Express News:
2025-11-03@01:59:08 GMT

طاقت کی حکمرانی کا کھیل

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

پاکستان کا جو ریاستی حکومتی اور حکمرانی کا جو نظام ہے وہ بنیادی طور پر طاقت کی حکمرانی کے گرد گھوم رہا ہے۔طاقت کی حکمرانی سے مراد یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا ہر فریق ہر صورت میں دوسرے فریق کے مقابلے میں اپنی بالادستی چاہتا ہے ۔یعنی وہ طاقت کے توازن کوہی اپنے کنٹرول میں رکھ کر پورے نظام پر اپنی سیاسی برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔

طاقت کی حکمرانی میں بنیادی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اس میں طاقت کا مرکز عوام یا عوامی مفادات یا آئین اور قانون کی حکمرانی یا سیاسی اور جمہوری نظام کی بالادستی کے مقابلے میں مخصوص افراد اور گروہ کی عملی طاقت ہوتی ہے۔اس وقت بھی پاکستان میںجو سیاسی رسہ کشی،ٹکراؤ اور تناؤ کا ماحول غالب نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ اختیارات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی جنگ ہے۔جب بھی  حکمرانی کا نظام اداروں کے مقابلے میں افراد کے گرد گھومے گا تو اس طرز کے نظام میں بہتری کی کوئی بڑی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔

عام افراد یا کمزور طبقات سمیت معاشرے کے پڑھے لکھے اور با اثر افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اس موجودہ نظام میں ان کے اہم مسائل کے حل کی گنجائش کس حد تک موجود ہے ۔کیونکہ جو سیاسی لڑائی جاری ہے اس سے عام آدمی کو تو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا البتہ طاقت کے حصول کے لیے فریقین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل اپنا رنگ ضرور دکھاتا ہے۔

اس کھیل میں کبھی ایک فریق اور کبھی دوسرا فریق طاقت پکڑتا ہے ۔لیکن اس کھیل میں شامل تمام فریقین کو اس بات میں کوئی بھی دلچسپی نہیں کہ عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی کا شفاف نظام کہاں کھڑا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ معاشرے میں موجود بہت سے طبقات کا جمہوریت سے اور اس جمہوری نظام سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ بالا دست طبقے اور عوام کے درمیان جو خلیج بڑھ رہی ہے وہ ہمارے داخلی معاملات میں عملا مزیدخرابی کے اسباب پیدا کر رہا ہے۔اس موجودہ نظام میں معاشرے میں موجود لوگ بنیادی طور پر جمہوریت کے نام پر طاقتور فریقین کے لیے بطور ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں جو عوامی مفادات کے برعکس ہے۔

یہ جو جمہوریت، سیاست، آئین ،قانون کی حکمرانی ،عدلیہ کی بالادستی، سوچنے، سمجھنے، بولنے اور لکھنے کی فکری آزادیاں سمیت عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے نعروں کو دیکھیں توایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ طاقتور لوگوں کے لیے کھلونا بن چکے ہیں۔ اس کھیل کی ذمے داری یا تباہی کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ عملا ماضی اور حال کے جو بھی حکمران طبقات ہیں یا وہ طاقتور طبقات جو پس پردہ اپنی طاقت کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ سب اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے نظام میں اداروں کی خود مختاری اور شفافیت پر سوالات ہی سوالات نظر آتے ہیں ۔

صرف ہم ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا سے جڑے ادارے جو ریاستی نظاموں کی درجہ بندی کرتے ہیں ان میں بھی نہ صرف ہماری درجہ بندی منفی بنیادوں پر کرتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ معاشرے کے اندر یا باہر سے ہمارے ریاستی اور حکمرانی کے نظام پر بہت سے لوگ ادارے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن ان کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ رد عمل کی سیاست ہے جوسب پر غالب ہے۔سیاسی آوازوں کو سیاسی حکمت عملی سے نمٹنے کے بجائے جب بھی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو عمومی طور پر اس کے منفی اثرات ہی سماج پر پڑتے ہیں جو سماج میں حکمرانوں کے خلاف گہری تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

اس وقت اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو اس میں چند اہم پہلو توجہ طلب ہیں۔ حالیہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد 44.

7 فیصد بنتی ہے۔ اسی طرح سے 36 فیصد افراد ملک میں ایسے ہیں جو خوراک کے بحران کا شکار ہیں یعنی ان کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔

عملاپاکستان میں پڑھی لکھی نوجوان نسل بڑی تیزی سے اپنے معاشی روزگار یا معاشی تحفظ کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہے اور اس میں پنجاب کے نوجوان سر فہرست نظر آتے ہیں۔وجہ ظاہر ہے کہ جب اس ملک میں لوگوں کے لیے روزگار نہیں ہوگا یا معاشی عدم تحفظ ہوگا یا آمدنی وخرچ کی سطح پر بڑھتے ہوئے عدم توازن کے مسائل ہوں گے تو لوگ کیوں کر ملک نہیں چھوڑیں گے۔یہ اعداد و شمار بھی سامنے آئے ہیں کہ اس وقت ملک میں 42 فیصد افراد ایسے ہیں جن کی قوت خرید کم ہوئی ہے اور ان کو اپنی بنیادی ضروریات میں کٹوتی کرنی پڑ رہی ہے۔

حکومت کی سطح پر نیا روزگار پیدا کرنا اپنی جگہ وہ تو پہلے سے موجود برسر روزگار لوگوں کو بھی بے روزگاری کی طرف دھکیل رہی ہے اور بڑی تیزی سے حکومت کی سطح پر اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کا کھیل جاری ہے۔روز مرہ کی اشیاء میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،بجلی کی لوڈ شیڈنگ،مہنگی بجلی، بجلی کے بلوں پر اضافی ٹیکس،بجلی کی قیمت میں پرائم ٹائم اور نان پرائم ٹائم کے مسائل،سلیب سسٹم، مہنگاپٹرول اور ڈیزل سمیت بہت زیادہ لیوی ٹیکس، مہنگی ادویات اور مہنگی گیس جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔

ٹیکس وصول کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے لیکن محض طاقتور طبقات کے مقابلے میں عام افراد یا مڈل کلاس افراد پر جبری ٹیکس لگا کر آپ ٹیکس کے نظام کو نہ تو منصفانہ بنا سکتے ہیں اور نہ شفاف۔حکومت کو جن لوگوں سے ٹیکس عملی طورپر ٹیکس وصول کرنا چاہیے ان سے سیاسی سمجھوتے کیے جاتے ہیں اور اس کا سارا بوجھ عام افراد پر ڈال کر ریاست کے نظام کو چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اول تو ہم نظام میں تبدیلی کے لیے کسی بھی طور پر اصلاحات کے ایجنڈے پر یقین ہی نہیں کرتے اور اگر ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر کچھ اصلاحات کرنی بھی پڑ جائے تو یہ بھی کاغذی عمل بن کر رہ جاتا ہے۔ہمارا عدالتی نظام،پولیس کا نظام،تعلیم اور صحت کا نظام، بیوروکریسی کا نظام سمیت معاشی نظام بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام ان خرابیوں کی نشاندہی کو درست کرنے کے بجائے اس نظام میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاںجن مسائل کی نشاندہی ریاستی اور حکومتی نظام میں کی جا رہی ہے کیا وہ ہمارے سیاسی نظام کے بحث کا موضوع ہے۔کیا سیاسی جماعتوں سمیت پارلیمنٹ میں ایسے مباحث ہو رہے ہیں جو ہمارے حقیقی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ جن کا تعلق حکومت سے ہو یا حزب اختلاف سے وہ عوامی مفادات سے جڑے مسائل کی درست طور پر ترجمانی کر رہے ہیں تو ہمیں ان کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔

ہم مسائل کے بجائے شخصیات کے گرد کھڑے ہیں اور ان ہی شخصیات کے گرد مثبت اور منفی بنیادوں پر بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک اور بد قسمتی یہ ہے کہ سول سوسائٹی یا اہل دانش کا وہ طبقہ جس نے موجودہ نظام میں عملا موجود خرابیوں کو چیلنج کرنا تھا یا اس میں مزاحمت پیدا کرنی تھی وہ بھی یا تو طاقت کے مراکز کے کھیل میںاپنے مفادات کے لیے حصہ بن چکے ہیں یا وہ عملی طور پر غیر سنجیدہ موضوعات یا شخصی مباحثوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاقت کی حکمرانی کے مقابلے میں عوامی مفادات حکمرانی کا کی نشاندہی کرتے ہیں کا نظام کے نظام ہیں اور پیدا کر ہے اور ہیں جو رہی ہے کے لیے کے گرد

پڑھیں:

ایران کا جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان

ایران کا جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 2 November, 2025 سب نیوز

تہران(آئی پی ایس )ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا، تاہم ملک ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق یہ بات ایرانی صدر نے ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے دورے کے دوران کہی جہاں انہوں نے ملک کی جوہری صنعت کے سینیئر حکام سے ملاقات کی۔

انہوں نے سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمارتوں اور فیکٹریوں کو تباہ کرنے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ہم انہیں دوبارہ تعمیر کریں گے اور اس بار زیادہ طاقت کے ساتھ، ہمارا سارا جوہری پروگرام عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہے یہ بیماریوں کے علاج اور عوام کی صحت کے لیے ہے۔خیال رہے کہ جون میں امریکا نے ایران کی ان جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے جنہیں امریکا کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا حصہ سمجھا جاتا ہے تاہم ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر غیر فوجی مقاصد کے لیے ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران نے جون میں امریکی حملوں سے تباہ شدہ جوہری تنصیبات کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی تو وہ ایران کے جوہری مراکز پر نئے حملوں کا حکم دیں گے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل بین الاقوامی میڈیا کیلئے مشرف زیدی وزیراعظم کے ترجمان مقرر،نوٹیفکیشن جاری گلگت بلتستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام جی بی کے78ویں یوم آزادی کی تقریب پی پی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے، حافظ نعیم مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی ملاقات TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • سندھ کے مسائل اجتماع عام میں پیش کریں گے،کاشف سعید
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • ایران کا جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • یوکرین کو کروز میزائل کی فراہمی سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملے گی: روس
  • یوکرین کو کروز میزائل کی فراہمی سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملے گی، روس
  • پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
  • ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
  • فارم 47 کے حکمران اپنی حکمرانی بچانے میں مصروف ہیں، پشتونخوا میپ
  • مولانا فضل الرحمان ٹھیک شاٹس نہیں کھیل پا رہے