقتدار برقرار رکھنے کے لیے جنگ کو دانستہ طور پر طول دینے، حماس کی تحویل میں بڑی تعداد میں صیہونی قیدیوں کی ہلاکت اور صیہونی حکومت کی جنگ میں ملوث ہونے کی وجوہات سمیت مختلف سوالات کا جواب دینے کے لئے عدالت میں جانا پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نیتن یاہو جنگ ختم کر دے گا۔ لیکن اگر اس نے اس جنگ کو غیر یقینی انجام کے ساتھ جاری رکھا تو صیہونی ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا اور مقبوضہ علاقے کے مکینوں پر جنگ کے جاری رہنے کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی اثرات اس کے خلاف احتجاج کو پھیلنے کا سبب بنیں گے۔ پیر کا بڑا واقعہ نیتن یاہو کے انتہاء پسند حامیوں کا اس پر اور اس کے وعدوں پر اعتماد نہ کرنے کا سبب بنے گا، کیونکہ 630 دن کی جنگ، اگر زیادہ وقت نہیں تو کم از کم چند ہزار لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی تھی، کیونکہ صیہونی حکومت کی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس مضبوط ترین ہتھیار اور انٹیلی جنس آلات ہیں۔
انسانی حقوق کے خلاف جرائم اور دسیوں ہزار شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کی شہادت کے باوجود نیتن یاہو کچھ حاصل نہیں کرسکا۔ جب ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس اور استکبار کی پوری دنیا کی مدد سے اور انتہائی وحشیانہ جرائم کی مرتکب حکومت کو 21 ماہ گزرنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ وہ اب بھی حماس کے گھات لگائے جانیوالے حملوں کا شکار ہے تو یقیناً مستقبل میں اسے مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجرم صیہونی حکومت نے گذشتہ 630 دنوں کے دوران امریکہ، یورپ اور غدار عرب ممالک کی تمام تر صلاحیتوں اور دہشت گردوں کے تمام حامیوں کو فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ صیہونی حکومت کی فضائیہ نے غزہ میں اسکولوں اور اسپتالوں سے لے کر اقوام متحدہ کی عمارتوں اور پناہ گزینوں کے خیموں تک ہر اس مقام پر بمباری کی ہے، جہاں اسے فلسطینی نظر آئے۔
اس حکومت کی بحریہ نے سینکڑوں دنوں سے بحیرہ روم سے غزہ کے مختلف علاقوں پر بمباری کی ہے۔ قابض زمینی فوجیں غزہ میں ہر جاندار کو شدت کے ساتھ قتل کر رہی ہیں اور 340 کلومیٹر طویل اس چھوٹی سی پٹی کا ایک بھی محلہ ایسا نہیںم جو تباہ نہ ہوا ہو۔ یہ سب ہوچکا ہے، لیکن حماس تباہ نہیں ہوئی اور غاصبوں کے لیے پیر کے دن ہونے والے حملے جیسی آفت لا رہی ہے۔ صہیونی فوج ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی جنگ میں پھنسی ہوئی ہے، جس میں بے شمار ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ میدان کے دوسری طرف فلسطینی مجاہدین غاصبوں کے ہاتھوں آسانی سے شکست کھاتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ وہ گھات لگا کر جن اور بھوتوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں، انسانیت کے دشمنوں کو جانی نقصان پہنچاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔
غزہ کے مجاہدین کے گوریلوں کی موجودہ صورت حال، جو برسوں تک جنگ جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں، غاصبوں کو اپنے گھروں میں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔ فلسطینی مزاحمت، جو کہ صیہونی حکومت کے وزیراعظم کے دعوے کے مطابق، 7 اکتوبر 2023ء کے 3 ہفتوں کے بعد ختم ہو جانی تھی، اب اس حکومت کو ایسی مہلک ضربیں لگا رہی ہے کہ سب حیران و پریشان ہیں۔ کیا یہ فلسطین کی فتح کے سوا کچھ ہے؟ "فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَـآ اُولِىْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا" سورہ اسرا(5) "پھر جب پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے سخت لڑائی والے بھیجے، پھر وہ تمہارے گھروں میں گھس گئے اور اللہ کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی مجاہدین صیہونی حکومت غاصبوں کے نیتن یاہو گھات لگا حکومت کی کے ساتھ اور اس کے لیے غزہ کے
پڑھیں:
صیہونی دشمن کیلئے ابھی بہت سے سرپرائز باقی ہیں، جنرل فدوی
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے ڈپٹی کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ اگر دشمن نے کسی نئی حماقت کا ارتکاب کیا تو ایرانی مسلح افواج بہت سے نئے سرپرائزز سے پردہ اٹھائیں گی! اسلام ٹائمز۔ نائب سربراہ ایرانی انقلابی گارڈز نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی مسلح افواج کے پاس قابض صیہونی دشمن کے لئے بہت سے سرپرائز موجود ہیں۔ عرب میڈیا کے ساتھ گفتگو میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ڈپٹی کمانڈر جنرل علی فدوی نے تاکید کی کہ اپنے گھناؤنے مقاصد کے حصول کے لئے دشمن نے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف گھات لگا رکھی تھی لیکن اسے نہ صرف ہمیشہ شکست ہوئی ہے بلکہ اسے خاتمے تک ذلت آمیز شکست کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔ المسیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل فدوی نے تاکید کی کہ ایرانی مسلح افواج دشمن کی نقل و حرکت پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر وہ کسی نئی حماقت کا مرتکب ہوا تو ایرانی مسلح افواج، بہت سے نئے سرپرائزز سے پردہ اٹھائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حق و اسلام کا محاذ، اللہ تعالی کے امر سے، ضرور بالضرور فتح یاب ہوگا اور دشمن کچھ بھی نہ کر پائیں گے!