دمہ کی شدت کم کرنے میں مثبت سوچ کا اہم کردار، نئی تحقیق کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اگر آپ دمہ جیسے تکلیف دہ اور مسلسل رہنے والے مرض سے نجات تو نہیں، مگر اس کی شدت میں کمی چاہتے ہیں تو دوا کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ بدلنے کی بھی کوشش کریں، کیونکہ ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق مثبت طرز فکر براہ راست آپ کی سانس کی کیفیت پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
اٹلی کی کیتھولک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دمہ کے مریض اگر مستقل مایوسی یا منفی خیالات میں مبتلا رہیں تو ان کی علامات وقت کے ساتھ بدتر ہوتی جاتی ہیں اور پھیپھڑوں کی کارکردگی میں بھی نمایاں کمی آتی ہے۔
تحقیق میں 310 ایسے افراد شامل کیے گئے جنہیں کم از کم 6 ماہ سے دمہ لاحق تھا۔ ان سے سوالنامے کے ذریعے معلومات لی گئیں کہ وہ اپنی بیماری اور مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے پھیپھڑوں کے افعال کی جانچ اور علامات کی شدت کا جائزہ بھی لیا گیا۔
نتائج کے مطابق جن افراد کی سوچ منفی تھی، ان کی بیماری میں شدت آئی، جبکہ مثبت سوچ رکھنے والے افراد کی حالت نسبتاً بہتر رہی۔ تحقیق نے یہ بھی واضح کیا کہ منفی سوچ رکھنے والے مریض اکثر ادویات بروقت نہیں لیتے اور ڈاکٹر کی ہدایات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مثبت سوچ رکھنے سے بیماری کی شدت کم محسوس ہوتی ہے اور مریض زیادہ بہتر انداز میں علاج پر عمل کرتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جرنل Health Expectations میں شائع ہوئے ہیں۔
لہٰذا دمہ ہو یا کوئی اور مستقل بیماری، صرف دوا کافی نہیں، سوچ بھی بدلنی ہوگی کیونکہ بیماری پر قابو پانے کا پہلا قدم حوصلہ مند ذہن سے اٹھایا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی شدت
پڑھیں:
اسلام آباد؛ اسپتالوں کے فضلات منتقل کرنے کیلئے خصوصی گاڑیاں متعارف
وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے کہا ہے کہ اسپتال سے فضلہ منتقل کرنے کیلئے گاڑیاں فراہم کی جارہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مصطفی کمال نے یلو ویسٹ ویہکلز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ آج انڈس اسپتال کے تعاون سے انسانوں کو بیماری سے بچانے کا اقدام اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اگر احتیاط نہیں کریں گے تو بیماریاں گھیر لیں گے۔ ہمارا کام بیماری سے بچانا پہلی ترجیح ہے،علاج دوسری ترجیح ہوگی۔ ہماری ترجیح الٹ تھی،ہم علاج پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گلی کوچوں اور گھروں سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ 68 فیصد بیماریاں صرف آلودہ پانی پینے سے لاحق ہوتی ہیں یا اننتقال۔خون بھی بیماریوں کا سبب ہے۔ علاوہ ازیں اسپتال کا فضلہ بھی خطرناک ہے،یہ فضلہ جہاں سے گزرتا ہے ہر طرف بیماری ہھیلاتا ہے۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ اسپتال کے فضلے کو اسپتال سے منتقل کرنے کا مناسب انتظام نہیں۔ آج ڈونرز کی مدد سے 15 اضلاع کے لئے گاڑیاں تیار کرکے ان کے حوالے کی جارہی ہیں۔ یہ اسپتالوں کے انفیکیشن والے فضلے کو اٹھانے والے یلو وینز ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس بیماریوں سے بچانے کا نظام ہی نہیں ہے۔ کراچی تک لوگ آلودہ پانی پی رہے ہیں۔ ہمارا ماحول ہمیں بیمار کررہا ہے۔