ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں ہوئی تھی‘ میں کراچی سے اسلام آباد آ رہا تھا‘ ڈاکٹر صاحب بھی فلائیٹ میں تھے‘ ان کی سیکیورٹی پچھلی سیٹوں پر بیٹھی تھی جب کہ مجھے خوش قسمتی سے ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع مل گیا‘ وہ بڑے تپاک سے ملے‘ میں ڈیڑھ گھنٹہ ان سے سوال کرتا رہا اور وہ اپنی روایتی سچائی سے جواب دیتے رہے‘ میں نے آخر میں ان سے پوچھا ’’جنرل پرویز مشرف نے آپ کے ساتھ جو کیا آپ کو اس پر افسوس نہیں ہوا؟‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر کا جواب تھا ’’مجھے شروع میں بہت افسوس ہوا تھا‘ میں ہفتوں ڈپریشن میں رہا‘ مجھے اپنی حالت پر رونا بھی آ جاتا تھا‘ میں اللہ تعالیٰ سے گلا کرتا تھا یا باری تعالیٰ میں نے اس قوم پر احسان کیا تھا مگر اس نے میرے ساتھ کیا کیا؟ لیکن پھر ایک دن میں اپنی کتابوں کی پرانی الماری صاف کر رہا تھا‘ مجھے اس میں سے اپنے ایک جرمن استاد کی تصویر ملی اور مجھے یاد آ گیا میں جب پاکستان آ رہا تھا تو اس نے مجھے روک کر کہا تھا۔
تم پاکستان نہ جاؤ‘ وہاں تمہاری قدر نہیں ہو گی‘ تم وہاں کچھ نہیں کر سکو گے اور اگر تم نے کر لیا تو تمہیں خوف ناک مثال بنا دیا جائے گا‘ مغربی طاقتیں تمہارا پیچھا کریں گی‘ تم پر حملہ کریں گی اور اگر تم ان سے بچ گئے تو پھر تمہیں برباد کر دیا جائے گا‘ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو استاد نے جواب دیا تھا اسرائیل کسی اسلامی ملک میں کسی جوہری سائنس دان کو برداشت نہیں کرے گا‘ یہ انھیں چن چن کر مار دے گا اور اگر یہ اس میں کام یاب نہ ہوا تو یہ انھیں عالمی سطح پر ذلیل کر دے گا‘ کسی اسلامی ملک کے پاس ایٹم بم اسرائیل افورڈ نہیں کر سکتا‘ یہ تمہارا بھی پیچھا کرے گا‘ تمہیں کام نہیں کرنے دے گا لہٰذا تمہاری کام یابی کے امکانات صفر ہیں اور اگر تم کام یاب ہو گئے تو یہ نیوکلیئر پلانٹ تباہ کر دے گا اور تمہیں اپنے ہم وطنوں کی نظروں میں ذلیل کرا دے گا تاکہ تم جیسا کوئی دوسرا آگے نہ بڑھ سکے۔
میں نے اس وقت اپنے استاد سے اتفاق نہیں کیا تھا لیکن اس کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی‘ مجھ پر درجنوں حملے ہوئے‘ کہوٹہ پلانٹ بھی تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اللہ تعالیٰ کو پاکستان کی عزت عزیز تھی چناں چہ اسرائیل کی کوئی کوشش کام یاب نہ ہو سکی‘ یہ لوگ بڑے کینہ پرور ہیں‘ یہ ہار نہیں مانتے لہٰذا انھوں نے مجھے جنرل پرویز مشرف سے ذلیل کرا دیا مگر یہ اس کے باوجود میرا کچھ نہی بگاڑ سکے‘ لوگوں کے دلوں میں میری عزت آج تک برقرار ہے‘ اس میں ذرا برابر فرق نہیں آیا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ وہ حادثاتی میٹنگ ختم ہو گئی اور میں وقت کے ساتھ ساتھ ملاقات کے زیادہ تر نقطے بھی بھول گیا لیکن جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کا مرکزی ہدف ایران کی جوہری تنصیبات اورجوہری سائنس دان تھے تو مجھے فوری طور پر ڈاکٹر صاحب کی گفتگو یاد آ گئی اور جنرل مشرف کی حرکت بھی یاد آ گئی‘ اسرائیلی لابی نے باقاعدہ جنرل مشرف کے کان بھر کر ڈاکٹر عبدالقدیر کی کردار کشی کرائی تھی‘ اس کا مقصد ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنس دانوں کو پاکستان سے دل برداشتہ کرنا تھا تاکہ اگر ان جیسا کوئی سائنس دان مستقبل میں پاکستان کی خدمت کا سوچ رہا ہو تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لے اور اپنی تمام صلاحیتیں مغرب کے لیے وقف کر دے۔
آپ ذرا پاکستان اور انڈیا کی موجودہ جنگ دیکھیں‘ بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 80 بلین ڈالر ہے جب کہ پاکستان کا کل بجٹ 54 بلین ڈالر ہے جس میں دفاعی بجٹ (18فیصد) اضافے کے باوجود9بلین ڈالر ہے‘ بھارت اسلحے اور فوجی تعداد میں پاکستان سے تین گنا ہے لیکن یہ اس کے باوجود کھل کر پاکستان پر حملے کی جسارت نہیں کر سکا جب کہ پاکستان نے اس کا منہ اور دانت دونوں توڑ دیے‘ کیوں؟ یہ اللہ کا خاص کرم اور پاکستان کا ایٹم بم تھا‘ ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت سے پاکستان کی تین لڑائیاں ہوئیں‘ 1999 کی کارگل وار‘ 2019 کی ابھی نندن وار اور 2025 کی بڑی جھڑپ‘ ان تینوں لڑائیوں میں بھارت پاکستان کا نقصان نہیں کر سکا‘ کیوں؟ کیوں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے اس کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور یہ ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنس دانوں کا کمال ہے‘ آپ اب ایران کی مثال بھی لے لیجیے‘ ایران نے 2003 میں جوہری پلانٹ بنا لیا تھا‘ یہ ایٹم بم بھی بنا سکتا تھا لیکن آیت اللہ خامنہ ای نے اکتوبر 2003 میں ایٹم بم کے خلاف فتویٰ دے کر سارا پراسیس رکوا دیا‘ایرانی حکومت اور سائنس دان کوششیں کرتے رہے لیکن سپریم کمانڈر نے ان کے ہاتھ باندھ دیے۔
ایران کو اکتوبر 2023میں غزہ اورستمبر 2024 میں لبنان میں حزب اللہ پر حملوں کے بعد ہوش آیا اور اس نے جوہری بم کے لیے دن رات ایک کر دیے مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی‘ اسرائیل جانتا تھا اگر ایک بار ایران کام یاب ہو گیا تو پھر اسے روکنا مشکل ہو جائے گا‘ یہ اسرائیل کو پیس کر رکھ دے گا چناں چہ اس نے 13 جون کو ایران پر حملہ کر دیا‘ اسرائیلی حملے کا ہدف پاس داران کی قیادت‘ فوج کے اہم جنرلز اور جوہری سائنس دان تھے‘ اسرائیلی میزائلوں نے 13جون کو پہلے حملے میں ان کے چھ اہم ترین سائنس دان شہید کر دیے۔
ایران نے اس کے بعد اپنے تمام سائنس دانوں کو تہہ خانوں میں چھپا دیا اور ان کے موبائل فون اور انٹرنیٹ بند کرا دیے مگر اسرائیلی میزائل اس کے باوجود ان کا پیچھا کرتے رہے‘ ایران اسرائیل جنگ میں ایران کے 17 اہم اور بڑے سائنس دان شہید کر دیے گئے‘ اسرائیلی آپریشن اس قدر جامع تھے کہ 23 جون کو جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کرا دی تو اس دن موساد کو معلوم ہوا ایران کا سائنس دان محمد رضا صدیقی اپنے گاؤںمیں چھپا بیٹھا ہے‘ اسرائیل نے صرف اس سائنس دان کے لیے جنگ بندی کی خلاف وزی کی اور اسے اس کے گاؤں میں نشانہ بنایا‘ یہ وہی خلاف ورزی تھی جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی بے عزتی کی اور اسے فوری جنگ بندی کا حکم دیا‘ امریکا نے 22 جون کی رات ایران کی تینوں جوہری سائنسی تنصیبات کو بھی ساڑھے 13 ہزار کلو بم مار کر تباہ کر دیا‘ یہ بم تاریخ میں پہلی بار استعمال ہوئے اور اس آپریشن میں 125 طیاروں نے شرکت کی‘ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا امریکی آپریشن تھا۔
اس کا مقصد ایران کو جوہری بم سے محروم کرنا تھا اور امریکا بڑی حد تک اس میں کام یاب بھی ہو گیا‘ ایران اس کی تردید کر رہا تھا لیکن اس کے باوجود ایران کا بہت نقصان ہوا اور اسے دوبارہ 2025کے لیول تک آنے میں پانچ سال لگ جائیں گے تاہم یہ درست ہے ایران نے 408 کلو افزودہ یورینیم فردو کی سائیٹ سے نکال لی تھی اور یہ 60 فیصد افزودہ ہو چکی تھی‘ ایران اسے بڑی آسانی سے 90فیصد تک بڑھا سکتا ہے مگر اس کے لیے پلانٹ چاہیے اور سردست یہ ایران کے پاس موجود نہیں‘ دوسرا اسرائیل نے اس کے تمام ٹاپ سائنس دان قتل کر دیے ہیں چناں چہ اس کے پاس ٹیکنالوجی اور افرادی قوت دونوں نہیں ہیں اور یہ کمی انھیں دفاع میں بہت پیچھے لے گئی ہے۔
آپ اب پوری اسلامی دنیا کو دیکھ لیں‘ ہم 58 اسلامی ملک ہیں‘ ہماری کل آبادی ایک ارب 90 کروڑ ہے‘ ہم پر اللہ تعالیٰ نے وسائل کی بارش بھی کر رکھی ہے‘ پٹرول اور گیس جیسی نعمت پر بھی عالم اسلام کی مناپلی ہے لیکن ہم نے دوبئی جیسے شہر بنا لیے لیکن ہم نے اپنے دفاع پر توجہ نہیں دی‘ سعودی عرب جیسا ملک بھی دفاع کے لیے امریکا کو ہزار ارب ڈالر دے دیتا ہے مگریہ سائنس اور ٹیکنالوجی پردھیلہ خرچ نہیں کرتا‘ کاش اسلامی دنیا نے مل کر کوئی دفاعی یونیورسٹی بنائی ہوتی اور اس یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنس دان پیدا کیے ہوتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی اور اسلامی دنیا کو ایران پر حملے کے بعد مغربی طاقتوں کی طرف نہ دیکھنا پڑتا‘اسے غزہ کے زخمی اور بھوکے پیاسے بچوں کے لیے امریکا اور یورپ کی منتیں بھی نہ کرنا پڑتیں‘ یہ ہماری حماقتوں کی فصل ہے جو ہم سب مل کر کاٹ رہے ہیں‘ آپ یہ یاد رکھیں اسرائیل اور اس کے گماشتے اسلامی دنیا میں کبھی ایسے سائنس دان پیدا نہیں ہونے دیں گے جو عالم اسلام کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کر سکیں یا ہمیں زمین سے تیل‘ گیس اور دھاتیں نکالنے کے قابل بنا سکیں۔
یہ ہمیں ہمیشہ اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنے کی کوشش کریں گے اور اگر کبھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے سائنس دان بچ بچا کر نکل بھی گئے تو یہ ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو جون کے مہینے میں ایران اور 2004میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ ہوا تھا‘ یہ انھیں قتل کر دیں گے یا بدنام کر کے عبرت کی مثال بنا دیں گے‘ کاش ہم اس سازش کو سمجھ سکیں اور اپنی یونیورسٹیوں میں سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فوقیت دیں‘ ہم ایسے سائنس دان پیدا کر سکیں جو سپیس سائنس‘ اسلحہ اور جوہری ٹیکنالوجی میں اسرائیل کا مقابلہ کر سکیں اور یہ وہ کام ہے جو ہم بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں‘ آپ خود سوچیے اگر پاکستان تھوڑے سے بجٹ اور کم زور ٹیکنالوجی کے ساتھ انڈیا کی ناک کاٹ سکتا ہے۔
یہ تین رافیل طیارے گرا سکتا ہے‘ ایس 400 جیسا سسٹم اڑا سکتا ہے اور بھارت کی ساری بجلی ہیک کر سکتا ہے تو اگر پاکستان میں باقاعدہ یونیورسٹیاں ہوتیں اور ہم اپنے طالب علموں کو جدید ترین سائنسی تعلیم دے رہے ہوتے تو ہم کیا کیا نہ کرسکتے؟ کاش اسلامی دنیا کی آنکھیں اب بھی کھل جائیں اور یہ فنڈ جمع کر کے کوئی ایسی یونیورسٹی بنا دے جس میں جدید ترین تعلیم دی جائے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی پر کام ہو سکے تاکہ ہم مستقبل میں اسرائیل کا مقابلہ کر سکیں‘ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے‘ ہم نے اگر 2028 تک اسرائیل کا راستہ روک لیا تو ست بسم اللہ ورنہ اس کے بعد ہمارے پاس کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کے سوا کوئی آپشن نہیں ہو گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر عبدالقدیر اس کے باوجود اسلامی دنیا جوہری سائنس نہیں کر کام یاب ایٹم بم کر سکیں اور اگر سکتا ہے نہیں ہو رہا تھا کے ساتھ کے لیے اور یہ کے بعد کر دیے اور اس اور ان
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔