پاکستان میں دیہی خواتین کی آبادی: ایک نظر ان کی زندگی اور چیلنجز پر
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
پاکستان میں دیہی خواتین کی آبادی: ایک نظر ان کی زندگی اور چیلنجز پر WhatsAppFacebookTwitter 0 12 July, 2025 سب نیوز
تحریر: سدرہ انیس
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے، جہاں کی خواتین ملک کی معاشرتی و معاشی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 63 فیصد دیہی علاقوں میں آباد ہے، اور ان میں خواتین تقریباً 49 سے 50 فیصد ہیں۔ یعنی ملک کی کل خواتین کا ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے، جو کہ تقریباً 4 سے 5 کروڑ خواتین پر مشتمل ہے۔ یہ خواتین نہ صرف گھریلو ذمے داریاں نبھاتی ہیں بلکہ زراعت، مویشی پالنے، دستکاری اور دیگر شعبوں میں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں۔
تاہم، ان کی زندگی کئی طرح کے چیلنجز سے دوچار ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں دیہی خواتین کو شدید محرومی کا سامنا ہے۔ بہت سی خواتین تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں کیونکہ ان کے علاقوں میں اسکول یا تو موجود نہیں ہوتے یا ان تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔ صحت کی سہولیات کی کمی، خاص طور پر زچگی کے دوران، ان کی جان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
معاشی طور پر دیہی خواتین عموماً غیر رسمی شعبے میں کام کرتی ہیں اور انہیں ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ وہ کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں لیکن ان کی خدمات کو عموماً تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ان کے پاس زمین کی ملکیت، مالی آزادی یا فیصلہ سازی میں شرکت کے مواقع بھی بہت محدود ہوتے ہیں۔
معاشرتی سطح پر بھی یہ خواتین صنفی امتیاز، فرسودہ رسم و رواج، اور گھریلو جبر کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کی آزادی محدود ہوتی ہے اور انہیں اکثر مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ کچھ بہتری آئی ہے اور بعض سرکاری و غیر سرکاری ادارے ان کے مسائل پر کام کر رہے ہیں، لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
دیہی خواتین کی ترقی، تعلیم، صحت، اور معاشی خودمختاری میں مضمر ہے۔ اگر ریاست اور معاشرہ ان کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تو نہ صرف ان کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان کی مجموعی ترقی میں بھی نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ دیہی خواتین کی فلاح و بہبود صرف ان کا بنیادی حق ہی نہیں بلکہ ایک مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد بھی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرلاہور، برسات، روایات اور حاجی صاحب لاہور، برسات، روایات اور حاجی صاحب آئینی انحراف یا دانستہ خلاف ورزی؟ خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے ارکان کی حلف برداری میں رکاوٹ اور سینیٹ انتخابات پر اس کے... آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے سرکاری ملازمین اور ٹیکس کی وصولی اسیرانِ لاہور کا خط اور پی۔ٹی۔آئی کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: دیہی خواتین کی ان کی زندگی
پڑھیں:
حمیرا اصغر کو کن مشکلات اور فیملی چیلنجز کا سامنا رہا؟ اداکارہ کی یادگار گفتگو
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اپنے فلیٹ سے مردہ اور ناقابل شناخت حالت میں ملنے والی اداکارہ کا ایک پرانا انٹرویو سامنے آیا جس میں انہوں نے انٹرٹینمٹ انڈسٹری میں آنے اور اس دوران فیملی چلینجز سے نبردآزما ہونے سے متعلق گفتگو کی ہے۔
اداکارہ حمیرا اصغر علی ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کے پروگرام کا حصہ بنیں جس میں انہوں نے اینکر و میزبان حسن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی تھی۔
اداکارہ نے بتایا کہ سب سے زیادہ سپورٹ والدہ کی طرف سے ملی، بچپن میں جب ٹیچرز نے والدین کو بلاکر میری آرٹ کی صلاحیتوں کا بتایا تو امی نے سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر میں نے فائن آرٹس پڑھنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ چلینجز سے لڑتی رہی اور یہ میرے خون میں شامل ہے، سب سے پہلے فائن آرٹس کی پڑھائی کے وقت مخالفت برداشت کی، پھر ماڈلنگ اور اداکاری کے فیصلے کے وقت بھی دباؤ برداشت کیا اور اس میں گھر والوں بالخصوص والد اور بھائی کا پریشر تھا۔
حمیرا کے مطابق اُن کی والدہ نے اسکول کے بعد سے ہمیشہ سپورٹ کیا حتی کہ جب انہوں نے ماڈلنگ میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو پہلے وزن کم کرنے کی شرط رکھی جس کے بعد اداکارہ نے 30 کلو وزن کم کیا۔
اداکارہ کے مطابق ایک نجی ٹی وی کے شو میں شرکت کے بعد انہوں نے تین دن کا وقفہ کیا اور سب سے والدہ سے رابطہ کیا جس کے بعد نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر تین روز کی چھٹی لے کر لاہور جاکر والدہ کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا۔
واضح رہے کہ اداکارہ کی ایک روز قبل کراچی کے علاقے ڈیفنس سے تقریباً 30 روز پرانی سڑی ہوئی لاش برآمد ہوئی جبکہ والد اور بھائی نے لاش لینے سے انکار کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہم بیٹی سے پہلے ہی لاتعلق ہوچکے تھے جبکہ اُسے عاق بھی کردیا تھا۔