ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں ہوئی تھی‘ میں کراچی سے اسلام آباد آ رہا تھا‘ ڈاکٹر صاحب بھی فلائیٹ میں تھے‘ ان کی سیکیورٹی پچھلی سیٹوں پر بیٹھی تھی جب کہ مجھے خوش قسمتی سے ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع مل گیا‘ وہ بڑے تپاک سے ملے‘ میں ڈیڑھ گھنٹہ ان سے سوال کرتا رہا اور وہ اپنی روایتی سچائی سے جواب دیتے رہے‘ میں نے آخر میں ان سے پوچھا ’’جنرل پرویز مشرف نے آپ کے ساتھ جو کیا آپ کو اس پر افسوس نہیں ہوا؟‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر کا جواب تھا ’’مجھے شروع میں بہت افسوس ہوا تھا‘ میں ہفتوں ڈپریشن میں رہا‘ مجھے اپنی حالت پر رونا بھی آ جاتا تھا‘ میں اللہ تعالیٰ سے گلا کرتا تھا یا باری تعالیٰ میں نے اس قوم پر احسان کیا تھا مگر اس نے میرے ساتھ کیا کیا؟ لیکن پھر ایک دن میں اپنی کتابوں کی پرانی الماری صاف کر رہا تھا‘ مجھے اس میں سے اپنے ایک جرمن استاد کی تصویر ملی اور مجھے یاد آ گیا میں جب پاکستان آ رہا تھا تو اس نے مجھے روک کر کہا تھا۔
تم پاکستان نہ جاؤ‘ وہاں تمہاری قدر نہیں ہو گی‘ تم وہاں کچھ نہیں کر سکو گے اور اگر تم نے کر لیا تو تمہیں خوف ناک مثال بنا دیا جائے گا‘ مغربی طاقتیں تمہارا پیچھا کریں گی‘ تم پر حملہ کریں گی اور اگر تم ان سے بچ گئے تو پھر تمہیں برباد کر دیا جائے گا‘ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو استاد نے جواب دیا تھا اسرائیل کسی اسلامی ملک میں کسی جوہری سائنس دان کو برداشت نہیں کرے گا‘ یہ انھیں چن چن کر مار دے گا اور اگر یہ اس میں کام یاب نہ ہوا تو یہ انھیں عالمی سطح پر ذلیل کر دے گا‘ کسی اسلامی ملک کے پاس ایٹم بم اسرائیل افورڈ نہیں کر سکتا‘ یہ تمہارا بھی پیچھا کرے گا‘ تمہیں کام نہیں کرنے دے گا لہٰذا تمہاری کام یابی کے امکانات صفر ہیں اور اگر تم کام یاب ہو گئے تو یہ نیوکلیئر پلانٹ تباہ کر دے گا اور تمہیں اپنے ہم وطنوں کی نظروں میں ذلیل کرا دے گا تاکہ تم جیسا کوئی دوسرا آگے نہ بڑھ سکے۔
میں نے اس وقت اپنے استاد سے اتفاق نہیں کیا تھا لیکن اس کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی‘ مجھ پر درجنوں حملے ہوئے‘ کہوٹہ پلانٹ بھی تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اللہ تعالیٰ کو پاکستان کی عزت عزیز تھی چناں چہ اسرائیل کی کوئی کوشش کام یاب نہ ہو سکی‘ یہ لوگ بڑے کینہ پرور ہیں‘ یہ ہار نہیں مانتے لہٰذا انھوں نے مجھے جنرل پرویز مشرف سے ذلیل کرا دیا مگر یہ اس کے باوجود میرا کچھ نہی بگاڑ سکے‘ لوگوں کے دلوں میں میری عزت آج تک برقرار ہے‘ اس میں ذرا برابر فرق نہیں آیا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ وہ حادثاتی میٹنگ ختم ہو گئی اور میں وقت کے ساتھ ساتھ ملاقات کے زیادہ تر نقطے بھی بھول گیا لیکن جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کا مرکزی ہدف ایران کی جوہری تنصیبات اورجوہری سائنس دان تھے تو مجھے فوری طور پر ڈاکٹر صاحب کی گفتگو یاد آ گئی اور جنرل مشرف کی حرکت بھی یاد آ گئی‘ اسرائیلی لابی نے باقاعدہ جنرل مشرف کے کان بھر کر ڈاکٹر عبدالقدیر کی کردار کشی کرائی تھی‘ اس کا مقصد ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنس دانوں کو پاکستان سے دل برداشتہ کرنا تھا تاکہ اگر ان جیسا کوئی سائنس دان مستقبل میں پاکستان کی خدمت کا سوچ رہا ہو تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لے اور اپنی تمام صلاحیتیں مغرب کے لیے وقف کر دے۔
آپ ذرا پاکستان اور انڈیا کی موجودہ جنگ دیکھیں‘ بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 80 بلین ڈالر ہے جب کہ پاکستان کا کل بجٹ 54 بلین ڈالر ہے جس میں دفاعی بجٹ (18فیصد) اضافے کے باوجود9بلین ڈالر ہے‘ بھارت اسلحے اور فوجی تعداد میں پاکستان سے تین گنا ہے لیکن یہ اس کے باوجود کھل کر پاکستان پر حملے کی جسارت نہیں کر سکا جب کہ پاکستان نے اس کا منہ اور دانت دونوں توڑ دیے‘ کیوں؟ یہ اللہ کا خاص کرم اور پاکستان کا ایٹم بم تھا‘ ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت سے پاکستان کی تین لڑائیاں ہوئیں‘ 1999 کی کارگل وار‘ 2019 کی ابھی نندن وار اور 2025 کی بڑی جھڑپ‘ ان تینوں لڑائیوں میں بھارت پاکستان کا نقصان نہیں کر سکا‘ کیوں؟ کیوں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے اس کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور یہ ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنس دانوں کا کمال ہے‘ آپ اب ایران کی مثال بھی لے لیجیے‘ ایران نے 2003 میں جوہری پلانٹ بنا لیا تھا‘ یہ ایٹم بم بھی بنا سکتا تھا لیکن آیت اللہ خامنہ ای نے اکتوبر 2003 میں ایٹم بم کے خلاف فتویٰ دے کر سارا پراسیس رکوا دیا‘ایرانی حکومت اور سائنس دان کوششیں کرتے رہے لیکن سپریم کمانڈر نے ان کے ہاتھ باندھ دیے۔
ایران کو اکتوبر 2023میں غزہ اورستمبر 2024 میں لبنان میں حزب اللہ پر حملوں کے بعد ہوش آیا اور اس نے جوہری بم کے لیے دن رات ایک کر دیے مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی‘ اسرائیل جانتا تھا اگر ایک بار ایران کام یاب ہو گیا تو پھر اسے روکنا مشکل ہو جائے گا‘ یہ اسرائیل کو پیس کر رکھ دے گا چناں چہ اس نے 13 جون کو ایران پر حملہ کر دیا‘ اسرائیلی حملے کا ہدف پاس داران کی قیادت‘ فوج کے اہم جنرلز اور جوہری سائنس دان تھے‘ اسرائیلی میزائلوں نے 13جون کو پہلے حملے میں ان کے چھ اہم ترین سائنس دان شہید کر دیے۔
ایران نے اس کے بعد اپنے تمام سائنس دانوں کو تہہ خانوں میں چھپا دیا اور ان کے موبائل فون اور انٹرنیٹ بند کرا دیے مگر اسرائیلی میزائل اس کے باوجود ان کا پیچھا کرتے رہے‘ ایران اسرائیل جنگ میں ایران کے 17 اہم اور بڑے سائنس دان شہید کر دیے گئے‘ اسرائیلی آپریشن اس قدر جامع تھے کہ 23 جون کو جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کرا دی تو اس دن موساد کو معلوم ہوا ایران کا سائنس دان محمد رضا صدیقی اپنے گاؤںمیں چھپا بیٹھا ہے‘ اسرائیل نے صرف اس سائنس دان کے لیے جنگ بندی کی خلاف وزی کی اور اسے اس کے گاؤں میں نشانہ بنایا‘ یہ وہی خلاف ورزی تھی جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی بے عزتی کی اور اسے فوری جنگ بندی کا حکم دیا‘ امریکا نے 22 جون کی رات ایران کی تینوں جوہری سائنسی تنصیبات کو بھی ساڑھے 13 ہزار کلو بم مار کر تباہ کر دیا‘ یہ بم تاریخ میں پہلی بار استعمال ہوئے اور اس آپریشن میں 125 طیاروں نے شرکت کی‘ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا امریکی آپریشن تھا۔
اس کا مقصد ایران کو جوہری بم سے محروم کرنا تھا اور امریکا بڑی حد تک اس میں کام یاب بھی ہو گیا‘ ایران اس کی تردید کر رہا تھا لیکن اس کے باوجود ایران کا بہت نقصان ہوا اور اسے دوبارہ 2025کے لیول تک آنے میں پانچ سال لگ جائیں گے تاہم یہ درست ہے ایران نے 408 کلو افزودہ یورینیم فردو کی سائیٹ سے نکال لی تھی اور یہ 60 فیصد افزودہ ہو چکی تھی‘ ایران اسے بڑی آسانی سے 90فیصد تک بڑھا سکتا ہے مگر اس کے لیے پلانٹ چاہیے اور سردست یہ ایران کے پاس موجود نہیں‘ دوسرا اسرائیل نے اس کے تمام ٹاپ سائنس دان قتل کر دیے ہیں چناں چہ اس کے پاس ٹیکنالوجی اور افرادی قوت دونوں نہیں ہیں اور یہ کمی انھیں دفاع میں بہت پیچھے لے گئی ہے۔
آپ اب پوری اسلامی دنیا کو دیکھ لیں‘ ہم 58 اسلامی ملک ہیں‘ ہماری کل آبادی ایک ارب 90 کروڑ ہے‘ ہم پر اللہ تعالیٰ نے وسائل کی بارش بھی کر رکھی ہے‘ پٹرول اور گیس جیسی نعمت پر بھی عالم اسلام کی مناپلی ہے لیکن ہم نے دوبئی جیسے شہر بنا لیے لیکن ہم نے اپنے دفاع پر توجہ نہیں دی‘ سعودی عرب جیسا ملک بھی دفاع کے لیے امریکا کو ہزار ارب ڈالر دے دیتا ہے مگریہ سائنس اور ٹیکنالوجی پردھیلہ خرچ نہیں کرتا‘ کاش اسلامی دنیا نے مل کر کوئی دفاعی یونیورسٹی بنائی ہوتی اور اس یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنس دان پیدا کیے ہوتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی اور اسلامی دنیا کو ایران پر حملے کے بعد مغربی طاقتوں کی طرف نہ دیکھنا پڑتا‘اسے غزہ کے زخمی اور بھوکے پیاسے بچوں کے لیے امریکا اور یورپ کی منتیں بھی نہ کرنا پڑتیں‘ یہ ہماری حماقتوں کی فصل ہے جو ہم سب مل کر کاٹ رہے ہیں‘ آپ یہ یاد رکھیں اسرائیل اور اس کے گماشتے اسلامی دنیا میں کبھی ایسے سائنس دان پیدا نہیں ہونے دیں گے جو عالم اسلام کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کر سکیں یا ہمیں زمین سے تیل‘ گیس اور دھاتیں نکالنے کے قابل بنا سکیں۔
یہ ہمیں ہمیشہ اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنے کی کوشش کریں گے اور اگر کبھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے سائنس دان بچ بچا کر نکل بھی گئے تو یہ ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو جون کے مہینے میں ایران اور 2004میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ ہوا تھا‘ یہ انھیں قتل کر دیں گے یا بدنام کر کے عبرت کی مثال بنا دیں گے‘ کاش ہم اس سازش کو سمجھ سکیں اور اپنی یونیورسٹیوں میں سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فوقیت دیں‘ ہم ایسے سائنس دان پیدا کر سکیں جو سپیس سائنس‘ اسلحہ اور جوہری ٹیکنالوجی میں اسرائیل کا مقابلہ کر سکیں اور یہ وہ کام ہے جو ہم بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں‘ آپ خود سوچیے اگر پاکستان تھوڑے سے بجٹ اور کم زور ٹیکنالوجی کے ساتھ انڈیا کی ناک کاٹ سکتا ہے۔
یہ تین رافیل طیارے گرا سکتا ہے‘ ایس 400 جیسا سسٹم اڑا سکتا ہے اور بھارت کی ساری بجلی ہیک کر سکتا ہے تو اگر پاکستان میں باقاعدہ یونیورسٹیاں ہوتیں اور ہم اپنے طالب علموں کو جدید ترین سائنسی تعلیم دے رہے ہوتے تو ہم کیا کیا نہ کرسکتے؟ کاش اسلامی دنیا کی آنکھیں اب بھی کھل جائیں اور یہ فنڈ جمع کر کے کوئی ایسی یونیورسٹی بنا دے جس میں جدید ترین تعلیم دی جائے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی پر کام ہو سکے تاکہ ہم مستقبل میں اسرائیل کا مقابلہ کر سکیں‘ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے‘ ہم نے اگر 2028 تک اسرائیل کا راستہ روک لیا تو ست بسم اللہ ورنہ اس کے بعد ہمارے پاس کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کے سوا کوئی آپشن نہیں ہو گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر عبدالقدیر اس کے باوجود اسلامی دنیا جوہری سائنس نہیں کر کام یاب ایٹم بم کر سکیں اور اگر سکتا ہے نہیں ہو رہا تھا کے ساتھ کے لیے اور یہ کے بعد کر دیے اور اس اور ان
پڑھیں:
پاکستان، ایران اور ترکیہ مل جائیں تو دنیا کی کوئی قوت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، ایرانی سفیر
پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نےکہا ہے کہ صہیونی حکومت نے 12 روز تک ایران پر جارحیت کی ، 12روزہ جنگ میں پاکستان کی حکومت،عوام ایران کو سفارتی سطح پر سپورٹ کر رہےتھے، پاکستانی وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے شدید الفاظ میں جارحیت کی مذمت کی ، پاکستانی مندوب جو ہمیں اسٹینڈ چاہیے ہوتا تھا لیتے تھے، پاکستان کے سینیٹ اور قومی اسمبلی نے ہمارے حق میں قرار داد پیش کی ، ہم اس سپورٹ پر پاکستان کے مشکور ہیں۔
نجی ٹی وی سے گفتگوکرتےہوئے ایرانی سفیر کا کہناتھا کہ شاید کوئی حادثہ بھی موثر نہ ہوتا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتنے نزدیک آتے، دونوں ممالک کے عوام اور حکومتیں نزدیک آئی ہیں، ہماری پارلیمنٹ نے پاکستان تشکر کا نعرہ لگا کراور صدر ایران نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا، شہدا کے جنازے میں ایرانی پرچم کے ساتھ ساتھ عوام کے ہاتھوں میں پاکستان کے جھنڈے تھے، پاکستان اور ایران ایک روح اور دوبدن ہیں، پاکستانی حکومت،عوام،دینی حلقے اور میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔
ان کا کہناتھا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ایران ،سعودیہ،ترکیہ اور پاکستان کو کن چینلنجز کا سامنا ہے، صہیونیوں کو امریکا اور یورپ سپورٹ کر رہے ہیں، وہ صہیونیوں کو اس علاقے کا چوہدری بنانا چاہتے ہیں، ایران ،پاکستان،سعودیہ،ترکیہ، مل کر اتحاد بنا سکتے ہیں، اس وقت ان تمام ممالک کے تعلقات اچھے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اس کاز کو آگے لے جانا ہو گا، پاکستان،ایران اورترکیہ مل جائیں تو دنیا کی کوئی قوت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار اور ایران کےپاس تیل کے ذخائر ہیں، ترکی صنعت اور جغرافیائی لوکیشن کی وجہ سے اہم ہے،یورپ کا دروازہ ہے، سعودیہ بھی اہم ہے،اگراس اتحاد میں چین آجاتا ہے تو بہت اچھا ہے، یہ ممالک خطرات اور اپنے مفادات کو بھی دیکھیں ۔
رضا امیری مقدم کا کہناتھا کہ ان ممالک میں کوئی اختلافات نہیں ہیں،بہت اچھا اتحاد بن سکتاہے، ٹرمپ کی ماضی کی تاریخ اچھی نہیں تھی، انہوں نے ہمارے کمانڈر سلیمانی کو شہید کیا تھا، ہم علاقائی سطح پر کشیدگی نہیں چاہتے تھے، ہم نے ان کی مذاکرات کی آفر کو تسلیم کیا،5ادوار ہو گئے تھے، ان ادوار میں اچھے معاہدے پر پہنچ گئے تھے ہم نتائج کے قریب تھے، چھٹے دور سے قبل امریکا کے اشارے پر اسرائیل نے شب خون مارا، ہمارے ملٹری قیادت،سائنسدانوں ،شہریوں کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے میزائلوں نے جواب دیا تواسرائیل کی سڑکیں غزہ کا نقشہ پیش کر رہی تھیں، امریکا نے حملہ کیا تو ہم نے ان کی سب سے بڑی بیس کو ہٹ کیا، اگلی رات ٹرمپ نے امیر قطر کے ذریعہ سیزفائر کی درخواست کی ، ہم نے کہاآپ کی جارحیت ختم ہو گی ہم پھر رکیں گے ، میں اس وقت ایران میں نہیں تھا نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں رائے نہیں دے سکتا، جس طرح تباہی ہوئی ہے تو ماہرین بھی مکمل رائے نہیں دے سکیں گے، حملوں سے جوہری پروگرام کو بھاری نقصان پہنچا تھا۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ ہم 15سال سے اس طرح کی ایکسر سائز کر رہے تھے، ان کا خیال تھا کمانڈر کو شہید کرنے کے بعد ایران گر جائے گا، اگلے دن نئے کمانڈر تعینات ہوئے،انہوں نے شدید جواب دیا، ایٹمی ٹیکنالوجی تنصیبات تک محدود نہیں، سائنسدان اور بہت سارے ہمارے طلبہ کے ذہنوں میں ہے، اس ٹیکنالوجی کو ختم نہیں کر سکتے، ہو سکتا کہ وہ ہمارے سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ایران کے سفیر کا کہناتھا کہ پاکستان کے ساتھ ہماراتعاون جاری ہے، جومسائل ہیں وہ بارڈر کے ساتھ ہیں، وہ علاقہ پہاڑی اور دشوار گزار ہے، پاکستان اور ایران کے مفادات ماضی کی نسبت اب بہت زیادہ ایک جیسے ہیں، دہشتگرد گروپس کو اسلحہ ،سہولیات دونوں ممالک کے دشمن فراہم کر رہےہیں، دونوں ممالک کی سیکیورٹی تعاون جاری ہے اور رہے گا۔