data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سوال یہ ہے کہ جو لوگ موت کو پھلانگ کر زندگی کی تفہیم کرتے ہیں ان کی تعبیرِ حیات کی کجی کا کیا حال ہو گا ؟
مغرب ہمارے لیے عرصے سے ”الف لیلہ“ بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک داستان سے دوسری، اور دوسری سے تیسری داستان پیدا ہوجاتی ہے۔ ہم اس کے کبھی ایک پہلو پر غور کرتے ہیں، کبھی دوسرے پر۔ ہمیں کبھی اس کی ایک بات پر حیرت ہوتی ہے، کبھی دوسری بات پر۔ اب مثلاً مغرب کی اس بات پر ہمارے یہاں خاصی بحث ہوئی ہے کہ مغربی دنیا بے پناہ مادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی کے باوجود زندگی کے عمومی تجربے کی سطح پر اضمحلال کا شکار کیوں نظر آتی ہے؟ وہاں جرائم کی بھرمار کیوں ہے؟ اضطراب کی مختلف شکلیں مغرب کے انسان کو گرفت میں کیوں لیے ہوئے ہیں؟ سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود بھی لوگ مطمئن کیوں نہیں ہیں؟
ظاہر ہے کہ سوال اُٹھتا ہے تو اس کا جواب بھی دیا جاتا ہے۔ مغرب کی مذکورہ صورتِ حال کے حوالے سے ہمارے پاس ریڈی میڈ جوابات کی کوئی کمی نہیں۔ مغرب کی مذکورہ صورتِ حال مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے، مغرب کا یہ حال اخلاقی قدروں سے بے نیازی کے باعث پیدا ہوا ہے، مغرب نے مادی ترقی کی کوشش میں روحانی ترقی کو نظرانداز کردیا… وغیرہ وغیرہ۔ یہ جوابات درست ہیں اور ان کی اپنی اہمیت ہے۔ لیکن ان میں ایک طرح کی ”تجرید“ ہے، اور اس تجربیت کی کمی ہے، مغرب جس کا عاشق ہے۔
دیکھیے نا! مغرب نے اگر مذہب کو مسترد کردیا تو وہ یہ کہہ کر تو نہیں رہ گیا کہ مذہب اچھی چیز نہیں اور ہم اسے نہیں مانیں گے۔ مغرب نے مذہب کو رد کیا تو اس کے ساتھ استرداد کا ”جواز“ بھی مہیا کیا اور دلائل و براہین کے انبار لگادیے۔ جدید مغرب کا فلسفہ اور اس کے علوم و فنون ان دلائل اور براہین کی طویل داستان ہیں۔ اس داستان میں بظاہر منطق کی کوئی کمی نہیں، چنانچہ مغرب کو اپنی منطق سے مطمئن ہوجانا چاہیے تھا اور وہاں ان مسائل کو جنم ہی نہیں لینا چاہیے تھا جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔ لیکن مسائل پیدا ہوتے ہیں اور انھوں نے مغربی دنیا کو عمل اور ردعمل کے کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے میں مقید کررکھا ہے، چنانچہ سوال یہ ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ مغرب کے مسئلے کو ایک فقرے میں بیان کرتا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ اس کا اصل مسئلہ موت کی تفہیم سے محرومی ہے۔ مگر یہ بات وضاحت طلب ہے۔
انسانی زندگی، اس کا ماحول اور اس کائنات کا تجربہ مخصوص معنوں میں ایک ٹھوس چیز ہے، چنانچہ انسان غلط یا صحیح، اس کی تشریح و تعبیر کرسکتا ہے، اور مغربی انسان نے تو اس تشریح و تعبیر میں کمال کردکھایا ہے۔ مادے اور اس کی خصوصیات تو خیر ایک ٹھوس چیز ہیں ہی، لیکن جذبات و احساسات مادے کی طرح ٹھوس چیزیں نہیں۔ تاہم چونکہ ان کا تجربہ انسانی وجود کا حصہ ہے، اس لیے ان کی غلط یا صحیح تفہیم بھی ممکن ہے۔ لیکن موت ایک ایسی چیز ہے جس کی تفہیم تجربے کے حوالے سے ممکن ہی نہیں، کیونکہ جو انسان موت کے تجربے سے گزر جاتا ہے، وہ تجربے کو بیان کرنے کے لیے دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ چونکہ یہ ممکن نہیں، اس لیے موت کے تجربے کی تفہیم بھی ممکن نہیں، اور یہاں ایمان یا علم کی اس صورت پر جسے وحی کہا گیا ہے، اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مگر مغرب ایمان اور وحی کو تسلیم ہی نہیں کرتا، چنانچہ موت کے تجربے کی تفہیم کا آخری ذریعہ بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ چونکہ مغرب کا انسان موت کے تجربے کو بیان نہیں کرسکتا اور اس کی تشریح و تعبیر اس کے پاس نہیں، اِس لیے اُس نے مجبوراً یہ فرض کرلیا ہے کہ جو کچھ ہے، یہی زندگی ہے اور اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ لیکن یہ مان لینا بعض وجوہ کی بنا پر اتنی بڑی حماقت اور جہالت ہے کہ جس کا بیان بھی مشکل ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے بے شمار مظاہر ایسے ہیں جنھیں ہم باہم متخالف یا متضاد حقائق کے حوالے سے سمجھتے ہیں، مثلاً روشنی اور تاریکی، خوشی اور غم، خوبصورتی اور بدصورتی، محبت اور نفرت، سردی اور گرمی، سختی اور نرمی وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے ہمارے اور مغرب کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مغرب کے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تاریکی کے بغیر روشنی کی اہمیت نہیں اور اس کے بغیر روشنی کی تفہیم بھی نہیں ہوسکتی۔ خوشی اور غم اور دیگر Opposites کے بارے میں بھی اہلِ مغرب کی رائے یہی ہے۔ لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ مغرب زندگی کی معنویت کو موت سے الگ کرکے سمجھتا رہا ہے اور سمجھنا چاہتا ہے۔ یہ ایک غیر منطقی اور خلافِ عقل بات ہے۔ لیکن یہاں مغرب کے لیے منطق اور خلافِ عقل بات کا کوئی سوال نہیں اُٹھتا۔
کہنے کو تو یہ بات خاصی منطقی ہے کہ جب خدا نہیں، کوئی مذہب اور کوئی وحی نہیں تو پھر زندگی ہی اول و آخر ہے۔ لیکن دراصل یہ بات ایک سیدھا سادہ بیان ہے… ایسا بیان جس کی پشت پر ٹھوس تجربہ اور ٹھوس شہادت موجود نہیں… وہ ٹھوس تجربہ اور وہ ٹھوس شہادت جو مغرب کو بہت عزیز
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے لوگوں کی موت سے متعلق تفہیم میں ہولناک رخنے موجود ہیں۔ مغرب کے لوگوں کا اضطراب، بے چینی اور عدم اطمینان انھی رخنوں سے جنم لیتا ہے۔
مغرب نے زندگی کے حوالے سے جو فلسفے اور جو نظریے گھڑے ہیں، ان میں بے شمار خامیاں ہیں، لیکن اس کے باوجود اہلِ مغرب انھیں درست سمجھتے ہیں، اور اگر انھیں ان میں کوئی خامی نظر بھی آتی ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ آج نہیں تو کل یہ خامی دور کرلی جائے گی۔ لیکن موت کے حوالے سے کوئی فلسفہ اور کوئی نظریہ گھڑنا ممکن نہیں۔
دیکھا جائے تو موت کے حوالے سے انسان کی تین ہی پوزیشنیں بنتی ہیں، ایک یہ کہ انسان موت کی تفہیم کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرے، ایسی رائے جو قابلِ فہم نظر آئے۔ دوسری پوزیشن یہ ہے کہ موت کے بارے میں مذاہبِ عالم جو کچھ کہتے ہیں، انسان اس پر ایمان لے آئے۔ تیسری پوزیشن یہ ہے کہ انسان اعتراف کرلے کہ وہ موت کے مظہر کو سمجھ نہیں پایا، یا سمجھ نہیں سکتا۔ اتفاق سے اہلِ مغرب ان میں سے کوئی پوزیشن اختیار نہیں کرتے۔ پہلی پوزیشن اختیار کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں، کیونکہ اس کے لیے موت کا تجربہ ضروری ہے۔ دوسری پوزیشن کو تسلیم کرنے کا مطلب خدا اور مذہب پر مہرِ تصدیق ثبت کرنا ہے۔ اور تیسری صورت میں خدا اور مذہب کم از کم ممکنات میں شامل ہوجاتے ہیں، چنانچہ اہلِ مغرب کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے، زندگی ہے۔ مگر اس جملے میں زندگی کی غلط یا صحیح تفہیم تو مضمر ہوسکتی ہے۔ موت کی کوئی تفہیم اس میں موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ موت کو پھلانگ کر زندگی کی تفہیم کرتے ہیں ان کی تعبیرِ حیات کی کجی کا کیا حال ہو گا
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: موت کے تجربے کے حوالے سے ممکن نہیں زندگی کے کی تفہیم کا تجربہ زندگی کی یہ ہے کہ کہ مغرب مغرب کے مغرب کی ہیں اور کے لیے اور اس نہیں ا
پڑھیں:
لا وارث لاش، لاوارث سچ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جولائی 2025ء) ہمارا معاشرہ اب رشتوں کی نہیں توقعات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتا ہے۔ جب بیٹی تابعدار ہو، سلیقہ شعار ہو اور خاندان والوں کے مطابق زندگی جیے تو وہ پھر باعث افتخار ہے اور جب وہ اپنی راہ کا خود چناؤ کرے، خواب دیکھے تو وہ یکدم لاوراث قرار دی جاتی ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جہاں کسی والد یا اہل خانہ کو اپنے شرابی، قاتل، بدکردار، ریپسٹ، ظالم یا کرپٹ بیٹے کی لاش وصول کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
لیکن اگر بیٹی طے شدہ سانچوں میں نہ ڈھلے تو تدفین و آخری رسومات کے لائق بھی نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی سخت گیر معیار کی پٹری سے اترتا ہے تو وہ جیتے جی تنہا ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد لاوارث۔(جاری ہے)
اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی لاش جب کراچی کے ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی تو شاید موت سے زیادہ ہولناکی اس کے بعد کی ہے کہ اس کے خونی رشتوں نے اس کی لاش کو لینے سے صاف انکار کر دیا۔
اہل خانہ کا یہ کہنا کہ "ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں" سفاکیت تو ایک جانب رہی بلکہ یہ الفاظ تہذیب کے زوال کا نوحہ ہیں۔ کیا یہ وہی غیر مشروط محبت ہے جس کی نظیر نہیں ملتی؟درحقیقت یہ وقت ہے آئینہ دیکھنے کا۔ اگر عصر حاضر کے والدین واقعی غیر مشروط محبت کے دعویدار ہیں تو انہیں اولاد کو سننا ہو گا ان کے فیصلوں کو قبول کرنا ہو گا۔
جو چیز ان کے حق میں بہتر نہیں اس کو احسن طریقے سے ہینڈل کرنا ہو گا نیز ان کی کامیابیوں میں ان کا ساتھ دینا ہو گا۔جب سے خبر آئی ہے کچھ لوگ چرب زبانی کے تحت یہ کہہ رہے ہیں کہ "دیکھا یہی ہوتا ہے انجام۔" اکیلی مری، لاوارث، عبرت بن گئی۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر وہ عورت جو اکیلے زندگی گزار رہی ہے پسپا نہیں ہے۔ خودداری کے پیش نظر اکیلا رہنا جدوجہد کی کیٹگری میں آتا ہے۔
تنہا رہنا کوئی مافوق الفطرت بات نہیں یہ اکثر انسان کا انتخاب ہوتا ہے۔ مصروف زندگیوں، رشتوں میں رخنہ اندازی یا آزاد زندگی کی خواہش میں لوگ اکیلے رہنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ لیکن یوں اچانک انتقال کر جانا اور پھر مہینوں تک کسی کو اطلاع نہ ہونا یہ تنہائی کا وہ بھیانک چہرہ ہے جسے ہم قطعاً دیکھنا نہیں چاہتے۔ اکیلا رہنا جرم نہیں مگر لوگوں کے روگ رویے ہی کسی کے اکیلے رہنے کی بدترین تشریح کرتے ہیں۔
یہ واقعہ محض ایک فرد کی موت کا معاملہ نہیں۔ دراصل ہمارے نام نہاد معاشرے کا شیرازہ بکھرنے اور اس کے زوال کا اب بگل بج چکا ہے۔ مزیدبرآں یہ افسوسناک واقعہ خواتین فنکاروں سے غیر منصفانہ سلوک اور نفسیاتی صحت کے مسائل کی سنگین غفلت کی علامت ہے۔
ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے کہ حمیرا اصغر کی لاش پر اہلخانہ کا رویہ انتہائی سفاک ہے۔
یہ الفاظ فقط غصے کا اظہار نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کے زوال کے ساتھ ساتھ اس نام نہاد معاشرے کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جہاں رشتے توقعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔حمیرا اصغر اس جہان فانی سے کوچ کر گئی ہیں مگر اس کا وجود سوال کر رہا ہے کہ رشتہ کیا ہوتا ہے ؟ خون کا ؟ اطاعت کا یا انسانیت کا؟۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔