کابل سے تعلق رکھنے والے افغان خارجی دہشت گرد سطورے کا اعترافی بیان منظر عام پر، ٹی ٹی پی میں شمولیت اور ٹارگٹ کلنگ کی سازش کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سوشل میڈیا پر ایک اعترافی بیان سامنے آیا ہے جس میں افغان ننگر ہار کے رہائشی سطورے نے اپنی ٹی ٹی پی میں شمولیت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مخصوص شخصیات کے خلاف ٹارگٹ کلنگ کی سازش پر اعتراف کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملزم نے اپنی ابتدائی زندگی، تعلیمی پس منظر اور کارروائیوں میں شامل افراد کے نام بیان کیے ہیں۔
اعترافی بیان کے مطابق سطورے نے گورنمنٹ کالج حضرت خان، ننگر ہار سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا اور بعد ازاں غزنی یونیورسٹی سے فقہ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس نے کابل کے مدرسے عبداللہ بن زبیر میں درسِ تدریس کا بھی ذکر کیا اور ننگر ہار میں ادویات کی ڈلیوری کے ملازمت کے دور کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
بیان میں سطورے نے کہا کہ اسے عاصم نے تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شمولیت کی دعوت دی، اور کابل میں ٹی ٹی پی کمانڈر قاری محمد سے ملایا گیا۔ سطورے نے بتایا کہ اس نے قاری محمد کے ہاتھ پر بیعت کی اور بعد ازاں علاج کے لیے پشاور آیا، جہاں علاج کے بعد کمانڈر قاری محمد نے اسے پشاور کے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا۔ اعترافی بیان میں مزید کہا گیا کہ قاری محمد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں اور مخصوص عالم دین کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کے احکامات جاری کیے۔
سطورے نے تسلیم کیا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ کے منصوبے میں ملوث تھا لیکن منصوبے کو عملی شکل دینے سے قبل ہی گرفتار ہو گیا۔ متعلقہ حکام نے ابھی تک اس اعترافی بیان کی خودمختار تصدیق اور قانونی کارروائی کے بارے میں باضابطہ تفصیلات جاری نہیں کی ہیں، تاہم یہ معاملہ انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کے دائرہ میں لایا جائے گا۔
سیکیورٹی اور انٹیلی نسل حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاعات فوراً متعلقہ اداروں کو فراہم کریں تاکہ دہشت گردانہ سازشوں کو وقت پر روکا جا سکے۔
Monitoring:
Afghanistan & IAG: The Breeding Ground of Terrorism ????
Falsely blaming others while terrorism flourishes within their own borders & among their own citizens
???? Confession Statement of Arrested Afghan Citizen 'DAESH' Terrorist
???? Part 1/9 pic.
— Hybrid Front Pakistan (@PakHF_) October 27, 2025
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹی ٹی پی
پڑھیں:
افغان سرزمین سے دہشتگردی ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے، پاکستان
نیویارک (ویب ڈیسک) پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کو بتایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی ملک کی قومی سلامتی اور خود مختاری کے لیے ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے، سفیر عاصم افتخار احمد نے بدھ کو نیویارک میں افغانستان کی صورت حال پر بحث سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
اپنے بیان میں انہوں نے ہمسایہ افغانستان سے پیدا ہونے والے سیکیورٹی، انسانی اور سماجی و معاشی چیلنجز پر اسلام آباد کے خدشات اجاگر کیے۔
طالبان کے کابل پر قبضے (2021) کے بعد پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا، اعلیٰ سطح کے دورے کیے، انسانی امداد کی فراہمی میں مدد کی، تجارتی سامان کی نقل و حمل کو سہولت دی اور تجارت و ٹرانزٹ میں رعایتوں کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کے باوجود خطرات برقرار ہیں اور پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد گروہوں اور پراکسیز کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جس کے تباہ کن نتائج اور بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز اس کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان اور پورے خطے و اس سے آگے تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔’
عاصم افتخار احمد نے کہا کہ افغان حکام دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں اور پاکستان نے دہشت گرد حملوں میں اضافے کا سامنا کیا ہے، جو اُن کے بقول افغان سرزمین سے ان کی نگرانی میں منصوبہ بندی، مالی معاونت اور عملی کارروائی کے ذریعے کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’صرف اس سال ہم افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کے باعث تقریباً 12 سو جانوں سے محروم ہوئے ہیں۔ 2022 سے اب تک 214 سے زائد افغان دہشت گرد، جن میں خودکش حملہ آور بھی شامل ہیں، پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران مارے جا چکے ہیں۔‘
سفیر نے کہا کہ افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ سمیت دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں ’محفوظ پناہ‘ حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے دہشت گردوں کی دراندازی کی متعدد کوششیں ناکام بنائیں اور وہاں سے چھوڑا گیا امریکی ملٹری گریڈ اسلحہ بھی برآمد کیا۔
عاصم افتخار احمد نے کہا کہ ان کوششوں کی انسانی قیمت بھی ہے، اور پاکستان کی بہادر سیکیورٹی فورسز اور شہریوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کی صفوں کے اندر موجود عناصر ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کر رہے ہیں، ہمارے پاس اس باہمی تعاون کے قابلِ اعتماد شواہد موجود ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خطے کا ایک موقع پرست اور تخریب کار ملک‘ ان دہشت گرد گروہوں کی مادی، تکنیکی اور مالی مدد کررہا ہے تاکہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف سرگرم گروہوں کو سہارا دیا جاسکے۔
افتخار احمد نے اقوامِ متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان پر زور دیا کہ وہ غیرقانونی اسلحے کی تجارت روکنے کے لیے کوششیں تیز کرے اور سرحدی سیکیورٹی پر جامع اور غیرجانبدارانہ جائزہ پیش کرے کیونکہ سرحدی جھڑپوں کی بنیادی وجہ سرحد پار دہشت گردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے، جس میں حالیہ دوحہ اور استنبول مذاکرات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے قطر اور ترکی کی حکومتوں کا افغان طالبان کے ساتھ مکالمے میں سہولت فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا اور طالبان سے کہا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات کریں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں پاکستان اپنے شہریوں اور سرزمین کے تحفظ کے لیے ’تمام ضروری دفاعی اقدامات‘ کرے گا۔
انہوں نے پاکستان کے ویزا نظام کا بھی ذکر کیا، جس کے تحت افغانوں کو تعلیم، صحت، کاروبار اور خاندانی ملاقاتوں کے لیے قانونی طریقے سے پاکستان آنے کی اجازت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ستمبر 2023 سے اب تک 5 لاکھ 36 ہزار سے زیادہ میڈیکل ویزے جاری کیے جا چکے ہیں۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، جڑا ہوا اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے، ایسا افغانستان جو اپنے عوام اور پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہے۔
آخر میں عاصم افتخار احمد نے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ دیرپا استحکام صرف افغان طالبان سے مخلصانہ مکالمے، بین الاقوامی ذمہ داریوں کے احترام اور مضبوط علاقائی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں انسانی امداد فراہم کرے اور ایسے سیکیورٹی ماحول کے قیام میں مدد کرے جو طویل مدتی ترقی اور خوشحالی کے لیے سازگار ہو۔