WE News:
2025-07-12@14:55:15 GMT

190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں شہزاد اکبر کا مرکزی کردار ثابت

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں شہزاد اکبر کا مرکزی کردار ثابت

190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں سابق چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ اور سابق مشیرِ احتساب مرزا شہزاد اکبر کا مرکزی کردار سامنے آ گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق شہزاد اکبر نے ایک غیر قانونی سکیم کا ماسٹر مائنڈ بن کر پاکستان کو مالی نقصان پہنچایا۔

ذرائع کے مطابق، 6 نومبر 2019 کو شہزاد اکبر نے ایک رازداری کے معاہدے (Deed of Confidentiality) پر دستخط کیے، جس کے بعد 190 ملین پاؤنڈ کی رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کے ذمہ داری اکاؤنٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کے نام ’نامزد اکاؤنٹ‘ میں منتقل کی گئی۔

معاہدے میں شریک ملزم ضیا المصطفیٰ نسیم نے بھی دستخط کیے اور رقم کو اسٹیٹ آف پاکستان کا اکاؤنٹ ظاہر کیا گیا، جب کہ اصل میں یہ بحریہ ٹاؤن کا مخصوص اکاؤنٹ تھا، جسے اسٹیٹ بینک کا اکاؤنٹ ظاہر کر کے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام کیا گیا۔

ریکارڈ کے مطابق شہزاد اکبر نے فروری اور مئی 2019 میں برطانیہ کے دورے کیے اور برطانوی ہوم سیکرٹری اور نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کے حکام سے ملاقاتیں کر کے فنڈز واپسی کا خفیہ روڈمیپ تیار کیا۔

ان دوروں میں شہزاد اکبر نے ایف بی آر، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کو شامل نہیں کیا، جسے بدنیتی قرار دیا جا رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر کی اس بدنیتی کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو شدید مالی نقصان پہنچا اور 190 ملین پاؤنڈز (تقریباً 50 ارب روپے) بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہوئے۔

شہزاد اکبر نے 3 دسمبر 2019 کو کابینہ اجلاس میں معاہدہ پیش کیا مگر چھپایا کہ وہ پہلے ہی 6 نومبر کو خفیہ معاہدے پر دستخط کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ، برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے 14 دسمبر 2018 سے پہلے 120 ملین پاؤنڈ ضبط کیے تھے، جو علی ریاض ملک اور مبشرہ ملک کے خلاف کارروائی کا حصہ تھے۔

این سی اے نے 1 Hyde Park Place اور دیگر جائیدادوں کے سلسلے میں کرائم ایکٹ 2002 کے تحت تحقیقات کیں۔ اثاثہ ریکوری یونٹ نے 13 اور 21 مارچ 2019 کو بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے معاہدے کیے، جب کہ سپریم کورٹ نے ان ہی دنوں بحریہ ٹاؤن پر جرمانہ عائد کیا اور فوجداری مقدمات مشروط طور پر معطل کیے۔

ذرائع کے مطابق تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ شہزاد اکبر نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے فنڈز کو چھپانے، بدنیتی اور کرپشن میں مرکزی کردار ادا کیا۔

اس کیس میں نیب اور دیگر ادارے تحقیقات کر رہے ہیں اور قانونی کارروائی جاری ہے۔ انہی الزامات کی بنیاد پر شہزاد اکبر کو اشتہاری مجرم قرار دیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: شہزاد اکبر نے سپریم کورٹ ملین پاؤنڈ بحریہ ٹاؤن کے مطابق

پڑھیں:

اے ٹی ایم کارڈز کے اجرا سے متعلق اسٹیٹ بینک کو کیا نئی ہدایات دی گئی ہیں؟

ملک بھر میں موجود بینک اکاؤنٹ ہولڈرز کو بینک کی جانب سے اے ٹی ایم مشینوں سے کیش نکلوانے، آن لائن خریداری اور کارڈ کے ذریعے شاپنگ کرنے کے لیے اے ٹی ایم کارڈز دیے جاتے ہیں، اس سہولت کے عوض اکاؤنٹ ہولڈر سے سالانہ 2 ہزار روپے تک کے چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بینک کی جانب سے ویزا کارڈ، ماسٹر کارڈ اور دیگر کارڈز جاری کیے جاتے ہیں۔

سینٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز نے گورنر اسٹیٹ بینک سے سوال کیا کہ اے ٹی ایم کارڈز جاری کرنے کے حوالے سے مختلف بینکوں کی کیا پالیسی ہے، یہ واضح نہیں ہے، کوئی بینک ویزا کارڈ جاری کرتا ہے، کوئی بینک ماسٹر کارڈ جاری کرتا ہے، جبکہ کسی بینک کے کارڈ سے ہم بیرون ملک میں خریداری کر سکتے ہیں، کسی اور بینک کے کارڈ سے خریداری ممکن نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے خراب اے ٹی ایم یا کرنسی نہ ہونے پر متعلقہ بینک کو کتنا جرمانہ ہوسکتا ہے؟

گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ کسی بھی بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کے بعد اے ٹی ایم کے حصول کے لیے درخواست دی جاتی ہے جس پر بینک کارڈ جاری کر دیتا ہے اور اس کے سالانہ چارجز وصول کرتا ہے۔ البتہ بینکوں کو اسٹیٹ بینک نے پابند نہیں کیا کہ وہ کون سے اکاؤنٹ ہولڈر کو کون سا کارڈ جاری کریں۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک خریداری کے لیے ایک درخواست کے ذریعے بینک سے اجازت لینا ہوتی ہے کہ وہ اے ٹی ایم کارڈ بیرون ملک استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کارڈ کو استعمال کر کے بیرون ملک خریداری کرسکے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بینک کا یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کس اکاؤنٹ ہولڈر کو کون سا کارڈ جاری کرے بلکہ یہ اکاؤنٹ ہولڈر کا اختیار ہونا چاہیے کہ اس کو کون سا کارڈ چاہیے، اس کے لیے اکاؤنٹ کھلواتے وقت فارم پر آپشن موجود ہونا چاہیے کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو کون سے والا اے ٹی ایم کارڈ چاہیے اور اس کی کیا فیس ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے اے ٹی ایم سے رقم کم نکلے تو کیا کرنا چاہیے؟

اس وقت تو بینکوں میں یہ صورتحال ہے کہ بینک اے ٹی ایم کارڈ جاری کرتا ہے اور اس کے 2ہزار روپے چارجز وصول کر لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینک کو چاہے، وہ مختلف آپشنز فارم میں رکھے تاکہ جو چاہے 2 ہزار روپے دے کر ویزا کارڈ حاصل کرے، جو چاہے 4 ہزار روپے یا 6 ہزار روپے دے کر ماسٹر کارڈ حاصل کرے، تاہم یہ اختیار اکاؤنٹ ہولڈر کو دینا چاہیے کہ اس کو کون سا کارڈ چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیٹ بینک اے ٹی ایم کارڈ

متعلقہ مضامین

  • 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس: مرزا شہزاد اکبر کا بدعنوانی میں مرکزی کردار ثابت
  • 190ملین پاؤنڈ کیس، شہزاد اکبر کا کرپشن میں مرکزی کردار ثابت ہوگیا
  • ایک سو نوے ملین پا ئونڈ کرپشن کیس میں شہزاد اکبر کا مرکزی کردار ثابت،غیر قانونی سکیم کا ماسٹر مائنڈ بن کر پاکستان کو مالی نقصان پہنچایا:ذرائع
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس، شہزاد اکبر کا کرپشن میں مرکزی کردار ثابت
  • ٹک ٹاک اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنے سے انکار پر باپ نے بیٹی کو قتل کر دیا
  • چیلسی کلب کے پاس تاریخ رقم کرنے کا موقع، جیت کی صورت میں اربوں کا انعام!
  • چیلسی کلب کے ہاتھ میں تاریخ رقم کرنے کا موقع، جیت کی صورت میں اربوں کا انعام!
  • ٹک ٹاک اکاؤنٹ ڈیلیٹ نہ کرنے پر بیٹی کو قتل کرنے والا باپ گرفتار
  • اے ٹی ایم کارڈز کے اجرا سے متعلق اسٹیٹ بینک کو کیا نئی ہدایات دی گئی ہیں؟