ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نیا عالمی نظام، ایک خطرناک مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
دنیا ایک بار پھر طاقتور ملکوں کے درمیان کشیدگی کے دور میں داخل ہو چکی ہے، اور اب جو نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے، وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اور جنگی صورت حال میں لپٹا ہوا ہوگا۔ دمتری ترینن، جو روس کے ایک معروف تجزیہ کار اور پروفیسر ہیں، اپنے مضمون میں خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ حالات نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر بھی لے جا سکتے ہیں۔
ایٹمی ہتھیار: روایتی جنگوں کے سائے میں چھپے خطرےماضی میں سرد جنگ کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہی دنیا کو بڑے پیمانے کی جنگوں سے بچاتا رہا۔ لیکن آج وہ احتیاط اور ڈر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی ممالک، خاص طور پر برطانیہ اور فرانس جیسے، اب ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جیسے ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی کا کوئی خدشہ ہی نہیں۔
یوکرین کی جنگ میں روس اور مغربی ممالک کا ٹکراؤ بالواسطہ جاری ہے۔ ایسے میں روسی ایٹمی تنصیبات پر یوکرینی حملے یا ایران پر اسرائیل و امریکا کے حملے، یہ سب ایسے واقعات ہیں جو ایٹمی نظریات کی سابقہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔
روسی صبر کی آزمائشروسی قیادت اب تک برداشت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ روس نے بیرونِ ملک ان جگہوں کو نشانہ نہیں بنایا جہاں سے اس پر حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے، لیکن یہ برداشت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ یوکرین میں مغربی مداخلت، فوجی سازوسامان اور مشیروں کی فراہمی، ان سب سے روسی صبر جواب دے سکتا ہے۔
2023 میں روس نے اپنی ایٹمی پالیسی میں ترمیم کی اور بیلا روس جیسے اتحادیوں کو لاحق خطرات کو بھی اپنے ایٹمی ردعمل کی بنیاد میں شامل کر لیا۔
امریکا کا دوہرا رویہ اور ایران کا ممکنہ ردعملامریکا کی ایران مخالف پالیسی بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ایران پر حملے اس کے ایٹمی پروگرام کو ختم نہیں کر سکے۔ اب ایران کے پاس 2 راستے ہیں یا تو امریکی پابندیاں قبول کرے یا ایٹمی طاقت بننے کا کھلا راستہ اختیار کرے۔ اسی طرح جاپان، جنوبی کوریا اور ممکنہ طور پر تائیوان بھی مستقبل میں اپنی ایٹمی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں۔
ایٹمی طاقت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ روایتی جنگوں سے بچا جا سکے گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپ، اور یورپ کی یوکرین میں مداخلت اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی ہتھیار تصادم کو روکنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتے صرف اسے محدود کر سکتے ہیں۔
اگر دنیا ایٹمی طاقتوں کے درمیان بالواسطہ جنگوں کو نہ روک سکی تو ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال محض ایک خیال نہیں رہے گا، یہ ایک حقیقت بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ طاقتور ممالک نہ صرف براہِ راست جنگوں بلکہ پراکسی جنگوں سے بھی پرہیز کریں۔ بصورت دیگر، عالمی امن صرف ایک دھوکا رہ جائے گا۔
بشکریہ: رشیا ٹوڈے
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایٹمی ہتھیار ایران پاک بھارت جنگ روس یورپ یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایٹمی ہتھیار ایران پاک بھارت جنگ یورپ یوکرین ایٹمی ہتھیاروں
پڑھیں:
کوئی بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کی جرات نہیں کرسکتا: ڈی جی آئی ایس پی آر
—فائل فوٹوپاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ کوئی بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کی جرات نہیں کرسکتا، پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر محفوظ ہے۔
غیرملکی چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت ناقابل تسخیر ہے، یہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں اور موجودہ علاقائی توازن پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اسلامی ریاست کے خلاف کسی بھی جارحیت کو علاقائی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے، بھارتی سیاسی قیادت متعدد مواقع پر پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کا اعتراف کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ہمیں شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے: لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری 5 سال کے مقابلے میں اس سال سب سے زیادہ دہشتگرد مارے گئے: لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدریانہوں نے کہا کہ بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے نیٹ ورک کا ماسٹر مائنڈ اجیت دوول ہے، امریکا اور کینیڈا سمیت کئی ممالک بھارتی ریاستی دہشت گردی کا اعتراف کر چکے ہیں، بھارت پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کی حمایت اور مالی معاونت کر رہا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارت کے مذموم عزائم پاکستان کی سلامتی کو غیرمستحکم کرنے کی منظم سازش ہے، بھارت کے مذموم عزائم بالخصوص بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی منظم سازش ہے، ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی کو بھارت نے بطور پالیسی پاکستان کے خلاف اپنایا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں جہاد یا قتال کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، اسلام میں جہاد یا قتال کا کسی فرد، تنظیم یا گروہ کو اختیار نہیں۔ فتنہ الخوارج کا اسلام، انسانیت، پاکستان یا پاکستانی روایات سے کوئی تعلق نہیں، فتنہ الہندوستان کی اصطلاح ان دہشت گردوں کے لیے ہے جو بھارتی حمایت یافتہ ہیں، فتنہ الہندوستان خصوصاً بلوچستان میں ملک کو غیرمستحکم کرنے میں سرگرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ خارجیوں کی اصطلاح پاکستانی فوج اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہی ہے، خوارج کی اصطلاح ان مسلح گروہوں کے لیے ہے جو ریاست اور فوج پر حملے کرتے ہیں۔