WE News:
2025-11-03@07:14:21 GMT

ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نیا عالمی نظام، ایک خطرناک مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نیا عالمی نظام، ایک خطرناک مستقبل

دنیا ایک بار پھر طاقتور ملکوں کے درمیان کشیدگی کے دور میں داخل ہو چکی ہے، اور اب جو نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے، وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اور جنگی صورت حال میں لپٹا ہوا ہوگا۔ دمتری ترینن، جو روس کے ایک معروف تجزیہ کار اور پروفیسر ہیں، اپنے مضمون میں خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ حالات نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر بھی لے جا سکتے ہیں۔

ایٹمی ہتھیار: روایتی جنگوں کے سائے میں چھپے خطرے

ماضی میں سرد جنگ کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہی دنیا کو بڑے پیمانے کی جنگوں سے بچاتا رہا۔ لیکن آج وہ احتیاط اور ڈر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی ممالک، خاص طور پر برطانیہ اور فرانس جیسے، اب ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جیسے ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی کا کوئی خدشہ ہی نہیں۔

یوکرین کی جنگ میں روس اور مغربی ممالک کا ٹکراؤ بالواسطہ جاری ہے۔ ایسے میں روسی ایٹمی تنصیبات پر یوکرینی حملے یا ایران پر اسرائیل و امریکا کے حملے، یہ سب ایسے واقعات ہیں جو ایٹمی نظریات کی سابقہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔

روسی صبر کی آزمائش

روسی قیادت اب تک برداشت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ روس نے بیرونِ ملک ان جگہوں کو نشانہ نہیں بنایا جہاں سے اس پر حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے، لیکن یہ برداشت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ یوکرین میں مغربی مداخلت، فوجی سازوسامان اور مشیروں کی فراہمی، ان سب سے روسی صبر جواب دے سکتا ہے۔

2023 میں روس نے اپنی ایٹمی پالیسی میں ترمیم کی اور بیلا روس جیسے اتحادیوں کو لاحق خطرات کو بھی اپنے ایٹمی ردعمل کی بنیاد میں شامل کر لیا۔

امریکا کا دوہرا رویہ اور ایران کا ممکنہ ردعمل

امریکا کی ایران مخالف پالیسی بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ایران پر حملے اس کے ایٹمی پروگرام کو ختم نہیں کر سکے۔ اب ایران کے پاس 2 راستے ہیں یا تو امریکی پابندیاں قبول کرے یا ایٹمی طاقت بننے کا کھلا راستہ اختیار کرے۔ اسی طرح جاپان، جنوبی کوریا اور ممکنہ طور پر تائیوان بھی مستقبل میں اپنی ایٹمی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں۔

ایٹمی طاقت امن کی ضمانت نہیں

ایٹمی طاقت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ روایتی جنگوں سے بچا جا سکے گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپ، اور یورپ کی یوکرین میں مداخلت اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی ہتھیار تصادم کو روکنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتے صرف اسے محدود کر سکتے ہیں۔

آنے والے وقت کے 5 بڑے رجحانات یوکرین میں روس کا فعال ایٹمی انتباہی کردار یورپ میں ایٹمی بحث کی واپسی، فرانس، جرمنی، پولینڈ کے خواب ایٹمی پھیلاؤ کے خلاف معاہدے کا بحران اور IAEA پر اعتماد میں کمی ایران کا عالمی معائنہ سے آزاد ایٹمی پروگرام جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کی ممکنہ ایٹمی تیاری نتیجہ: ایٹمی توازن یا مکمل تباہی؟

اگر دنیا ایٹمی طاقتوں کے درمیان بالواسطہ جنگوں کو نہ روک سکی تو ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال محض ایک خیال نہیں رہے گا، یہ ایک حقیقت بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ طاقتور ممالک نہ صرف براہِ راست جنگوں بلکہ پراکسی جنگوں سے بھی پرہیز کریں۔ بصورت دیگر، عالمی امن صرف ایک دھوکا رہ جائے گا۔

بشکریہ: رشیا ٹوڈے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ایٹمی ہتھیار ایران پاک بھارت جنگ روس یورپ یوکرین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایٹمی ہتھیار ایران پاک بھارت جنگ یورپ یوکرین ایٹمی ہتھیاروں

پڑھیں:

ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا

واشنگٹن:

امریکا کے وزیر توانائی کرس رائٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ایٹمی تجربات کا حکم دیا گیا ہے، ان میں فی الحال ایٹمی دھماکے شامل نہیں ہوں گے۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی وزیر توانائی اور ایٹمی دھماکوں کا اختیار رکھنے والے ادارے کے سربراہ کرس رائٹ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت جن تجربوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سسٹم ٹیسٹ ہیں اور یہ ایٹمی دھماکے نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں ہم نان-کریٹیکل دھماکے کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں ایٹمی ہتھیار کے تمام دیگر حصوں کی جانچ شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کو فعال کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربے نئے سسٹم کے تحت کیے جائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے تیار ہونے والے متبادل ایٹمی ہتھیار پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہوں۔

کرس رائٹ نے کہا کہ ہماری سائنس اور کمپیوٹنگ کی طاقت کے ساتھ، ہم انتہائی درستی کے ساتھ بالکل معلوم کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے میں کیا ہوگا اور اب ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ نتائج کس صورت میں حاصل ہوئے اور جب بم کے ڈیزائن تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔

قبل ازیں جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایٹمی تجربے کی آغاز کی دھمکی پر روس نے بھی خبردار کردیا؛ اہم بیان

ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا ان تجربات میں وہ زیر زمین ایٹمی دھماکے بھی شامل ہوں گے جو سرد جنگ کے دوران عام تھے تو انہوں نے اس کا واضح جواب نہیں میں دیا تھا۔

یاد رہے کہ امریکا نے 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • روس اور چین بھی ایٹمی تجربات کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں، امریکی صدر ٹرمپ کا انکشاف
  • ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
  • امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
  • ایران کا جوہری تنصیبات مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
  • ایران کا جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے، میرواعظ کشمیر