حوالگی کیس؛ عدالت کا بچی کو پولینڈ لے جا کر والدہ سے ملاقات کرانے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
پولش خاتون انا مونیکا کی بچی کی حوالگی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے نو عمر بچی کو پولینڈ لے جا کر والدہ سے ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے پولش خاتون انامونیکا کی درخواست پر سماعت کی متعلقہ فریق کے وکیل کی جانب سے عمل درآمد رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی۔
عدالت نے آن لائن ملاقاتوں سے متعلق رپورٹ بھی طلب کر لی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ متعلقہ فریق حیلے بہانے کر رہا ہے مگر تعاون نہیں کر رہا، بچی کی والدہ نے واٹس ایپ یا دیگر آن لائن سائٹس پر ملاقات کی کوشش کی، متعلقہ فریق نے حیلے بہانوں سے ویڈیو لنک پر بھی بچی سے کوئی ملاقات نہیں کرائی۔
بچی کے والد کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کی بچی کی کسٹڈی کی درخواست خارج کی تھی۔
عدالت نے ہدیات کی کہ بچی کی اپنی ماں سے ملاقات ہے آپ ملاقات کرائیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس کو متوازن رکھنا چاہتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ عدالت کے آرڈر کی وجہ سے میرا موکل کہیں جا نہیں سکتا، میرے موکل کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ بچی والدہ کے ساتھ کچھ وقت رہے گی تو کچھ نہ کچھ ایڈجسٹ کر لے گی۔
عدالت نے والد کو بچی کو والدہ سے ملاقات کے لیے پولینڈ لے جانے اور ایف آئی اے کو بچی کے والد کو پولینڈ جانے سے نہ روکنے کی ہدایت کر دی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ بچی کے والد جہاں جانا چاہے جائے مگر عدالت کو دھوکا نہیں دے سکتا، ایک کیس یہاں چل رہا ہے اور ایک کیس پولینڈ میں چل رہا، آپ نے جو بھی کہنا ہے مگر وہ ایک ماں ہے اور آپ ملاقات سے نہیں روک سکتے، ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ میاں بیوی کے تنازع کا حل کوئی عدالت نہیں نکال سکتی، میاں بیوی کے تنازع میں بچے متاثر ہوتے ہیں۔
عدالت نے آن لائن ملاقاتوں سے متعلق ریکارڈ آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے سے ملاقات عدالت نے بچی کی
پڑھیں:
ٹرمپ کا فلسطینیوں سے غزہ خالی کرانے کا منصوبہ، نیتن یاہو کا آزاد فلسطینی ریاست سے انکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی دارالحکومت میں ایک اہم اور متنازع سفارتی ملاقات کے دوران ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جنہوں نے فلسطین، غزہ اور مشرق وسطیٰ کی آئندہ صورتحال پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آنے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے امکان کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، بلکہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے جیسے خطرناک منصوبے پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔
نیتن یاہو نے ملاقات میں واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اور دہشت گردی کا نیا پلیٹ فارم بنے گی۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو مقامی سطح پر حکومتی امور چلانے کا اختیار دیا جا سکتا ہے، لیکن سکیورٹی کے معاملات ہمیشہ اسرائیل کے مکمل کنٹرول میں رہنے چاہییں۔
اس ملاقات کا سب سے حساس اور حیران کن پہلو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے فلسطینی باشندوں کی ممکنہ بے دخلی کے منصوبے کا ذکر تھا۔ ٹرمپ نے کہا کہ خطے کے متعدد ممالک سے مثبت اشارے ملے ہیں اور کچھ ’اہم‘ ہونے والا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی انتظامیہ فلسطینیوں کو غزہ سے باہر منتقل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں قریبی ممالک سے مشاورت جاری ہے۔
نیتن یاہو نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امریکا مل کر ایسے راستے تلاش کر رہے ہیں جن کے ذریعے غزہ کے شہریوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فلسطینی خود جانا چاہیں تو انہیں یہ موقع فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ ایک بہتر مستقبل کی طرف جا سکیں۔
یہ تمام بیانات ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت جلد تہران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی خواہاں ہے اور اگر حالات سازگار ہوئے تو ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں بھی ختم کی جا سکتی ہیں۔ یہ مؤقف بظاہر امن کے قیام کی امید تو دلاتا ہے، مگر فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے خدشات اس پر سایہ ڈال رہے ہیں۔
ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے باقاعدہ تحریری نامزدگی بھی پیش کی، جس پر صدر ٹرمپ نے خوشی اور فخر کا اظہار کیا،تاہم اس سارے منظرنامے کا ایک دوسرا رخ بھی تھا جو وائٹ ہاؤس کے باہر دیکھنے میں آیا، جہاں سیکڑوں فلسطینی مظاہرین نے جمع ہو کر اس مجوزہ منصوبے کے خلاف آواز بلند کی۔
مظاہرین نے نیتن یاہو کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری اور امریکا کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
سفارتی محاذ پر یہ ملاقات اگرچہ امن کے نعرے کے ساتھ کی گئی، مگر اس کے اندرونی نکات واضح طور پر ایک خطرناک اور غیر متوازن حکمت عملی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
غزہ سے فلسطینیوں کی ممکنہ بے دخلی اور دو ریاستی حل سے انکار مستقبل میں مشرق وسطیٰ کے حالات کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا سکتا ہے۔