پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں، وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے انڈس اسپتال کے اشتراک سے صحت عامہ کے تحفظ کے لیے ایک نئی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے، اور اگر ہم احتیاط نہیں کریں گے تو بیماریاں ہمیں گھیر لیں گی۔
انہوں نے کہا کہ گلی کوچوں اور گھروں سے جنم لینے والی بیماریوں سے بچانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، علاج دوسری ترجیح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپتالوں سے نکلنے والا انفیکشن زدہ فضلہ (اسپتال ویسٹ) انتہائی خطرناک ہوتا ہے اور جہاں سے گزرتا ہے وہاں بیماری پھیلاتا ہے، مگر ماضی میں اس کو محفوظ طریقے سے منتقل کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: بھارت اور اسرائیلی جارحیت سے صحتِ عامہ کو خطرہ ہے، مصطفیٰ کمال کا عالمی فورم پر انتباہ
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں صرف آلودہ پانی کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں، اور آج بھی کراچی جیسے شہر کے عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ہمارا ماحول خود ہمیں بیمار کر رہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے پاس بیماریوں سے بچاؤ کا کوئی مؤثر نظام نہیں ہے۔
مصطفیٰ کمال نے اعلان کیا کہ آج ڈونرز کے تعاون سے 15 اضلاع کو اسپتال ویسٹ اٹھانے والی جدید “یلو وہیکلز” فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
وزیر صحت نے کہا کہ لوگوں کی خدمت کا یہی واحد راستہ ہے کہ ہم ان کے ماحول کو صحت مند بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا عزم ہے کہ احتیاطی تدابیر کو پالیسی کا بنیادی ستون بنایا جائے، تاکہ عوام کو بیماریوں سے پہلے ہی محفوظ رکھا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی احتیاط علاج سے بہتر ہے، انڈس اسپتال وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی انڈس اسپتال وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال آلودہ پانی وفاقی وزیر نے کہا کہ
پڑھیں:
اسمارٹ فونز کے زیادہ استعمال سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسمارٹ فونز کا استعمال آج کل بیشتر گھروں میں روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، مگر ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ بچپن میں اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنا بچوں کی سیکھنے اور بولنے کی صلاحیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
یہ انکشاف امریکا کی Southern Methodist University میں کی گئی ایک طبی تحقیق میں ہوا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اسمارٹ فونز یا دیگر اسکرینز کا حد سے زیادہ استعمال بچوں کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ بچے بہتر طور پر اس وقت سیکھتے ہیں جب وہ حقیقی چیزوں سے کھیلتے اور انہیں چھوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، جب بچے کسی چیز کا نام سیکھتے ہیں، جیسے “سیب”، تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو ہاتھ لگائیں، اسے مختلف زاویوں سے دیکھیں، اور اس کی ساخت محسوس کریں۔ صرف تصویر دیکھنے سے وہ تمام تفصیلات نہیں سیکھ پاتے۔
سیدھی زبان میں کہا جائے تو بچوں کو کسی شے کو صرف اسکرین پر دکھانے سے وہ تجربہ حاصل نہیں ہوتا جو حقیقی زندگی میں اُسے چھونے اور برتنے سے حاصل ہوتا ہے۔
محققین نے مشورہ دیا کہ بچوں، خصوصاً ابتدائی عمر کے بچوں، کو اسمارٹ فون یا اسکرینز کے استعمال سے حتی الامکان دور رکھا جائے، کیونکہ یہی وہ دور ہوتا ہے جب ان کی دماغی نشوونما اور زبان سیکھنے کی صلاحیتیں تیزی سے ترقی کرتی ہیں۔
انہوں نے والدین کو یہ بھی تجویز دی کہ اگر وہ بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے اسمارٹ فون دیتے ہیں تاکہ خود سکون سے اپنا کام کر سکیں، تو بہتر ہوگا کہ اس کی جگہ انہیں کھلونے یا دیگر تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول کیا جائے۔
اس سے قبل ستمبر 2024 میں Tartu University (ایسٹونیا) کی ایک تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسکرین کا زیادہ استعمال بچوں کی بولنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔