Daily Ausaf:
2025-11-02@17:31:11 GMT

سیزفائر کے پردے میں عالمی کھیل

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

کبھی کبھی قوموں کے افق پرایک ایسالمحہ ظہورپذیرہوتاہے جوصدیاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوتاہے۔بیسویں صدی کا نصفِ دوم ایک ایسا دور تھا جب سردجنگ کی بساط پرمشرقِ وسطیٰ کی بساط بچھائی جاچکی تھی۔تہران،جوکبھی صفویوں کے عہد میں فقہی اورفکری اجتہادکامرکزتھا،اب سرمایہ دارانہ سیاست کاسفارتی اڈہ بن چکاتھا۔اس خطے میں امریکانے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ایران کو، بالخصوص شاہ محمدرضاپہلوی کو،ایک ’’علاقائی تھانیدار‘‘ کے طورپرچناگیاکیونکہ خطے میں شاہِ ایران سے بہترکوئی بھی امریکی سامراج کیلئے بہترسایہ دار شجر موجودنہیں تھا۔امریکا،جواپنے تیل کے ذخائر کیلئے مشرقِ وسطیٰ کوناگزیرسمجھتاتھا،ایران کی جغرافیائی اورعسکری اہمیت کونظراندازنہ کرسکا۔
یہ وہ زمانہ تھاجب ایران،دجلہ وفرات کے کنارے نہیں بلکہ واشنگٹن کی چوکھٹ پرسجدہ ریز تھا۔ شاہِ ایران،نہ صرف خطے کاسیاسی چوکیداربلکہ امریکاکے اسٹرٹیجک منصوبوں کا ’’پروٹوکول افسر‘‘ بن چکاتھا۔شاہ ایران،جدیدیت کے لبادے میں مغرب کی تہذیبی غلامی کاپیکرتھا۔اس کے دورمیں ایران میں مغربی اقدارکاسیلاب امڈآیا۔ایران واسرائیل کے مابین تعلقات محض رسمی نہیں،بلکہ گہرے دفاعی، انٹیلی جنس اوراقتصادی مفادات کے حامل تھے۔موساداورساواک کے گٹھ جوڑنے خطے کے مزاحمتی عناصرکوکچلنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ ایران،اسرائیل کوتیل فراہم کرتا تھا، اور اسرائیل، ایران کوٹیکنالوجی وتربیت دیتا تھا۔ اس وقت ایران اور اسرائیل کے تعلقات،محض سفارتی تکلفات نہیں تھے بلکہ معاشی،دفاعی اورانٹیلی جنس سطح پر گہرے مراسم کادوسرانام تھے۔ موساد اور ساواک (ایران کی خفیہ ایجنسی)ایک ہی میز پر بیٹھ کرمشرقِ وسطیٰ کے خفیہ نقشے کھینچاکرتے تھے۔ تل ابیب اورتہران کے درمیان محض فضائی مسافت نہ تھی بلکہ فکری ہم آہنگی اورسامراجی قربت کاپل بھی استوارتھا۔
1979ء کاسال ایران کی تاریخ میں ایک ایساموڑثابت ہواجس نے صرف ایک حکومت کا تختہ الٹانہیں بلکہ ایک عالمی فکرکوچیلنج کیا۔ امام خمینی کی قیادت میں برپاہونے والے اسلامی انقلاب نے مغربی استعمارکے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا۔ شاہ کوملک چھوڑناپڑا۔امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کاسورج طلوع ہوا، تو صرف ایک حکومت کاتختہ نہیں الٹا،بلکہ ایک عالمی نظام کوفکری چیلنج دے دیاگیا۔
وہ ایران جوکبھی امریکی عزائم کا محور تھا، اب ایران کی فضامیں ایک انقلابی نعرہ گونجا،’’نہ مشرقی،نہ مغربی،صرف اسلامی‘‘کے نعرے کا علمبردار بن گیا۔اس ایک جملے نے امریکی مفادات کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا۔ ایران، جوکل تک سی آئی اے کاخفیہ اڈہ تھا،اب سامراج دشمنوں کاقبلہ بن چکاتھا۔امام خمینی نے واضح طور پر اسرائیل کو’’سرطانی غدہ‘‘ قرار دیا، اور امریکا کو ’’شیطانِ اکبر‘‘۔یہ صرف سیاسی نعرے نہ تھے، بلکہ تہذیبی اورفکری بیانات تھے جومغربی استعمار کے مقابل ایک نئی اسلامی شناخت کااعلان تھے۔ شاہ کوملک چھوڑناپڑا۔
لیکن امریکا کویہ ایرانی انقلاب ہضم نہیں ہورہاتھا۔اس نے توایساسوچابھی نہیں تھاکہ خطے کی برتری اس طرح خاک میں مل جائے گی ۔ ایرانی انقلاب کاسیلاب امریکی چار دہائیوں سے ایران پراس کی مضبوط گرفت اوراس کے مستقبل کے ارادوں کوبہالے جائے گی، اورتیل سے مالا مال مشرقِ وسطی جیسے خطے میں اس کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔امریکانے اس انقلاب کوناکام بنانے کیلئے ایران میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازشیں شروع کردیں جس کے جواب میں ایرانی طلبانے تہران میں امریکی سفارتکاروں کو اغوا کرکے امریکا کے سامنے اپنے کئی ایسے مطالبات رکھ دیئے جس سے وہ ایران میں امریکی ریشہ دوانیوں کوختم کرے۔
امریکی سفارت خانے پرقبضہ اورسفارت کاروں کااغواایک ایساواقعہ تھاجس نے عالمی سفارتی روایات کوجھنجھوڑکررکھ دیا۔ایرانی طلبا کے ہاتھوں امریکی سفارت خانے پرقبضہ اور سفارت کاروں کااغوا،گویاواشنگٹن کے چہرے پر طمانچہ تھا۔ایرانی طلبانے اس اقدام کوامریکاکی سازشوں کے ردِعمل کے طورپرپیش کیا۔واشنگٹن میں کہرام مچ گیا،عالمی برادری میں ایران کے خلاف نفرت ابھرنے لگی۔
دنیا حیران،سامراج پریشان،صدرجمی کارٹر نے ’’آپریشن ایگل کلا‘‘نامی ایک خفیہ فوجی کارروائی کی گئی،جس کامقصدمغویوں کورہا کرانا تھامگریہ کارروائی نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ امریکی عسکری وقارکاکفن بھی بن گئی۔ریت کے طوفان میں پھنسے امریکی طیارے ،ٹوٹے پرزے اورجلتی ہوئی لاشیںسب انقلاب کے طغیانی بیانیے کے گواہ بن گئے۔صحرائے طبس کی ریت نے امریکی عسکری غرورکونگل لیا۔اس واقعے نے امریکی وقار پرکاری ضرب لگائی اورایران کی انقلابی قیادت کیلئے ایک فکری فتح کاپیغام لایا۔جس رات امریکی آپریشن ناکام ہوا،اس سے اگلی شام امام خمینی نے اپنی قوم کے ہرفردکویہ پیغام دیاکہ وہ اپنے گھرکی چھت پرکھڑاہو کرتین دفعہ’’اللہ اکبر‘‘اللہ کی کبریائی کااعلان کرے کہ اس نے اپنی دو طاقتوں ’’اندھیرے اورآندھی‘‘سے امریکاکے تکبر کو پاش پاش کر دیا۔
امریکانے بالآخر اپنے اتحادیوں کواپنے ساتھ شامل کرکے ایران پراقتصادی پابندیاں لگاکر استعماری انتقام کے ہتھیارکے طورپر استعمال کرنا شروع کردیا۔امریکااوراس کے اتحادیوں نے ایران پرمعاشی پابندیوں کاجال بچھادیا۔اقتصادی قینچی کے استعمال سے ایران کا مالیاتی نظام عالمی منڈیوں سے کاٹ دیاگیا،تیل کی برآمدات محدود کر دی گئیں،اور روزمرہ ضروریات کی اشیاتک کی درآمد پرقدغن لگادی گئی۔ سمندری راستوں پرپہرے بٹھادیئے گئے کہ ایران پرزندگی تنگ کردی جائے۔یہ سب کچھ اس امیدپرکیاگیاکہ ایرانی عوام انقلابی حکومت سے مایوس ہوکربغاوت کریں گے،مگرایران نے استقامت کامظاہرہ کیا۔ اگرچہ معیشت کوشدید نقصان پہنچالیکن ایرانی عوام نے انقلاب کے نظریاتی دامن کونہ چھوڑا۔ امریکانے اپنی ناکامیوں کاانتقام ایران کی معیشت سے لیا۔معاشی پابندیوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ایران کوعالمی مالیاتی اداروں سے الگ کر دیاگیا،تیل کی برآمدات محدود کی گئیں، اور ہر اس دروازے پر قفل ڈال دیاگیاجہاں سے ایران کوسانس آتی تھی۔امریکانے صرف پابندیاں ہی نہیں لگائیں،بلکہ اپنے کرائے کے سپاہی اسرائیل کوخطے میں اپناآلہ کاربناکرایران پردباؤمیں اضافہ بھی کیا۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کومغربی دنیا، بالخصوص اسرائیل اورامریکانے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا۔’’ایران ایٹمی ہتھیاربنارہاہے جو دنیا کیلئے ایک شدیدخطرہ ہے‘‘اس بیانیے کو ہتھیار بناکرعالمی رائے عامہ کوایران کے خلاف ہموار کیا گیا حالانکہ ایران بارہادعویٰ کرتارہا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے،تاہم اسرائیل نے اسے اپنی بقاکیلئے خطرہ قراردیا۔ایران کا ایٹمی پروگرام،جسے وہ قومی خودمختاری کاپرچم کہتا ہے،اسرائیل نے اسے اپنے لئے اورمشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کیلئے ایک خطرہ قراردے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل،جوخودایٹمی طاقت ہے مگرعالمی قوانین سے مبرا،ایران کے کسی بھی ممکنہ ایٹمی صلاحیت کوبرداشت نہیں کرسکتا۔ چنانچہ امریکااوراس کے اتحادیوں نے خاموشی سے اسرائیلی حملوں کی پشت پناہی شروع کردی۔
ایران کاایٹمی پروگرام ایک عرصے سے عالمی سطح پربحث ومباحثے کاموضوع بنا ہوا ہے۔ مغربی طاقتیں،بالخصوص امریکا،اس خدشے کا اظہار کرتا آ رہاہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کررہا ہے،جوکہ دنیاکے امن وسلامتی کیلئے ایک بڑاخطرہ ہوسکتا ہے۔تاہم،اس بیانیے کے پیچھے کارفرماسیاسی عزائم اورتاریخی حقائق کاجائزہ لیاجائے توواضح ہوتاہے کہ یہ محض ایک یکطرفہ مؤقف نہیں بلکہ ایک گہری بین الاقوامی سیاسی چال کاحصہ ہے۔ امریکا نے’’ایران ایٹمی ہتھیاربنارہاہے‘‘ جیسے بیانیے کوبطورہتھیاراستعمال کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کوایران کے خلاف ہموار کرنے کی منظم کوشش کی ہے۔یہ بیانیہ مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمزپر باربار دہرایا جاتا ہے، جس کامقصدایران پردباؤبڑھانا، پابندیاں عائد کرنا اوراس کے علاقائی اثرورسوخ کو محدود کرنا ہے۔
یہ صورتحال ماضی میں عراق کے خلاف اپنائی گئی امریکی پالیسی سے خاصی مماثلت رکھتی ہے۔2003ء میں امریکااوراس کے اتحادیوں نے دعویٰ کیاکہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارموجودہیں۔ان الزامات کو جوازبناکرعراق پر حملہ کیاگیا،جس کے نتیجے میں لاکھوں افرادجاں بحق اورپوراملک تباہ ہوگیا۔ بعدازاں،خود مریکا نے اقوامِ متحدہ میں اعتراف کیاکہ ایسے ہتھیاروں کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیرِاعظم ٹونی بلیئرنے بھی اپنی غلطی کااعتراف کیااور اسے ایک ’’قومی سانحہ ‘‘ قراردیا۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ ایران میں میں ایران کیلئے ایک ایران کو ایران کی ایران کے کہ ایران کے خلاف

پڑھیں:

ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران:  ایران نے امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کرنے کے فیصلے کو دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ واشنگٹن کا یہ اقدام نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ عالمی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ بھی پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی ہزاروں ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے، جب دوبارہ تجربات کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو ایک نئے خطرناک دوڑ کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔

عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا اپنے عسکری مفادات کے لیے عالمی قوانین اور عدمِ پھیلاؤ کے معاہدوں کو مسلسل پامال کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکا کو  شرپسند ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر طاقت کے زعم میں مبتلا ہے، وہ انسانیت اور عالمی امن دونوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔

ایران نے عالمی برادری خصوصاً اقوامِ متحدہ اور جوہری توانائی ایجنسی سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکا کے اس خطرناک فیصلے کا فوری نوٹس لیں اور ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے عملی کردار ادا کریں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 33 سال بعد ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا اپنے جوہری اثاثوں کی جانچ  برابری کی بنیاد پر فوری طور پر شروع کرے گا تاکہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے ایٹمی پروگراموں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

برطانوی ذرائع کے مطابق واشنگٹن نے اس فیصلے کو  قومی سلامتی کی ضرورت کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم عالمی سطح پر اس پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اگر امریکا نے واقعی جوہری تجربات بحال کیے تو یہ سرد جنگ کے دور کی یاد تازہ کر دے گا اور دنیا ایک نئی ہتھیاروں کی دوڑ میں داخل ہو سکتی ہے۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد دیگر ایٹمی ریاستیں بھی اپنے تجربات تیز کر سکتی ہیں، جس سے عالمی امن، ماحول اور انسانی بقا پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • امن کے نام پر نیا کھیل!ح-ماس کو دھمکیاں اسرائیل کو نظرانداز
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی