منشیات فروش کی ضمانت کرنے پر جج کمرہ عدالت سے گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
مظفرآباد(نیوز ڈیسک)آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے منشیات کیس میں اعلیٰ عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کرتے ہوئے ملزم کو ضمانت دینے پر سیشن جج راجا امتیاز کو سزا سنادی، جس کے بعد انہیں کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کی عدلیہ میں ایک غیر معمولی اور سنسنی خیز پیش رفت سامنے آئی ہے۔
جہاں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے چیف جسٹس راجا سعید اکرم خان کی سربراہی میں سابق سیشن جج حویلی کہوٹہ راجا امتیاز احمد کو توہین عدالت کے جرم میں 3 دن قید کی سزا سناتے ہوئے عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
جج راجا امتیاز کو عدالتی احکامات کی صریح خلاف ورزی، دروغ گوئی اور عدالتی وقار کو مجروح کرنے کے الزامات کا سامنا تھا۔
یہ معاملہ ضلع حویلی کہوٹہ میں ’منشیات ایکٹ 1997‘ کے تحت درج دفعہ 9(سی) کے ایک مقدمے سے شروع ہوا، جس میں راجا دلاور خان نامی شخص کو ہیروئن کی بھاری مقدار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جب کہ ملزم کی درخواستِ ضمانت ابتدائی عدالت سے مسترد ہوئی۔
بعد ازاں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی 19 جنوری 2023 کو ضمانت مسترد کرتے ہوئے واضح حکم دیا تھا کہ ضلعی عدالت 6 ماہ کے اندر مقدمے کا حتمی فیصلہ صادر کرے اور اگر دوران سماعت کوئی نیا مواد سامنے آئے جس سے ملزم کو فائدہ پہنچ سکتا ہو تو ضمانت کے لیے دوبارہ سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا جائے۔
عدالتی حکم کے صرف ایک ماہ بعد ہی اسپیشل جج انسداد منشیات عدالت حویلی راجا امتیاز احمد نے 16 فروری 2023 کو دفعہ 265 (سی آر پی سی) کے تحت ملزم کو بری کر دیا اور ملزم بیرون ملک فرار بھی ہو گیا، باوجود اس کے کہ کیس کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھی اور سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود تھا۔
چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس راجا سعید اکرم خان کی سربراہی میں فل بینچ نے راجا امتیاز کے اقدام کو عدالتی حکم عدولی، دروغ گوئی و جھوٹا بیان اور مس کنڈکٹ قرار دیا۔
عدالت کے روبرو جب جج راجا امتیاز سے اس بریت حکم سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا، تاہم عدالتی ریکارڈ سے ان کا حکم نامہ برآمد ہو گیا۔
اسی دوران ایک ماہ قبل سپریم کورٹ نے راجا امتیاز کو معطل کر کے انکوائری کا حکم دیا تھا جب کہ ان کے تمام سابقہ فیصلوں بالخصوص مظفرآباد، پلندری اور حویلی میں منشیات کے مقدمات کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کیا گیا تھا۔
ایک ماہ کی انکوائری کے بعد، 2 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ نے واضح طور پر قرار دیا کہ راجا امتیاز نے توہین عدالت کا ارتکاب کیا اور سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کیا اور عدالت میں جھوٹ بول کر ادارے کا وقار مجروح کیا۔
لہٰذا، عدالت نے فوری طور پر 3 دن کی سزا دیتے ہوئے انہیں کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ راجا امتیاز احمد ماضی میں سدھنوتی، مظفرآباد اور حویلی جیسے حساس اضلاع میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹس کے معاملے میں اسلام آباد کے 2 صحافیوں راجا ماجد افسر اور اعجاز خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلانے پر بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق راجا امتیاز کی اس سزا کے بعد نہ صرف ان کی عدالتی ساکھ مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے بلکہ مستقبل میں انکے خلاف ریاست میں نافذ فوجداری اور تادیبی کارروائیوں کا بھی امکان ہے۔
کے پی حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں، وزیراعظم کی گورنر فیصل کریم اور ایمل ولی سے ملاقاتیں
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ نے راجا امتیاز عدالت سے کا حکم
پڑھیں:
ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہاشم کاکڑ کا ایک کیس کی سماعت کے دوران ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر ملک جمیل ظفر سے اہم مکالمہ ہوا جب کہ جسٹس ہاشم کاکڑ کے ہلکے پھلکے انداز میں دیے گئے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے وکیل شاہ خاور عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ میں فوجداری مقدمہ زیر سماعت تھا، ٹرائل کورٹ نے گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
شاہ خاور نے کہا کہ میرے موکل اس وقت ایس پی تھے، انکے خلاف ٹرائل کورٹ نے آرڈر میں آبزرویشنز دیں، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا نہیں ہوتا، عدالتوں میں گواہان کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے، ٹرائل کورٹ کے جج صاحب خود جاکر گواہان کو لا تو نہیں سکتے تھے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ شاہ خاور صاحب یہ تو آپکے ساتھ پولیس والا کھڑا ہے، کیا یہی ڈی آئی جی ہے،شاہ خاور نے جواب دیا کہ جی مائی لارڈ یہی ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں ریمارکس دیے کہ یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑا ہمیں ڈرا رہا ہے، ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔
جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے جب کہ عدالت عظمٰ نے معاملہ ہائیکورٹ بجھوا دیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ نے پولیس افسر کیخلاف آبزرویشنز دیں، لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز برقرار رکھیں، ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کی اپیل بحال کی جاتی ہے، ہائی کورٹ میرٹس پر کیس کا دو ماہ میں سن کر فیصلہ کرے، وکیل درخواست گزار نے کہا بغیر سنے فیصلہ دیا گیا۔