Daily Ausaf:
2025-07-12@13:20:08 GMT

سیزفائر کے پردے میں عالمی کھیل

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

کبھی کبھی قوموں کے افق پرایک ایسالمحہ ظہورپذیرہوتاہے جوصدیاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوتاہے۔بیسویں صدی کا نصفِ دوم ایک ایسا دور تھا جب سردجنگ کی بساط پرمشرقِ وسطیٰ کی بساط بچھائی جاچکی تھی۔تہران،جوکبھی صفویوں کے عہد میں فقہی اورفکری اجتہادکامرکزتھا،اب سرمایہ دارانہ سیاست کاسفارتی اڈہ بن چکاتھا۔اس خطے میں امریکانے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ایران کو، بالخصوص شاہ محمدرضاپہلوی کو،ایک ’’علاقائی تھانیدار‘‘ کے طورپرچناگیاکیونکہ خطے میں شاہِ ایران سے بہترکوئی بھی امریکی سامراج کیلئے بہترسایہ دار شجر موجودنہیں تھا۔امریکا،جواپنے تیل کے ذخائر کیلئے مشرقِ وسطیٰ کوناگزیرسمجھتاتھا،ایران کی جغرافیائی اورعسکری اہمیت کونظراندازنہ کرسکا۔
یہ وہ زمانہ تھاجب ایران،دجلہ وفرات کے کنارے نہیں بلکہ واشنگٹن کی چوکھٹ پرسجدہ ریز تھا۔ شاہِ ایران،نہ صرف خطے کاسیاسی چوکیداربلکہ امریکاکے اسٹرٹیجک منصوبوں کا ’’پروٹوکول افسر‘‘ بن چکاتھا۔شاہ ایران،جدیدیت کے لبادے میں مغرب کی تہذیبی غلامی کاپیکرتھا۔اس کے دورمیں ایران میں مغربی اقدارکاسیلاب امڈآیا۔ایران واسرائیل کے مابین تعلقات محض رسمی نہیں،بلکہ گہرے دفاعی، انٹیلی جنس اوراقتصادی مفادات کے حامل تھے۔موساداورساواک کے گٹھ جوڑنے خطے کے مزاحمتی عناصرکوکچلنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ ایران،اسرائیل کوتیل فراہم کرتا تھا، اور اسرائیل، ایران کوٹیکنالوجی وتربیت دیتا تھا۔ اس وقت ایران اور اسرائیل کے تعلقات،محض سفارتی تکلفات نہیں تھے بلکہ معاشی،دفاعی اورانٹیلی جنس سطح پر گہرے مراسم کادوسرانام تھے۔ موساد اور ساواک (ایران کی خفیہ ایجنسی)ایک ہی میز پر بیٹھ کرمشرقِ وسطیٰ کے خفیہ نقشے کھینچاکرتے تھے۔ تل ابیب اورتہران کے درمیان محض فضائی مسافت نہ تھی بلکہ فکری ہم آہنگی اورسامراجی قربت کاپل بھی استوارتھا۔
1979ء کاسال ایران کی تاریخ میں ایک ایساموڑثابت ہواجس نے صرف ایک حکومت کا تختہ الٹانہیں بلکہ ایک عالمی فکرکوچیلنج کیا۔ امام خمینی کی قیادت میں برپاہونے والے اسلامی انقلاب نے مغربی استعمارکے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا۔ شاہ کوملک چھوڑناپڑا۔امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کاسورج طلوع ہوا، تو صرف ایک حکومت کاتختہ نہیں الٹا،بلکہ ایک عالمی نظام کوفکری چیلنج دے دیاگیا۔
وہ ایران جوکبھی امریکی عزائم کا محور تھا، اب ایران کی فضامیں ایک انقلابی نعرہ گونجا،’’نہ مشرقی،نہ مغربی،صرف اسلامی‘‘کے نعرے کا علمبردار بن گیا۔اس ایک جملے نے امریکی مفادات کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا۔ ایران، جوکل تک سی آئی اے کاخفیہ اڈہ تھا،اب سامراج دشمنوں کاقبلہ بن چکاتھا۔امام خمینی نے واضح طور پر اسرائیل کو’’سرطانی غدہ‘‘ قرار دیا، اور امریکا کو ’’شیطانِ اکبر‘‘۔یہ صرف سیاسی نعرے نہ تھے، بلکہ تہذیبی اورفکری بیانات تھے جومغربی استعمار کے مقابل ایک نئی اسلامی شناخت کااعلان تھے۔ شاہ کوملک چھوڑناپڑا۔
لیکن امریکا کویہ ایرانی انقلاب ہضم نہیں ہورہاتھا۔اس نے توایساسوچابھی نہیں تھاکہ خطے کی برتری اس طرح خاک میں مل جائے گی ۔ ایرانی انقلاب کاسیلاب امریکی چار دہائیوں سے ایران پراس کی مضبوط گرفت اوراس کے مستقبل کے ارادوں کوبہالے جائے گی، اورتیل سے مالا مال مشرقِ وسطی جیسے خطے میں اس کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔امریکانے اس انقلاب کوناکام بنانے کیلئے ایران میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازشیں شروع کردیں جس کے جواب میں ایرانی طلبانے تہران میں امریکی سفارتکاروں کو اغوا کرکے امریکا کے سامنے اپنے کئی ایسے مطالبات رکھ دیئے جس سے وہ ایران میں امریکی ریشہ دوانیوں کوختم کرے۔
امریکی سفارت خانے پرقبضہ اورسفارت کاروں کااغواایک ایساواقعہ تھاجس نے عالمی سفارتی روایات کوجھنجھوڑکررکھ دیا۔ایرانی طلبا کے ہاتھوں امریکی سفارت خانے پرقبضہ اور سفارت کاروں کااغوا،گویاواشنگٹن کے چہرے پر طمانچہ تھا۔ایرانی طلبانے اس اقدام کوامریکاکی سازشوں کے ردِعمل کے طورپرپیش کیا۔واشنگٹن میں کہرام مچ گیا،عالمی برادری میں ایران کے خلاف نفرت ابھرنے لگی۔
دنیا حیران،سامراج پریشان،صدرجمی کارٹر نے ’’آپریشن ایگل کلا‘‘نامی ایک خفیہ فوجی کارروائی کی گئی،جس کامقصدمغویوں کورہا کرانا تھامگریہ کارروائی نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ امریکی عسکری وقارکاکفن بھی بن گئی۔ریت کے طوفان میں پھنسے امریکی طیارے ،ٹوٹے پرزے اورجلتی ہوئی لاشیںسب انقلاب کے طغیانی بیانیے کے گواہ بن گئے۔صحرائے طبس کی ریت نے امریکی عسکری غرورکونگل لیا۔اس واقعے نے امریکی وقار پرکاری ضرب لگائی اورایران کی انقلابی قیادت کیلئے ایک فکری فتح کاپیغام لایا۔جس رات امریکی آپریشن ناکام ہوا،اس سے اگلی شام امام خمینی نے اپنی قوم کے ہرفردکویہ پیغام دیاکہ وہ اپنے گھرکی چھت پرکھڑاہو کرتین دفعہ’’اللہ اکبر‘‘اللہ کی کبریائی کااعلان کرے کہ اس نے اپنی دو طاقتوں ’’اندھیرے اورآندھی‘‘سے امریکاکے تکبر کو پاش پاش کر دیا۔
امریکانے بالآخر اپنے اتحادیوں کواپنے ساتھ شامل کرکے ایران پراقتصادی پابندیاں لگاکر استعماری انتقام کے ہتھیارکے طورپر استعمال کرنا شروع کردیا۔امریکااوراس کے اتحادیوں نے ایران پرمعاشی پابندیوں کاجال بچھادیا۔اقتصادی قینچی کے استعمال سے ایران کا مالیاتی نظام عالمی منڈیوں سے کاٹ دیاگیا،تیل کی برآمدات محدود کر دی گئیں،اور روزمرہ ضروریات کی اشیاتک کی درآمد پرقدغن لگادی گئی۔ سمندری راستوں پرپہرے بٹھادیئے گئے کہ ایران پرزندگی تنگ کردی جائے۔یہ سب کچھ اس امیدپرکیاگیاکہ ایرانی عوام انقلابی حکومت سے مایوس ہوکربغاوت کریں گے،مگرایران نے استقامت کامظاہرہ کیا۔ اگرچہ معیشت کوشدید نقصان پہنچالیکن ایرانی عوام نے انقلاب کے نظریاتی دامن کونہ چھوڑا۔ امریکانے اپنی ناکامیوں کاانتقام ایران کی معیشت سے لیا۔معاشی پابندیوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ایران کوعالمی مالیاتی اداروں سے الگ کر دیاگیا،تیل کی برآمدات محدود کی گئیں، اور ہر اس دروازے پر قفل ڈال دیاگیاجہاں سے ایران کوسانس آتی تھی۔امریکانے صرف پابندیاں ہی نہیں لگائیں،بلکہ اپنے کرائے کے سپاہی اسرائیل کوخطے میں اپناآلہ کاربناکرایران پردباؤمیں اضافہ بھی کیا۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کومغربی دنیا، بالخصوص اسرائیل اورامریکانے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا۔’’ایران ایٹمی ہتھیاربنارہاہے جو دنیا کیلئے ایک شدیدخطرہ ہے‘‘اس بیانیے کو ہتھیار بناکرعالمی رائے عامہ کوایران کے خلاف ہموار کیا گیا حالانکہ ایران بارہادعویٰ کرتارہا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے،تاہم اسرائیل نے اسے اپنی بقاکیلئے خطرہ قراردیا۔ایران کا ایٹمی پروگرام،جسے وہ قومی خودمختاری کاپرچم کہتا ہے،اسرائیل نے اسے اپنے لئے اورمشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کیلئے ایک خطرہ قراردے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل،جوخودایٹمی طاقت ہے مگرعالمی قوانین سے مبرا،ایران کے کسی بھی ممکنہ ایٹمی صلاحیت کوبرداشت نہیں کرسکتا۔ چنانچہ امریکااوراس کے اتحادیوں نے خاموشی سے اسرائیلی حملوں کی پشت پناہی شروع کردی۔
ایران کاایٹمی پروگرام ایک عرصے سے عالمی سطح پربحث ومباحثے کاموضوع بنا ہوا ہے۔ مغربی طاقتیں،بالخصوص امریکا،اس خدشے کا اظہار کرتا آ رہاہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کررہا ہے،جوکہ دنیاکے امن وسلامتی کیلئے ایک بڑاخطرہ ہوسکتا ہے۔تاہم،اس بیانیے کے پیچھے کارفرماسیاسی عزائم اورتاریخی حقائق کاجائزہ لیاجائے توواضح ہوتاہے کہ یہ محض ایک یکطرفہ مؤقف نہیں بلکہ ایک گہری بین الاقوامی سیاسی چال کاحصہ ہے۔ امریکا نے’’ایران ایٹمی ہتھیاربنارہاہے‘‘ جیسے بیانیے کوبطورہتھیاراستعمال کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کوایران کے خلاف ہموار کرنے کی منظم کوشش کی ہے۔یہ بیانیہ مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمزپر باربار دہرایا جاتا ہے، جس کامقصدایران پردباؤبڑھانا، پابندیاں عائد کرنا اوراس کے علاقائی اثرورسوخ کو محدود کرنا ہے۔
یہ صورتحال ماضی میں عراق کے خلاف اپنائی گئی امریکی پالیسی سے خاصی مماثلت رکھتی ہے۔2003ء میں امریکااوراس کے اتحادیوں نے دعویٰ کیاکہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارموجودہیں۔ان الزامات کو جوازبناکرعراق پر حملہ کیاگیا،جس کے نتیجے میں لاکھوں افرادجاں بحق اورپوراملک تباہ ہوگیا۔ بعدازاں،خود مریکا نے اقوامِ متحدہ میں اعتراف کیاکہ ایسے ہتھیاروں کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیرِاعظم ٹونی بلیئرنے بھی اپنی غلطی کااعتراف کیااور اسے ایک ’’قومی سانحہ ‘‘ قراردیا۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ ایران میں میں ایران کیلئے ایک ایران کو ایران کی ایران کے کہ ایران کے خلاف

پڑھیں:

طاقت کی حکمرانی کا کھیل

پاکستان کا جو ریاستی حکومتی اور حکمرانی کا جو نظام ہے وہ بنیادی طور پر طاقت کی حکمرانی کے گرد گھوم رہا ہے۔طاقت کی حکمرانی سے مراد یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا ہر فریق ہر صورت میں دوسرے فریق کے مقابلے میں اپنی بالادستی چاہتا ہے ۔یعنی وہ طاقت کے توازن کوہی اپنے کنٹرول میں رکھ کر پورے نظام پر اپنی سیاسی برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔

طاقت کی حکمرانی میں بنیادی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اس میں طاقت کا مرکز عوام یا عوامی مفادات یا آئین اور قانون کی حکمرانی یا سیاسی اور جمہوری نظام کی بالادستی کے مقابلے میں مخصوص افراد اور گروہ کی عملی طاقت ہوتی ہے۔اس وقت بھی پاکستان میںجو سیاسی رسہ کشی،ٹکراؤ اور تناؤ کا ماحول غالب نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ اختیارات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی جنگ ہے۔جب بھی  حکمرانی کا نظام اداروں کے مقابلے میں افراد کے گرد گھومے گا تو اس طرز کے نظام میں بہتری کی کوئی بڑی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔

عام افراد یا کمزور طبقات سمیت معاشرے کے پڑھے لکھے اور با اثر افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اس موجودہ نظام میں ان کے اہم مسائل کے حل کی گنجائش کس حد تک موجود ہے ۔کیونکہ جو سیاسی لڑائی جاری ہے اس سے عام آدمی کو تو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا البتہ طاقت کے حصول کے لیے فریقین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل اپنا رنگ ضرور دکھاتا ہے۔

اس کھیل میں کبھی ایک فریق اور کبھی دوسرا فریق طاقت پکڑتا ہے ۔لیکن اس کھیل میں شامل تمام فریقین کو اس بات میں کوئی بھی دلچسپی نہیں کہ عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی کا شفاف نظام کہاں کھڑا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ معاشرے میں موجود بہت سے طبقات کا جمہوریت سے اور اس جمہوری نظام سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ بالا دست طبقے اور عوام کے درمیان جو خلیج بڑھ رہی ہے وہ ہمارے داخلی معاملات میں عملا مزیدخرابی کے اسباب پیدا کر رہا ہے۔اس موجودہ نظام میں معاشرے میں موجود لوگ بنیادی طور پر جمہوریت کے نام پر طاقتور فریقین کے لیے بطور ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں جو عوامی مفادات کے برعکس ہے۔

یہ جو جمہوریت، سیاست، آئین ،قانون کی حکمرانی ،عدلیہ کی بالادستی، سوچنے، سمجھنے، بولنے اور لکھنے کی فکری آزادیاں سمیت عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے نعروں کو دیکھیں توایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ طاقتور لوگوں کے لیے کھلونا بن چکے ہیں۔ اس کھیل کی ذمے داری یا تباہی کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ عملا ماضی اور حال کے جو بھی حکمران طبقات ہیں یا وہ طاقتور طبقات جو پس پردہ اپنی طاقت کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ سب اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے نظام میں اداروں کی خود مختاری اور شفافیت پر سوالات ہی سوالات نظر آتے ہیں ۔

صرف ہم ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا سے جڑے ادارے جو ریاستی نظاموں کی درجہ بندی کرتے ہیں ان میں بھی نہ صرف ہماری درجہ بندی منفی بنیادوں پر کرتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ معاشرے کے اندر یا باہر سے ہمارے ریاستی اور حکمرانی کے نظام پر بہت سے لوگ ادارے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن ان کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ رد عمل کی سیاست ہے جوسب پر غالب ہے۔سیاسی آوازوں کو سیاسی حکمت عملی سے نمٹنے کے بجائے جب بھی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو عمومی طور پر اس کے منفی اثرات ہی سماج پر پڑتے ہیں جو سماج میں حکمرانوں کے خلاف گہری تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

اس وقت اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو اس میں چند اہم پہلو توجہ طلب ہیں۔ حالیہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد 44.7 فیصد بنتی ہے۔ اسی طرح سے 36 فیصد افراد ملک میں ایسے ہیں جو خوراک کے بحران کا شکار ہیں یعنی ان کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔

عملاپاکستان میں پڑھی لکھی نوجوان نسل بڑی تیزی سے اپنے معاشی روزگار یا معاشی تحفظ کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہے اور اس میں پنجاب کے نوجوان سر فہرست نظر آتے ہیں۔وجہ ظاہر ہے کہ جب اس ملک میں لوگوں کے لیے روزگار نہیں ہوگا یا معاشی عدم تحفظ ہوگا یا آمدنی وخرچ کی سطح پر بڑھتے ہوئے عدم توازن کے مسائل ہوں گے تو لوگ کیوں کر ملک نہیں چھوڑیں گے۔یہ اعداد و شمار بھی سامنے آئے ہیں کہ اس وقت ملک میں 42 فیصد افراد ایسے ہیں جن کی قوت خرید کم ہوئی ہے اور ان کو اپنی بنیادی ضروریات میں کٹوتی کرنی پڑ رہی ہے۔

حکومت کی سطح پر نیا روزگار پیدا کرنا اپنی جگہ وہ تو پہلے سے موجود برسر روزگار لوگوں کو بھی بے روزگاری کی طرف دھکیل رہی ہے اور بڑی تیزی سے حکومت کی سطح پر اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کا کھیل جاری ہے۔روز مرہ کی اشیاء میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،بجلی کی لوڈ شیڈنگ،مہنگی بجلی، بجلی کے بلوں پر اضافی ٹیکس،بجلی کی قیمت میں پرائم ٹائم اور نان پرائم ٹائم کے مسائل،سلیب سسٹم، مہنگاپٹرول اور ڈیزل سمیت بہت زیادہ لیوی ٹیکس، مہنگی ادویات اور مہنگی گیس جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔

ٹیکس وصول کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے لیکن محض طاقتور طبقات کے مقابلے میں عام افراد یا مڈل کلاس افراد پر جبری ٹیکس لگا کر آپ ٹیکس کے نظام کو نہ تو منصفانہ بنا سکتے ہیں اور نہ شفاف۔حکومت کو جن لوگوں سے ٹیکس عملی طورپر ٹیکس وصول کرنا چاہیے ان سے سیاسی سمجھوتے کیے جاتے ہیں اور اس کا سارا بوجھ عام افراد پر ڈال کر ریاست کے نظام کو چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اول تو ہم نظام میں تبدیلی کے لیے کسی بھی طور پر اصلاحات کے ایجنڈے پر یقین ہی نہیں کرتے اور اگر ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر کچھ اصلاحات کرنی بھی پڑ جائے تو یہ بھی کاغذی عمل بن کر رہ جاتا ہے۔ہمارا عدالتی نظام،پولیس کا نظام،تعلیم اور صحت کا نظام، بیوروکریسی کا نظام سمیت معاشی نظام بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام ان خرابیوں کی نشاندہی کو درست کرنے کے بجائے اس نظام میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاںجن مسائل کی نشاندہی ریاستی اور حکومتی نظام میں کی جا رہی ہے کیا وہ ہمارے سیاسی نظام کے بحث کا موضوع ہے۔کیا سیاسی جماعتوں سمیت پارلیمنٹ میں ایسے مباحث ہو رہے ہیں جو ہمارے حقیقی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ جن کا تعلق حکومت سے ہو یا حزب اختلاف سے وہ عوامی مفادات سے جڑے مسائل کی درست طور پر ترجمانی کر رہے ہیں تو ہمیں ان کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔

ہم مسائل کے بجائے شخصیات کے گرد کھڑے ہیں اور ان ہی شخصیات کے گرد مثبت اور منفی بنیادوں پر بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک اور بد قسمتی یہ ہے کہ سول سوسائٹی یا اہل دانش کا وہ طبقہ جس نے موجودہ نظام میں عملا موجود خرابیوں کو چیلنج کرنا تھا یا اس میں مزاحمت پیدا کرنی تھی وہ بھی یا تو طاقت کے مراکز کے کھیل میںاپنے مفادات کے لیے حصہ بن چکے ہیں یا وہ عملی طور پر غیر سنجیدہ موضوعات یا شخصی مباحثوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نیا عالمی نظام، ایک خطرناک مستقبل
  • عمران خان کی رہائی بچوں یا بہنوں سے نہیں ان کے اپنے طرز عمل پر منحصر ہے،عرفان صدیقی
  • طاقت کی حکمرانی کا کھیل
  • خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں
  • عمران خان کی رہائی بچوں یا بہنوں سے نہیں، انکے اپنے طرزِعمل پر منحصر ہے،عرفان صدیقی
  • جانتے ہیں کہ ایران کا انتہائی افزودہ یورینیم کہاں دفن ہے، نیتن یاہو کا دعویٰ
  • بلاول بھٹو زرداری عالمی سطح پر پاکستان کی باوقار آواز بن چکے ہیں، شرجیل میمن
  • پاکستان صہیونی سازشوں کے نشانے پر؟
  • کان پکڑ لیں