مودی سرکار کے من گھڑت ’’ میک اِن انڈیا ‘‘بیانیے کی قلعی کھل گئی، جس سے بھارت کی پیداواری معیشت کا مصنوعی دعویٰ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا۔

چینی تعاون کے بغیر بھارت کی آئی ٹی اور الیکٹرونکس صنعت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ  مودی سرکار کی خود انحصاری محض فریب  کا ایک نعرہ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ 6 ماہ میں بھارت سے 100 سے زائد چینی ماہرین واپس بلا لیے گئے ہیں اور چینی انجینئرز کی واپسی کے بعد بھارت کی آئی فون پروڈکشن لائن سست روی اور ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔

پریس ریڈر کے مطابق فاکسکون کے چینی ماہرین کی واپسی نے بھارت میں ایپل کی پیداوار میں توسیع اور آمدنی میں اضافے کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ بھارتی حکومت کے دعووں کے برعکس مقامی اسمبلی لائنز چینی ماہرین کی عدم موجودگی میں خودکفالت ثابت کرنے میں ناکام دکھائی دی۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں ویلیو ایڈیشن یعنی ’’خالص منافع‘‘اب براہِ راست چینی تکنیکی معاونت سے منسلک ہو چکا ہے۔ فاکسکون کی بھارتی سبسڈری ’’رائزنگ اسٹارز ہائی ٹیک‘‘چینی ماہرین کے بغیر پیداواری اہداف حاصل کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

پریس ریڈر نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت میں 80 سے 90 ملین آئی فونز سالانہ تیار کرنے کا ہدف اب چینی ماہرین کے بغیر صرف ایک تخمینہ محسوس ہوتا ہے۔ چینی انجینئرز کی واپسی نے بھارت میں ایپل کی طویل مدتی سرمایہ کاری کے عمل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بھارت کی 500 ارب ڈالر الیکٹرانکس معیشت کا خواب، چینی مہارت کے بغیر زمینی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ امریکی، ویتنامی اور تائیوانی ماہرین کو متبادل کے طور پر لایا گیا ہے جب کہ بھارت کے پاس کوئی تربیت یافتہ مقامی فورس نہیں، اسی لیے بیرونی ماہرین پر انحصار  کیا جا رہا ہے۔

بھارتی حکام کے بلند دعووں کے باوجود فنی تربیت کا عمل تاحال مکمل خودمختاری حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فاکسکون سے چینی قیادت کے انخلا نے بھارت کے کھوکھلے اور ناتجربہ کار ٹیک ماڈل کی حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔

مودی سرکار کا ’ میک اِن انڈیا ‘ محض نعرہ ثابت ہوا، اور انحصار آج بھی بیرونی پروڈکٹس اور ماہرین پر قائم ہے۔ مودی سرکار کے جھوٹے دعوے اور ناکام پالیسیاں بھارت میں عالمی سرمایہ کاری کے لیے خودکشی بنتے جا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چینی ماہرین مودی سرکار بھارت میں بھارت کی کے بغیر

پڑھیں:

چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور

چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔

ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔

شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔

دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔

جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔

شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔

ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔

چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔

شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
  • بھارت سے آنے والی آلودہ ہواؤں نے لاہور کا سانس گھونٹ دیا، فضائی معیار انتہائی خطرناک
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • گوجرانوالہ ،کسان اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے کھیت میں کام کرنے میں مصروف ہے
  • مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف
  • بھارت پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے دہشتگردوں کے بیانیہ کو فروغ دینے میں مصروف
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال
  • شہری سے بھتا طلب کرنے والا ملزم قریبی رشتے دار نکلا
  • پاک افغان مذاکرات: ایک کے بعد ایک نیا گیم، نصرت جاوید نے حقائق سے پردہ اٹھادیا