Express News:
2025-07-11@02:25:23 GMT

طاقت کی حکمرانی کا کھیل

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

پاکستان کا جو ریاستی حکومتی اور حکمرانی کا جو نظام ہے وہ بنیادی طور پر طاقت کی حکمرانی کے گرد گھوم رہا ہے۔طاقت کی حکمرانی سے مراد یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا ہر فریق ہر صورت میں دوسرے فریق کے مقابلے میں اپنی بالادستی چاہتا ہے ۔یعنی وہ طاقت کے توازن کوہی اپنے کنٹرول میں رکھ کر پورے نظام پر اپنی سیاسی برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔

طاقت کی حکمرانی میں بنیادی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اس میں طاقت کا مرکز عوام یا عوامی مفادات یا آئین اور قانون کی حکمرانی یا سیاسی اور جمہوری نظام کی بالادستی کے مقابلے میں مخصوص افراد اور گروہ کی عملی طاقت ہوتی ہے۔اس وقت بھی پاکستان میںجو سیاسی رسہ کشی،ٹکراؤ اور تناؤ کا ماحول غالب نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ اختیارات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی جنگ ہے۔جب بھی  حکمرانی کا نظام اداروں کے مقابلے میں افراد کے گرد گھومے گا تو اس طرز کے نظام میں بہتری کی کوئی بڑی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔

عام افراد یا کمزور طبقات سمیت معاشرے کے پڑھے لکھے اور با اثر افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اس موجودہ نظام میں ان کے اہم مسائل کے حل کی گنجائش کس حد تک موجود ہے ۔کیونکہ جو سیاسی لڑائی جاری ہے اس سے عام آدمی کو تو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا البتہ طاقت کے حصول کے لیے فریقین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل اپنا رنگ ضرور دکھاتا ہے۔

اس کھیل میں کبھی ایک فریق اور کبھی دوسرا فریق طاقت پکڑتا ہے ۔لیکن اس کھیل میں شامل تمام فریقین کو اس بات میں کوئی بھی دلچسپی نہیں کہ عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی کا شفاف نظام کہاں کھڑا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ معاشرے میں موجود بہت سے طبقات کا جمہوریت سے اور اس جمہوری نظام سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ بالا دست طبقے اور عوام کے درمیان جو خلیج بڑھ رہی ہے وہ ہمارے داخلی معاملات میں عملا مزیدخرابی کے اسباب پیدا کر رہا ہے۔اس موجودہ نظام میں معاشرے میں موجود لوگ بنیادی طور پر جمہوریت کے نام پر طاقتور فریقین کے لیے بطور ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں جو عوامی مفادات کے برعکس ہے۔

یہ جو جمہوریت، سیاست، آئین ،قانون کی حکمرانی ،عدلیہ کی بالادستی، سوچنے، سمجھنے، بولنے اور لکھنے کی فکری آزادیاں سمیت عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے نعروں کو دیکھیں توایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ طاقتور لوگوں کے لیے کھلونا بن چکے ہیں۔ اس کھیل کی ذمے داری یا تباہی کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ عملا ماضی اور حال کے جو بھی حکمران طبقات ہیں یا وہ طاقتور طبقات جو پس پردہ اپنی طاقت کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ سب اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے نظام میں اداروں کی خود مختاری اور شفافیت پر سوالات ہی سوالات نظر آتے ہیں ۔

صرف ہم ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا سے جڑے ادارے جو ریاستی نظاموں کی درجہ بندی کرتے ہیں ان میں بھی نہ صرف ہماری درجہ بندی منفی بنیادوں پر کرتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ معاشرے کے اندر یا باہر سے ہمارے ریاستی اور حکمرانی کے نظام پر بہت سے لوگ ادارے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن ان کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ رد عمل کی سیاست ہے جوسب پر غالب ہے۔سیاسی آوازوں کو سیاسی حکمت عملی سے نمٹنے کے بجائے جب بھی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو عمومی طور پر اس کے منفی اثرات ہی سماج پر پڑتے ہیں جو سماج میں حکمرانوں کے خلاف گہری تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

اس وقت اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو اس میں چند اہم پہلو توجہ طلب ہیں۔ حالیہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد 44.

7 فیصد بنتی ہے۔ اسی طرح سے 36 فیصد افراد ملک میں ایسے ہیں جو خوراک کے بحران کا شکار ہیں یعنی ان کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔

عملاپاکستان میں پڑھی لکھی نوجوان نسل بڑی تیزی سے اپنے معاشی روزگار یا معاشی تحفظ کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہے اور اس میں پنجاب کے نوجوان سر فہرست نظر آتے ہیں۔وجہ ظاہر ہے کہ جب اس ملک میں لوگوں کے لیے روزگار نہیں ہوگا یا معاشی عدم تحفظ ہوگا یا آمدنی وخرچ کی سطح پر بڑھتے ہوئے عدم توازن کے مسائل ہوں گے تو لوگ کیوں کر ملک نہیں چھوڑیں گے۔یہ اعداد و شمار بھی سامنے آئے ہیں کہ اس وقت ملک میں 42 فیصد افراد ایسے ہیں جن کی قوت خرید کم ہوئی ہے اور ان کو اپنی بنیادی ضروریات میں کٹوتی کرنی پڑ رہی ہے۔

حکومت کی سطح پر نیا روزگار پیدا کرنا اپنی جگہ وہ تو پہلے سے موجود برسر روزگار لوگوں کو بھی بے روزگاری کی طرف دھکیل رہی ہے اور بڑی تیزی سے حکومت کی سطح پر اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کا کھیل جاری ہے۔روز مرہ کی اشیاء میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،بجلی کی لوڈ شیڈنگ،مہنگی بجلی، بجلی کے بلوں پر اضافی ٹیکس،بجلی کی قیمت میں پرائم ٹائم اور نان پرائم ٹائم کے مسائل،سلیب سسٹم، مہنگاپٹرول اور ڈیزل سمیت بہت زیادہ لیوی ٹیکس، مہنگی ادویات اور مہنگی گیس جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔

ٹیکس وصول کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے لیکن محض طاقتور طبقات کے مقابلے میں عام افراد یا مڈل کلاس افراد پر جبری ٹیکس لگا کر آپ ٹیکس کے نظام کو نہ تو منصفانہ بنا سکتے ہیں اور نہ شفاف۔حکومت کو جن لوگوں سے ٹیکس عملی طورپر ٹیکس وصول کرنا چاہیے ان سے سیاسی سمجھوتے کیے جاتے ہیں اور اس کا سارا بوجھ عام افراد پر ڈال کر ریاست کے نظام کو چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اول تو ہم نظام میں تبدیلی کے لیے کسی بھی طور پر اصلاحات کے ایجنڈے پر یقین ہی نہیں کرتے اور اگر ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر کچھ اصلاحات کرنی بھی پڑ جائے تو یہ بھی کاغذی عمل بن کر رہ جاتا ہے۔ہمارا عدالتی نظام،پولیس کا نظام،تعلیم اور صحت کا نظام، بیوروکریسی کا نظام سمیت معاشی نظام بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام ان خرابیوں کی نشاندہی کو درست کرنے کے بجائے اس نظام میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاںجن مسائل کی نشاندہی ریاستی اور حکومتی نظام میں کی جا رہی ہے کیا وہ ہمارے سیاسی نظام کے بحث کا موضوع ہے۔کیا سیاسی جماعتوں سمیت پارلیمنٹ میں ایسے مباحث ہو رہے ہیں جو ہمارے حقیقی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ جن کا تعلق حکومت سے ہو یا حزب اختلاف سے وہ عوامی مفادات سے جڑے مسائل کی درست طور پر ترجمانی کر رہے ہیں تو ہمیں ان کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔

ہم مسائل کے بجائے شخصیات کے گرد کھڑے ہیں اور ان ہی شخصیات کے گرد مثبت اور منفی بنیادوں پر بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک اور بد قسمتی یہ ہے کہ سول سوسائٹی یا اہل دانش کا وہ طبقہ جس نے موجودہ نظام میں عملا موجود خرابیوں کو چیلنج کرنا تھا یا اس میں مزاحمت پیدا کرنی تھی وہ بھی یا تو طاقت کے مراکز کے کھیل میںاپنے مفادات کے لیے حصہ بن چکے ہیں یا وہ عملی طور پر غیر سنجیدہ موضوعات یا شخصی مباحثوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاقت کی حکمرانی کے مقابلے میں عوامی مفادات حکمرانی کا کی نشاندہی کرتے ہیں کا نظام کے نظام ہیں اور پیدا کر ہے اور ہیں جو رہی ہے کے لیے کے گرد

پڑھیں:

پاکستانی سیاست اور مہنگائی

پاکستانی سیاست پر اس وقت ابہام اور افواہوں کا راج ہے۔ حکومتی ایوانوں میں اندرونی خلفشار کی افواہیں، سیاسی لیڈروں کی مبہم باتیں اور یوٹیوبرز کی بغیر ثبوت باتیں، سیاسی موسم کو ترو تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت بے قابو ہے جس نے ہر پاکستانی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، حکومت کے مثبت اقدامات بھی وہ ثمرات نہیں دے پا رہے جن کی توقع کی جارہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گہری نظر ڈالیں تو کئی ایسے عوامل ہیں جو بحث و مباحث کا باعث بن رہے ہیں۔

اپوزیشن کی ناراضگی برقرار ہے اور وہ موجودہ حکومت کو اپنی ترجمان حکومت نہیں سمجھتے۔ اگرچہ پاک بھارت جنگ کے بعد افواج پاکستان کی حمایت میں قوم متحد نظر آئی ہے لیکن حکومت سے ا پوزیشن کی ناراضگی واضح ہے۔ اس ناراضگی کا حکومت کو بخوبی علم ہے اور اس ناراضگی کا تدارک کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس وقت عوام کی سب سے بڑی پریشانی مہنگائی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سے لے کر روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔

حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں سبسڈی دینا، درآمدات کو منظم کرنا اور مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ تاہم ان اقدامات کے ثمرات ابھی تک عوام تک واضح طور پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا براہ راست اثر عوام کی قوت خرید پر پڑ رہا ہے۔ جب تک عوام کو اپنی زندگی میں بہتری محسوس نہیں ہوگی حکومت کے حق میں عوامی رائے سازی مشکل ہی رہے گی۔

حکومت اور اس کے اتحادیوں کے درمیان کھینچا تانی اور بعض اوقات پالیسیوں پر غیر یقینی کی کیفیت یہ سب حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ عوام ایسے حکمرانوں پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جو متحد ہوں جن کی پالیسیاں واضح ہوں اور جو ایک سمت میں ملک کو لے کر چل رہے ہوں۔ جب حکومتی ایوانوں میں ہی بے چینی اور عدم اطمینان کا تاثر ابھرتا ہے تو لا محالہ اس کا اثر عوامی تاثر پر بھی پڑتا ہے۔

حکومتی اتحادی وقتاً فوقتاً حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر کے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن پھر کوئی بڑا بیچ میں پڑ جاتا ہے اور یہ ناراضگی وقتی طور پر دور ہو جاتی ہے گو کہ حکومت کو مقتدرہ کی بھر پور حمائیت حاصل ہے لیکن حکومت کو اپنی رٹ مضبوط بنانے اور عوامی تاثر بہتر بنانے کے لیے از خود کام کرنا ہے، سیاسی میدان میں سیاست دان ہی کھیلتے اچھے لگتے ہیں اور سیاست دانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ انھوں نے ایک لمبی اننگز کھیلنی ہوتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہوں۔

پاکستانی سیاست میں اپوزیشن کا کردار بھی حکومت کی عوامی پذیرائی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن مضبوط اور متحرک ہو تو وہ حکومتی کمزوریوں کو اجاگر کرتی ہے اور عوام کو متبادل فراہم کرتی ہے۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک شدید تناؤ کی کیفیت ہے جس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے ۔اسمبلیوں میں اپوزیشن اراکین کی آواز کو دبانے کے لیے جو حربے استعمال کیے جارہے ہیں، وہ جمہوریت کے پنپنے سے زیادہ جمہوریت کو کمزور کررہے ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی معطلی اور بعد ازاں ان کی رکنیت کے خاتمے کے لیے اسپیکر کا الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا معاملات کو مزید تلخ بنا رہا ہے ۔حکومتی عہدیداروں کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ مکالمے کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں، یہی عمل ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ہے ۔ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ سیاسی تاریخ میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں پایا۔ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اس کی حکومت کو ختم کر دیا گیا یا اسے حکومت سے الگ کر دیا گیا۔ اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں کیا کچھ نیا ہونے والا ہے یا یہ صرف افواہیں ہی ہیں لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ہر افواہ کے پس پردہ کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے ۔ اسلام آباد کا موسم گو کہ حبس زدہ ہے لیکن ابھی تک سیاسی موسم میں اتنی حبس عود نہیں کر آئی کہ یہ حبس زدہ موسم حکومت کی سانس ہی بند کر دے ۔ البتہ ایک واضح بے چینی دیکھنے سننے میںضرور آرہی ہے ۔

معلوم نہیں کہ مملکت پاکستان کا موسم کب خوشگوار ہو گا جس میں عوام اور حکمران چین کی بانسری بجائیں گے ۔ پاکستان کی سیاست کو اس نہج پر لے جانا جہاں استحکام اور عوامی فلاح کا راج ہو ایک مشکل لیکن ضروری کام ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت، اپوزیشن اور تمام اسٹیک ہولڈرز ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو ذاتی اور سیاسی مفادات پر ترجیح دیں۔ بصورت دیگر بے یقینی کا یہ بھنور ملکی ترقی اور جمہوریت کے بقاء کے لیے مزید چیلنجز پیدا کرتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • تُخم ملنگا: قدرتی طاقت کا خزانہ، گرمی میں راحت، صحت میں بہتری
  • جمہوریت سے دور ہوتا پاکستان
  • جنید اکبر نے پارٹی کے چھوٹے مسائل ختم کرنے کا فارمولہ بتا دیا
  • پاکستان ناقابل تسخیر ڈکلیئرڈ ایٹمی طاقت ،بھارت علاقائی استحکام کیلئے خطرہ، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پیپلزپارٹی نے اقتدار کے بدلے دریا اور وسائل بیچ دیئے،ایاز لطیف پلیجو
  • خیبرپختونخوا میں تبدیلی نہیں ہائبرڈ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں، کامران مُرتضیٰ
  • ہم نے جارحیت کا پوری طاقت سے جواب دیا، ایران
  • پاکستانی سیاست اور مہنگائی
  • سیاسی افواہیں