پشاور ہائیکورٹ:سانحہ سوات پر چیئرمین انکوائری کمیٹی کا مختلف محکموں کی کوتاہیاں کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
پشاور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جولائی ۔2025 )پشاور ہائیکورٹ میں سانحہ سوات کیس کی سماعت کے دوران انکوائری کمیٹی کے چیئرمین نے اہم پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مختلف سرکاری محکموں کی جانب سے متعدد کوتاہیاں سامنے آئی ہیں عدالت کو بتایا گیا کہ سات روز کے اندر تفصیلی انکوائری رپورٹ مکمل کر کے ذمہ داران کے نام سامنے لائے جائیں گے.
(جاری ہے)
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ ایس ایم عتیق شاہ نے چیئرمین انکوائری کمیٹی سے استفسار کیا کہ کیا واقعے کی انکوائری کی گئی ہے، جس پر چیئرمین نے بتایا کہ سانحے کے بعد سوات کا دورہ کیا گیا ہے اور رپورٹ کی تیاری آخری مراحل میں ہے عدالت نے کمشنر ملاکنڈ اور آر پی او ملاکنڈ کو ہدایت کی کہ وہ بھی اپنی رپورٹیں باقاعدہ طور پر عدالت میں جمع کرائیں. چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سیاحوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات سے متعلق الگ رپورٹ بھی جمع کرائی جائے درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سانحے کے دن خیبر پختونخوا کے دونوں ہیلی کاپٹرز صوبے میں موجود تھے جبکہ ایوی ایشن رپورٹ کے مطابق اس دن پرواز ممکن تھی لیکن ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کیا گیا عدالت نے اس پر نوٹس لیتے ہوئے ہیلی کاپٹر کی دستیابی، استعمال میں تاخیر، سیاحوں کی حفاظت اور دیگر متعلقہ امور پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی. عدالت نے ریمارکس دئیے کہ معاملہ عوامی اہمیت کا حامل ہے اور سانحے کی اصل وجوہات جاننے کے لیے تمام پہلوں کو باریک بینی سے جانچا جائے گا قبل ازیں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے سانحہ سوات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سوال کیا کہ کیا سانحہ سوات کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ تحقیقات چیئرمین صوبائی انسپکشن ٹیم کر رہی ہے چیف جسٹس نے حکم دیا کہ چیئرمین صوبائی انسپکشن ٹیم کو بلائیں پھر کیس کو سنتے ہیں، دوران سماعت چیئرمین انسپکشن ٹیم نے کہا کہ سوات کا دورہ کیا ہے، تحقیقات جاری ہیں، مختلف محکموں کی کوتاہی سامنے آئی ہے. چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ غفلت برتنے والوں کا تعین جلد کیا جائے، ہزارہ میں سیاحوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کمشنر ہزارہ نے کہا کہ دفعہ 144 نافذ ہے، تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ سیاحوں کو محفوظ ماحول اور سکیورٹی فراہم کریں، میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں کیا انتظامات ہیں؟ کمشنر ہزارہ نے کہا کہ نتھیا گلی ہسپتال میں اضافی عملہ تعینات کیا ہے. جسٹس فہیم ولی نے کہا کہ سوات واقعے کے بعد ایمرجنسی رسپانس کے کیا انتظامات ہیں؟ جس پر آر پی او ہزارہ نے کہا کہ پولیس اور ریسکیو آپس میں کوآرڈینیشن میں ہیں عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ خدانخواستہ کچھ ہو جائے تو کیا ڈرون سے فوری ریسپانس ممکن ہے؟ کمشنر ہزارہ نے بتایا ہے کہ ڈرون حاصل کیے ہیں جو لائف جیکٹس پہنچا سکتے ہیں چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ڈرونز کو ٹیسٹ کریں کہیں عین وقت پر ناکام نہ ہوں، آزمائشی مشق کریں، دیکھیں کتنی دیر میں ایمرجنسی میں پہنچ سکتے ہیں، کمشنر مالاکنڈ اور آر پی او رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، سانحہ سوات سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ بھی پیش کریں. اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سانحہ سوات کے دن خیبر پختونخوا کے دونوں ہیلی کاپٹرز صوبے میں موجود تھے جبکہ ایوی ایشن رپورٹ کے مطابق اس دن پرواز ممکن تھی لیکن ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کیا گیا عدالت نے اس پر نوٹس لیتے ہوئے ہیلی کاپٹر کی دستیابی، استعمال میں تاخیر، سیاحوں کی حفاظت اور دیگر متعلقہ امور پر تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چیف جسٹس پشاور ہیلی کاپٹر سانحہ سوات نے کہا کہ عدالت نے کیا گیا کیا کہ
پڑھیں:
جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کی ستمبر 2025 کی رپورٹ جاری
جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے ستمبر 2025 کے اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ستمبر کے دوران 113 لاپتا افراد کے کیسز نمٹائے گئے جبکہ بلوچستان میں 14 لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس پہنچے۔
مارچ 2011 سے ستمبر 2025 تک کمیشن کو مجموعی طور پر 10 ہزار 636 کیسز موصول ہوئے جن میں سے 8 ہزار 986 نمٹائے جا چکے ہیں۔
چیئرمین جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ کی زیرِ قیادت کمیشن نے گزشتہ 3 ماہ میں 289 کیسز نمٹائے، یعنی اوسطاً ہر ماہ 96 کیسز حل ہوئے۔
مزید پڑھیں: انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگیوں کی تشکیل نو، جسٹس (ر) ارشد حسین کو سربراہ مقرر
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوئٹہ میں قائم علاقائی دفتر بلوچستان کے کیسز کو نمٹا رہا ہے۔ لاپتا افراد کے اہلِخانہ کی سہولت کے لیے ایک خصوصی سیل بھی قائم کیا گیا ہے جو بچوں کے ب فارم، پنشن اور دیگر مسائل میں ریلیف فراہم کرتا ہے۔
کمیشن نے تعلیم، صحت اور دیگر فلاحی امور میں لاپتا افراد کے خاندانوں کی معاونت کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ حکام کو ضروری ہدایات بھی جاری کی ہیں۔
مزید برآں، ایسے کیسز جو ابھی زیرِ تفتیش ہیں اور جنہیں جبری گمشدگی قرار نہیں دیا گیا، ان کی معاونت کے لیے بھی متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
14 لاپتا افراد جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ