طالبان نے افغانستان میں منشیات فیکٹریاں بند کیں تو یہاں شروع ہوگئیں، جج سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
سپریم کورٹ میں منشیات کیس کے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی جس میں جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
تفصیلات کے مطابق سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل منشیات سپلائی نہ روکنے پر سرکاری اداروں پر برس پڑے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ منشیات شہروں تک آخر پہنچتی کیسے ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ بارڈر پر منشیات کو کیوں نہیں روکا جاتا؟۔ بارڈر سے ایک ایک ہزار کلومیٹر تک منشیات اندر کیسے آ جاتی ہے؟۔ پانچ دس کلو کا مسئلہ نہیں لیکن ٹنوں کے حساب سے منشیات آتی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے یہ بھی کہا کہ طالبان نے افغانستان میں منشیات کی فیکٹریاں بند کردیں تو یہاں شروع ہوگئیں۔ بلوچستان کے تین اضلاع میں منشیات کی فصلیں کاشت ہو رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب کو معلوم ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کرتا، اے این ایف کا کام کلو کلو منشیات پکڑنا نہیں بلکہ سپلائی لائن کاٹنا ہے۔ چھوٹی موٹی کارروائی تو شہروں میں پولیس بھی کرتی رہتی ہے۔
جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ضیاء الحق کا دیا ہوا تحفہ ہے، بھگتیں اس ک، بعدازاں عدالت نے کورنیئر کمپنی کے منیجر کی درخواست ضمانت پر سماعت ملتوی کر دی۔
جج نے اے این ایف کو ملزم کی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل میں منشیات کہا کہ
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے استعفیٰ دیدیا
لاہور (خبر نگار) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس شمس محمود مرزا نے اپنا استعفیٰ صدرِ مملکت کو بھجوا دیا۔ وہ اپنے چیمبر آئے اور چیمبر خالی کر کے بغیر پروٹوکول واپس روانہ ہو گئے۔ جسٹس شمس محمود مرزا نے 22 مارچ 2014ء کو ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، انہوں نے 2028ء میں ریٹائر ہونا تھا۔ جسٹس شمس محمود مرزا سپریم کورٹ کے سابق جسٹس ضیاء محمود مرزا کے صاحبزادے ہیں۔ جسٹس شمس محمود مرزا کا 27 ویں آئینی ترمیم کے بعد تبادلے کا امکان تھا، وہ لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے بھی ممبر تھے۔