بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس خطرناک بیماری کا ممکنہ سبب قرار
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
سائنس دانوں کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ برسوں سے بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس پارکنسنز (رعشے) بیماری کا ایک ممکنہ سبب ہو سکتا ہے۔
نارتھ ویسٹرن میڈیسن سے تعلق رکھنے والےتحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر آئگر کورلِنک نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ سائنس دان ممکنہ ماحولیاتی عوامل (جیسے کہ وائرسز) جو اس بیماری میں حصہ ڈال سکتے ہیں کی تحقیق کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ تحقیق میں انہوں نے ’وائرو فائنڈ‘ نامی ٹول سے رعشے کے مریضوں اور اس بیماری سے پاک افراد کی اموات کے بعد دماغ کے حاصل شدہ بافتوں کا جائزہ لیا۔ جائزے میں انسانوں کو متاثر کرنے والے اب تک کے معلوم تمام وائرسز کو دیکھا گیا تاکہ دونوں گروہوں کے درمیان کسی فرق کی نشان دہی کی جا سکے۔
جائزے میں سائنس دانوں نے رعشے کے مریضوں کی نصف تعداد کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گودے میں ہیومن پیگی وائرس کی نشان دہی کی۔ یہ وائرس ہیپاٹائٹس سی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور خون کے ذریعے پھیلتا ہے۔
جرنل جے سی آئی انسائٹ میں شائع ہونے والی تحقیق اس پیچیدہ بیماری کے کچھ مزید عوامل کو واضح کرنے میں اہم کامیابی ثابت ہو سکتی ہے اور ماضی میں بے ضرر سمجھے جانے والے وائرس کے متعلق نئی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر آئگر کا کہنا تھا کہ HPgV ایک عام علامت کے بغیر انفیکشن ہے جس سے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مسلسل دماغ کو متاثر کرتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا میں خسرہ کی بیماری پھر لوٹ آئی، 25 سال بعد ریکارڈ کیسز، حکام پریشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں خسرے کے خاتمے کا اعلان ہوئے پچیس برس بیت چکے ہیں، مگر اب یہ بیماری دوبارہ سر اٹھا رہی ہے اور صورتحال حکام کے لیے شدید تشویش کا باعث بن گئی ہے۔
2025 کے پہلے چھ ماہ میں خسرہ کے کیسز کی تعداد پچھلے پچیس برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس کے دوران کئی اموات بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق اس بار خسرہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ٹیکساس ہے، جہاں رواں برس جنوری سے اب تک 750 سے زائد کیسز سامنے آچکے ہیں۔ صرف گینز کاؤنٹی میں 400 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اور یہاں خسرہ سے بچاؤ کی ویکسینیشن کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔ اسی طرح نیو میکسیکو اور اوکلاہوما میں بھی درجنوں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بیماری مغربی ٹیکساس سے ان علاقوں تک پہنچی ہے۔
ماہرین کے مطابق والدین کی جانب سے ویکسین نہ لگوانے کے رجحان نے خسرہ کے پھیلاؤ کو مزید آسان بنادیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جن علاقوں میں ویکسینیشن کی شرح کم ہے، وہاں صورتحال مزید بگڑ رہی ہے اور حکام پریشان ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا مزید شدت اختیار کرسکتی ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی سینٹر فار آؤٹ بریک رسپانس انوویشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2025 کے ابتدائی 6 ماہ میں امریکا میں خسرہ کے کم از کم 1,277 تصدیق شدہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جو 2019 میں رپورٹ ہونے والے 1,274 کیسز سے بھی زیادہ ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کیسز کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ کئی کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوسکے۔
تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ خسرہ کے باعث رواں سال اب تک تین افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں دو بچے شامل ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی جبکہ نیو میکسیکو میں ویکسین لگوانے والا ایک 18 سالہ نوجوان بھی اس بیماری سے جان کی بازی ہار گیا۔
واضح رہے کہ 2000 میں امریکا نے خسرے کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، جس کا مطلب تھا کہ مسلسل ایک سال تک بیماری کی مقامی منتقلی نہیں ہوئی تھی، اور یہ ویکسینیشن کے کامیاب پروگرام کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔ امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے مطابق یہ عوامی صحت کی ایک تاریخی کامیابی سمجھی گئی تھی، مگر اب موجودہ صورتحال حکام کے لیے لمحہ فکریہ بن گئی ہے۔
حکام والدین سے اپیل کر رہے ہیں کہ بچوں کی ویکسینیشن کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس بیماری کی روک تھام کی جاسکے اور مزید اموات اور پھیلاؤ سے بچا جاسکے۔