Jasarat News:
2025-11-05@02:22:16 GMT

جمہوریت سے دور ہوتا پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا سیاسی مستقبل ایک مضبوط اور شفاف جمہوری نظام سے وابستہ ہے۔ اس دنیا میں موجود اس وقت جو بھی نظام ہے ان میں جمہوری نظام ہی کی قبولیت نظر آتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے جمہوریت کے نام پر ہونے والے مسلسل تجربات اور سیاسی ایڈونچر نے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کیا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں آج بھی جمہوریت نہ صرف کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے بلکہ اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ ریاستی نظام کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہم ابھی تک عملی طور پر یہ طے ہی نہیں کر سکے کہ پاکستان کو کس نظام کے تحت چلانا ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں جب بھی اقتدار کا حصہ بنتی ہے تو وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق جمہوری نظام میں مختلف نوعیت کے تجربات کر کے اس نظام کو پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس وقت بھی ملک میں جمہوریت کے نام پر ایک خصوصی تماشا جاری ہے۔ اس تماشے میں جمہوریت، سیاست، سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں اپنی حیثیت کھوچکی ہیں اور ان کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں یا اسٹیبلشمنٹ کا نظام زیادہ مضبوط اورعملاً بالادست نظر آتا ہے۔ جمہوریت کے نظام کو ہم نے محض شو پیس کے طور پر رکھا ہوا ہے تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہماری ریاست ایک جمہوری ریاست ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم جمہوریت سے بہت دور ہیں اور اس میں سیاسی اور غیر سیاسی دونوں ہی قوتیں براہ راست ذمے دار ہیں۔ کیونکہ جب بھی سیاسی نظام کو یا جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کی بساط لپیٹنے کا جو بھی منصوبہ سامنے آتا ہے تو اس میں سہولت کاری کا کردار بھی اس ملک میں شامل چھوٹی بڑی بیش تر جماعتیں ادا کرتی ہیں۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور سہولت کاری میں پیش پیش ہیں اور موجودہ جمہوری نظام کی عملی ناکامی میں دیگر جماعتوں سمیت ان دو بڑی جماعتوں کا زیادہ کردار ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ 27 ویں ترمیم کی مدد سے ایک نیا خود ساختہ نظام لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے قبل 26 ویں ترمیم کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ سیاسی قوتوں نے عدلیہ کا پورا نظام ہی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور اب عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کی بحث اس نظام میں بے معنی لگتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ سمیت بڑی سیاسی قوتیں 27 ویں ترمیم کی تیاری میں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ اس ترمیم کی مدد سے صدر کے کردار کو ایک نئے اہم کردار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس میں وزیراعظم کی حیثیت ایک نمائشی ہوگی اور اصل اختیارات کا مرکز ایوان صدر ہوگا وہی ملک کے تمام تر فیصلوں کا مجاز بھی ہوگا۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے ایک بار پھر ایوان صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار بھی دیا جائے گا اور اہم سیاسی اور عسکری تقرریوں کا اختیار بھی ایوان صدر کے پاس ہی ہو گا۔ اسی ترمیم کی مدد سے ایک خاص فرد کو ایوان صدر میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ان کے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔ پاکستان میں پہلے ہی جو نظام ہے اس کو مختلف نام دیے جاتے ہیں ان میں ہمیں کنٹرول ڈیموکریسی، آمرانہ طرز جمہوریت، ہائبرڈ نظام یا ہائبرڈ پلس نظام، پاکستانی نظام کی موجودگی میں صدارتی نظام کے خدوخال موجود ہیں۔ اس ترمیم کی مدد سے بھی اصل میں ہونے والی پیش رفت سے صدارتی نظام کی طرف جانا ہے اور اسی سلسلے میں کام بھی ہو رہا ہے۔ منطق دی جا رہی ہے کہ موجودہ سیاسی نظام ناکام ہو چکا ہے لیکن کوئی اس نقطے پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کی ناکامی میں کس کا کردار ہے اور وہ کون ہیں جو جمہوریت کے نظام کو ہٹا کر خود کو بالادست کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے نظام میں خود مختار عدلیہ، آزاد میڈیا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کا احترام اور اداروں کی خود مختاری اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن ہمارے نظام میں یہ سب باتیں غیر اہم ہو گئی ہیں اور ہم نے ان کو نظر انداز کر کے ایک ایسا نظام لانے کی کوشش کی ہے جو نہ تو جمہوریت کی عکاسی کرتا ہے اور نہ اس نظام کی داخلی اور خارجی سمیت کہیں بھی یہ اپنی ساکھ رکھتا ہے۔ یہ جو ہماری خواہش ہے کہ ہم سیاست اور جمہوریت سمیت آئین اور قانون کے اصولوں کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی اور منشا کا نظام قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کریں یہ ہی اس نظام کی خرابی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا بلکہ ان غلطیوں کے مقابلے میں اور زیادہ غلطیاں ہی کرنی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عدلیہ سمیت میڈیا کی آزادی پر بہت سے سنجیدہ سوالات ہیں ان کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بقول ان کے پاس موجودہ حالات میں کوئی نیا آپشن موجود نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری سے انکار کریں۔ ان کے خیال میں وہی طاقت کا مرکز ہے اسی کے گرد سیاست گھوم رہی ہے اور ہم اس نظام کی سہولت کاری کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان کا یہ ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ یہاں یا تو فرد واحد کی حکمرانی کے نظام پر زور دیا جاتا ہے یا اختیارات کی عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت پر مبنی نظام ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ رہا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کا مجموعی گورننس کا نظام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ہمیشہ یہ دلیل دی جاتی تھی کہ جمہوریت کا نظام جتنا آگے چلے گا اتنا ہی اس میں بہتری آئے گی۔ اوّل ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت کا تصور ہمیشہ سے کمزور رہا ہے اور دوم ہم نے جو بھی کمزور جمہوری نظام چلایا ہے یہ چلا رہے ہیں اس سے جمہوری نظام آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے کی طرف جا رہا ہے اور لوگوں کا جمہوریت کے نظام پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ یہ نظام لوگوں میں ریاست حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ہم نے پچھلے چند برسوں میں جس انداز سے جمہوریت اور سیاست کا نظام چلایا ہے اس سے یہ نقطہ تو سامنے آگیا ہے کہ اس ریاستی نظام کی ترجیحات میں جمہوریت کا نظام اور اس کی مضبوطی کہیں بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے آج جب عالمی ادارے دنیا کی ریاستوں کی جمہوریت کے تناظر میں درجہ بندی کرتے ہیں تو ہم اس میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کی آزادی میں آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور ایک مضبوط سول سوسائٹی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن ہمارا ریاستی نظام ان کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اسی بنیاد پر ان اداروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں چہرہ تو جمہوریت کا ہوگا مگر اصل طاقت کا مرکز جمہوری لوگوں کے مقابلے میں پس پردہ قوتیں ہوں گی اور ہمارا یہ جمہوری نظام ان ہی قوتوں کے تحت ان کی تابعداری کا کردار ادا کرے گا۔ اس لیے پاکستان کا موجودہ بحران جمہوری نظام سے مسلسل دوری کا ہے اور یہ عمل نہ تو یہاں جمہوریت کو مضبوط بنا سکے گا اور نہ ہی معاشی طور پر آگے بڑھ سکیں گے۔ کیونکہ اصل لڑائی جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں میں ہے اور اس فیصلہ کن جنگ کے بغیر ہم جمہوری ریاست کے طور پر اپنی ساکھ قائم نہیں کرسکیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جمہوریت کے نظام ترمیم کی مدد سے پاکستان میں جمہوری نظام جمہوریت کا پاکستان کا سہولت کاری میں جمہوری کی کوشش کی ایوان صدر ہے اور اس جا رہی ہے کا کردار ہے کہ ہم نہیں ہے ہیں اور کا نظام نظام کو نظام کی رہا ہے

پڑھیں:

قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے، جاوید قصوری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور (وقائع نگارخصوصی)امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ 2025ء کے رول آف لا انڈیکس میں پاکستان کا مسلسل 130واں نمبر حکمرانوں کی بد ترین کارکردگی کا مظہر ہے۔قانون کی حکمرانی میں پاکستان، بھارت سے بھی پیچھے ہے، اسی انڈیکس میں بھارت کا نمبر 79واں ہے جبکہ پاکستان سے نیچے وینزویلا،افغانستان، سوڈان جیسے ممالک ہیں۔ عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی صرف اس معاشرے میں قائم کی جا سکتی ہے جہاں اخلاقیات کے درجے بلند ہوں۔ اخلاقیات کے معیار پر ہی پارلیمانی نظامِ حکومت کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو بھی ملک آگے بڑھے ہیں ان کے پاس اخلاقیات اور انصاف کے اوصاف تھے۔ ہم ملک میں قانون کی بالادستی قائم کرنے،فرسودہ نظام کے خاتمے، انصاف اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ملک میں طاقتوروں کو قانون کے نیچے لے کر آنا ہو گا۔ جب تک ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی ملک میں بہتر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ملک میں خوش حالی آ سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جس ریاست میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں کی جمہوریت بھی مادر پدر آزاد ہو جاتی ہے۔ایسی جمہوریت جو آئین اور قانون کی پابند ہی نہ ہو وہ سیاسی اور معاشی استحکام کبھی پیدا نہیں کر سکتی۔ وہ لوگ جو منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر کھلم کھلا آئین قانون اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں پر ناانصافی بددیانتی، کرپشن اور مہنگائی جیسے جرائم عروج پر ہوتے ہیں۔محمد جاوید قصوری نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ اثر ورسوخ کے بغیر انصاف فراہم کیا جا سکے۔بدعنوانی کے خلاف جامع پالیسی اور مؤثر احتساب کا نظام نافذ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے معاشرتی امن و قانون پر توجہ مرکوز کرنا، پولیس اصلاحات، مسلح فرقہ وارانہ واقعات کی روک تھام، اور تنازعات کا جلد حل یقینی بنانا ہو گا۔حکومتی اختیارات کی حد بندی کو مضبوط کرنا، شفافیت میں اضافہ اور عوامی شراکت کو فروغ دینا چاہیے۔

وقائع نگار خصوصی گلزار

متعلقہ مضامین

  • قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے، جاوید قصوری
  • 27ویں ترمیم کا فیصلہ ہو چکا، پیپلزپارٹی ٹوپی ڈرامے میں شریک: اسد قیصر
  • غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • پیپلز پارٹی آئینی عدالت پرمتفق، میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں،رانا ثناء
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • آزادیِ اظہار اور حقِ گوئی جمہوری معاشروں کی پہچان اور بنیاد ہیں، کامران ٹیسوری
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو