جمہوریت سے دور ہوتا پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا سیاسی مستقبل ایک مضبوط اور شفاف جمہوری نظام سے وابستہ ہے۔ اس دنیا میں موجود اس وقت جو بھی نظام ہے ان میں جمہوری نظام ہی کی قبولیت نظر آتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے جمہوریت کے نام پر ہونے والے مسلسل تجربات اور سیاسی ایڈونچر نے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کیا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں آج بھی جمہوریت نہ صرف کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے بلکہ اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ ریاستی نظام کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہم ابھی تک عملی طور پر یہ طے ہی نہیں کر سکے کہ پاکستان کو کس نظام کے تحت چلانا ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں جب بھی اقتدار کا حصہ بنتی ہے تو وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق جمہوری نظام میں مختلف نوعیت کے تجربات کر کے اس نظام کو پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس وقت بھی ملک میں جمہوریت کے نام پر ایک خصوصی تماشا جاری ہے۔ اس تماشے میں جمہوریت، سیاست، سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں اپنی حیثیت کھوچکی ہیں اور ان کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں یا اسٹیبلشمنٹ کا نظام زیادہ مضبوط اورعملاً بالادست نظر آتا ہے۔ جمہوریت کے نظام کو ہم نے محض شو پیس کے طور پر رکھا ہوا ہے تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہماری ریاست ایک جمہوری ریاست ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم جمہوریت سے بہت دور ہیں اور اس میں سیاسی اور غیر سیاسی دونوں ہی قوتیں براہ راست ذمے دار ہیں۔ کیونکہ جب بھی سیاسی نظام کو یا جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کی بساط لپیٹنے کا جو بھی منصوبہ سامنے آتا ہے تو اس میں سہولت کاری کا کردار بھی اس ملک میں شامل چھوٹی بڑی بیش تر جماعتیں ادا کرتی ہیں۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور سہولت کاری میں پیش پیش ہیں اور موجودہ جمہوری نظام کی عملی ناکامی میں دیگر جماعتوں سمیت ان دو بڑی جماعتوں کا زیادہ کردار ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ 27 ویں ترمیم کی مدد سے ایک نیا خود ساختہ نظام لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے قبل 26 ویں ترمیم کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ سیاسی قوتوں نے عدلیہ کا پورا نظام ہی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور اب عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کی بحث اس نظام میں بے معنی لگتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ سمیت بڑی سیاسی قوتیں 27 ویں ترمیم کی تیاری میں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ اس ترمیم کی مدد سے صدر کے کردار کو ایک نئے اہم کردار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس میں وزیراعظم کی حیثیت ایک نمائشی ہوگی اور اصل اختیارات کا مرکز ایوان صدر ہوگا وہی ملک کے تمام تر فیصلوں کا مجاز بھی ہوگا۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے ایک بار پھر ایوان صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار بھی دیا جائے گا اور اہم سیاسی اور عسکری تقرریوں کا اختیار بھی ایوان صدر کے پاس ہی ہو گا۔ اسی ترمیم کی مدد سے ایک خاص فرد کو ایوان صدر میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ان کے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔ پاکستان میں پہلے ہی جو نظام ہے اس کو مختلف نام دیے جاتے ہیں ان میں ہمیں کنٹرول ڈیموکریسی، آمرانہ طرز جمہوریت، ہائبرڈ نظام یا ہائبرڈ پلس نظام، پاکستانی نظام کی موجودگی میں صدارتی نظام کے خدوخال موجود ہیں۔ اس ترمیم کی مدد سے بھی اصل میں ہونے والی پیش رفت سے صدارتی نظام کی طرف جانا ہے اور اسی سلسلے میں کام بھی ہو رہا ہے۔ منطق دی جا رہی ہے کہ موجودہ سیاسی نظام ناکام ہو چکا ہے لیکن کوئی اس نقطے پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کی ناکامی میں کس کا کردار ہے اور وہ کون ہیں جو جمہوریت کے نظام کو ہٹا کر خود کو بالادست کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے نظام میں خود مختار عدلیہ، آزاد میڈیا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کا احترام اور اداروں کی خود مختاری اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن ہمارے نظام میں یہ سب باتیں غیر اہم ہو گئی ہیں اور ہم نے ان کو نظر انداز کر کے ایک ایسا نظام لانے کی کوشش کی ہے جو نہ تو جمہوریت کی عکاسی کرتا ہے اور نہ اس نظام کی داخلی اور خارجی سمیت کہیں بھی یہ اپنی ساکھ رکھتا ہے۔ یہ جو ہماری خواہش ہے کہ ہم سیاست اور جمہوریت سمیت آئین اور قانون کے اصولوں کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی اور منشا کا نظام قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کریں یہ ہی اس نظام کی خرابی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا بلکہ ان غلطیوں کے مقابلے میں اور زیادہ غلطیاں ہی کرنی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عدلیہ سمیت میڈیا کی آزادی پر بہت سے سنجیدہ سوالات ہیں ان کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بقول ان کے پاس موجودہ حالات میں کوئی نیا آپشن موجود نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری سے انکار کریں۔ ان کے خیال میں وہی طاقت کا مرکز ہے اسی کے گرد سیاست گھوم رہی ہے اور ہم اس نظام کی سہولت کاری کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان کا یہ ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ یہاں یا تو فرد واحد کی حکمرانی کے نظام پر زور دیا جاتا ہے یا اختیارات کی عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت پر مبنی نظام ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ رہا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کا مجموعی گورننس کا نظام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ہمیشہ یہ دلیل دی جاتی تھی کہ جمہوریت کا نظام جتنا آگے چلے گا اتنا ہی اس میں بہتری آئے گی۔ اوّل ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت کا تصور ہمیشہ سے کمزور رہا ہے اور دوم ہم نے جو بھی کمزور جمہوری نظام چلایا ہے یہ چلا رہے ہیں اس سے جمہوری نظام آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے کی طرف جا رہا ہے اور لوگوں کا جمہوریت کے نظام پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ یہ نظام لوگوں میں ریاست حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ہم نے پچھلے چند برسوں میں جس انداز سے جمہوریت اور سیاست کا نظام چلایا ہے اس سے یہ نقطہ تو سامنے آگیا ہے کہ اس ریاستی نظام کی ترجیحات میں جمہوریت کا نظام اور اس کی مضبوطی کہیں بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے آج جب عالمی ادارے دنیا کی ریاستوں کی جمہوریت کے تناظر میں درجہ بندی کرتے ہیں تو ہم اس میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کی آزادی میں آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور ایک مضبوط سول سوسائٹی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن ہمارا ریاستی نظام ان کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اسی بنیاد پر ان اداروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں چہرہ تو جمہوریت کا ہوگا مگر اصل طاقت کا مرکز جمہوری لوگوں کے مقابلے میں پس پردہ قوتیں ہوں گی اور ہمارا یہ جمہوری نظام ان ہی قوتوں کے تحت ان کی تابعداری کا کردار ادا کرے گا۔ اس لیے پاکستان کا موجودہ بحران جمہوری نظام سے مسلسل دوری کا ہے اور یہ عمل نہ تو یہاں جمہوریت کو مضبوط بنا سکے گا اور نہ ہی معاشی طور پر آگے بڑھ سکیں گے۔ کیونکہ اصل لڑائی جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں میں ہے اور اس فیصلہ کن جنگ کے بغیر ہم جمہوری ریاست کے طور پر اپنی ساکھ قائم نہیں کرسکیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جمہوریت کے نظام ترمیم کی مدد سے پاکستان میں جمہوری نظام جمہوریت کا پاکستان کا سہولت کاری میں جمہوری کی کوشش کی ایوان صدر ہے اور اس جا رہی ہے کا کردار ہے کہ ہم نہیں ہے ہیں اور کا نظام نظام کو نظام کی رہا ہے
پڑھیں:
سیلاب ،بارش اور سیاست
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل
کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭