Jang News:
2025-07-09@12:13:35 GMT

گوادر میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

گوادر میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا

---فائل فوٹو 

بلوچستان کے شہر گوادر میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، گوادر اور اس کے نواحی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ایک بار پھر سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔

گوادر شہر سمیت جیونی، سُربندن، پیشکان اور دیگر نواحی علاقوں میں پانی نایاب ہوچکا ہے، پانی کی قلت کے خلاف شہری سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے ہیں۔

دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت جیسے ہی شدت اختیار کرتی ہے، ٹینکر مافیا بھی سرگرم ہو جاتا ہے، 4 سے 5 ہزار روپے میں ملنے والا 16 سے 18 ہزار لیٹر پانی کا ٹینکر 20 سے 25 ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

گوادر کے عوام کی شکایت ہے کہ گوادر کے شہری ہمیشہ پانی کے لیے ترستے ہیں۔ حکومتی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔

گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجینئر سید محمد کا کہنا ہے کہ گوادر میں پانی کی قلت کی ایک بڑی وجہ مسلسل خشک سالی ہے، موجودہ حالات میں شادی کور ڈیم کو گوادر سے منسلک کر دیا گیا ہے، گوادر شہر میں پانی کی فراہمی کے لیے 141 کلومیٹر نئی پائپ لائن بچھادی گئی ہیں جس کے ذریعے روزانہ 32 سے 35 لاکھ گیلن پانی پہنچا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بجلی کا مسئلہ نہ ہو، تو پانی کی فراہمی میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں آتی، کبھی کبھار لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج کی وجہ سے عارضی کمی ہو سکتی ہے مگر مجموعی طور پر پانی کی کوئی کمی نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: اختیار کر میں پانی پانی کی پانی کا

پڑھیں:

موسمیاتی تبدیلی ایک بڑھتا ہوا عالمی بحران اور پاکستان کی آزمائش

بارشیں ہمیشہ سے زمین کی زرخیزی اور فطری نظام کا حصہ رہی ہیں، لیکن جب یہی نعمت انسانی غفلت، حکومتی نااہلی اور ناقص انفراسٹرکچر کے باعث قیامت کی صورت اختیار کر لے تو سوال اٹھتے ہیں۔

کیا ہم موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ کیا ہمارے ادارے اس بڑھتے ہوئے عالمی بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟

اسلام آباد اور راولپنڈی میں حالیہ موسلادھار بارشوں نے شہری زندگی مفلوج کر دی۔ سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہو گئیں، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوا، درخت اور سائن بورڈز تیز ہوا کے باعث گر پڑے، کئی گھروں کی چھتیں منہدم ہو گئیں، اور عوام ایک بار پھر بنیادی سہولیات کو ترستے نظر آئے۔ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو پانی میں بہتے دیکھتے رہے لیکن کوئی مددگار نہ آیا۔

سوات واقعے میں چیئرمین انسپیکشن ٹیم نے عدالت میں اعتراف کیا کہ حادثے میں مختلف محکموں کی کوتاہی شامل ہے۔ یہ بیان نہ صرف ادارہ جاتی ناکامی کا ثبوت ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا پاکستان میں انسانی جان کی کوئی قیمت ہے؟

اگر بروقت حفاظتی اقدامات کیے جاتے، ندی نالوں کی درست صفائی اور نکاسی کی جاتی، اور ضابطہ کار پر عمل درآمد ہوتا، تو شاید قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔

امریکی ریاست ٹیکساس میں حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا بحران صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے۔

تاہم، ترقی یافتہ ممالک اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اور بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ معاملہ محض بیانات تک محدود ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں انسانی سرگرمیاں سب سے نمایاں ہیں۔ صنعتی فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں، خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین، زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جس کی جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور تجارتی مراکز تعمیر کیے جا رہے ہیں، ماحولیاتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ندی نالوں پر ناجائز تجاوزات اور ان کی بروقت صفائی نہ ہونا شہری علاقوں میں سیلاب کی بنیادی وجہ ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر منصوبہ بند اربنائزیشن کے باعث سبزہ زار ختم ہو رہے ہیں، جو قدرتی ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ سموگ کی شدت میں اضافہ بھی گاڑیوں، بھٹوں، اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کا نتیجہ ہے جو نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب کر رہا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق جون کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش کراچی کے علاقے گلشنِ حدید میں 210 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ سب سے زیادہ درجہ حرارت جیکب آباد میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔

پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف علاقوں میں بارشوں کے باعث درجنوں چھتیں گریں، کئی افراد ملبے تلے دب گئے، جبکہ تیز ہواؤں نے درختوں اور سائن بورڈز کو جڑوں سے اکھاڑ دیا۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان میں ہر سال ہزاروں خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کر رہے ہیں۔ صرف جون سے اب تک مختلف حادثات میں 100 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں درجنوں مکانات کی چھتیں گرنے سے خاندانوں کے خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ تیز ہواؤں نے درختوں، بجلی کے کھمبوں اور سائن بورڈز کو گرا دیا، جس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ شہر کا نظام بھی مفلوج ہو گیا۔

پنجاب میں 10 ارب روپے سے زائد کا معاشی نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سڑکیں اور پل تباہ ہونے سے آمدورفت متاثر ہوئی جبکہ کھڑی فصلیں تباہ ہو کر کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان میں موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے موجودہ حفاظتی اقدامات ناکافی اور غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ اگرچہ NDMA اور PDMA  جیسے ادارے موجود ہیں، لیکن ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی، مناسب فنڈز اور تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے۔

بارشوں سے قبل الرٹ تو جاری ہوتے ہیں مگر نچلی سطح پر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ندی نالوں کی صفائی صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے، جس کے نتیجے میں ہلکی بارش بھی شدید سیلابی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔

بلدیاتی ادارے غیرفعال ہیں اور سیاسی مداخلت کے باعث انتظامی معاملات متاثر ہوتے ہیں۔ عوامی آگاہی مہمات کا بھی شدید فقدان ہے، جس سے عام شہری موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اور طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو قومی ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ تمام ادارے متحرک ہوں۔

’گرین پاکستان‘ مہم کو نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ اس کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے ملک بھر میں شجرکاری کی مہمات کو منظم کیا جائے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی منظوری ماحولیاتی اثرات کی رپورٹ سے مشروط کی جائے اور ندی نالوں پر تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ NDMA اور PDMA  کو جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے اور ان کے عملے کی تربیت کی جائے۔ سموگ کی روک تھام کے لیے فیکٹریوں، بھٹوں اور گاڑیوں کی مانیٹرنگ کا مؤثر نظام قائم کیا جائے۔

اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا مستقل حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل کو آغاز سے ہی اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہی حاصل ہو۔

موسمیاتی تبدیلی اب صرف قدرتی تبدیلی نہیں بلکہ انسانی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہماری ترقیاتی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

جب تک حکومت، ادارے اور عوام مل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیں گے، ہر سال مون سون اور سردیوں کی سموگ پاکستان میں انسانی المیے کو جنم دیتی رہے گی۔ ہمیں صرف بیانات اور اعلانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انعم ملک

امریکی ریاست پاکستان محکمہ موسمیات موسمیاتی تبدیلی

متعلقہ مضامین

  • سابق صدر عارف علوی کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد
  • ناظم آباد میں پانی کا بحران پورے کراچی سے کہیں زیادہ سنگین ہے‘محمد مظفر
  • لاہور میں صبح سویرے موسلادھار بارش، نشیبی علاقے زیر آب
  • ماحولیاتی تباہ کاریوں کو اب قدرتی نہیں، بلکہ انسان ساختہ جرائم کہیں گے، شیری رحمان
  • مائیکروسافٹ کا پاکستان چھوڑنا ارباب اختیار کے لیے انتباہ ہے
  • بھارت کی آبی جارحیت برقرار، پاکستان کو شدید خطرات لاحق
  • حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ملن پہلی بار؟؟
  • موسمیاتی تبدیلی ایک بڑھتا ہوا عالمی بحران اور پاکستان کی آزمائش
  • کہوٹہ میں کلاؤڈ برسٹ، سید پور میں 130 ملی میٹر بارش، راولپنڈی شہر محفوظ رہا