طالبان دور میں افغانستان کا تعلیمی نظام تباہ، 4 سالہ پابندی نے لاکھوں لڑکیوں کا مستقبل چھین لیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
کابل: اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں یونیسیف اور یونیسکو نے افغانستان میں تعلیمی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دونوں اداروں کی مشترکہ رپورٹ “افغانستان کی تعلیمی صورتحال 2025” کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں تعلیم کا نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں 10 سال کی عمر کے 90 فیصد سے زائد بچے سادہ متن بھی پڑھنے کے قابل نہیں رہے۔ ملک بھر میں 2.
رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر چار سالہ پابندی نے تقریباً 2.2 ملین نوجوان لڑکیوں کو اسکولوں سے باہر کر دیا ہے، اور اگر یہ پابندی برقرار رہی تو 2030 تک 4 ملین لڑکیاں ثانوی تعلیم سے مکمل طور پر محروم ہو جائیں گی۔
یونیسیف اور یونیسکو نے مزید بتایا کہ 2019 سے 2024 کے درمیان لڑکوں کے اعلیٰ تعلیم میں داخلوں میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی، جبکہ 1,000 سے زائد اسکول بند ہو چکے ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں صاف پانی اور بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔
عالمی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ طالبان حکومت کی پالیسیوں اور انتہاپسندی نے افغانستان کے بچوں اور نوجوانوں کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشی و سماجی سطح پر دیرپا نقصان کا باعث بنے گا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
طالبان رجیم کسی غلط فہمی کا شکار ہے۔۔۔
اسلام ٹائمز: پاکستان کے ساتھ جنگ ان کے مفاد میں نہیں، بلکہ دونوں طرف کے مسلمانوں کی مشکلات بڑھانے کا سبب ہے۔ چند ہزار جنگجووں کو سمجھایا جاسکتا ہے، انہیں مصروف رکھنے کیلئے کوئی کام حوالہ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بندوق لے کر کوئی اور ذمہ داری تھمائی جاسکتی ہے، نہ ماننے کی صورت میں ان سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ بہرحال ایک آزاد، خود مختار، پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان اس خطے کیلئے بہت اہم ہے۔ حسینی صاحب سے بہت اختلاف رہتا ہے، مگر یہاں ہماری یہی خواہش ہے، مگر وہاں سے اٹک تک قبضے کے لیے یلغار کے نعرے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
پاکستان کی لوکیشن ایسی ہے کہ جہاں یہ ایک ابھرتی سپر پاور کا پڑوسی ہے، ابتدا سے ہی انڈیا جیسے بڑے ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا اور کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہو اور اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔ پچھلے چالیس سال کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان نے یہ پالیسی بنائی کہ ہم پہلے ہی دو بڑی طاقتوں کے ساتھ ہیں، اب اگر افغانستان میں بھی کوئی بڑی طاقت آجاتی ہے تو یہ کسی صورت میں ہمارے مفاد میں نہ ہوگا۔ لہذا کسی بھی صورت میں افغانستان میں کسی بڑی طاقت کو ٹکنے نہیں دینا۔ پاکستان نے روس کے خلاف امریکی تعاون کا فائدہ اٹھایا۔ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے اس وقت امریکی جنگ لڑی، میرے خیال میں یہ بات مکمل درست نہیں ہے، یہ امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جنگ بھی تھی۔
روس گوادر کا خواب لیے افغانستان آیا تھا، یہ ہمارے لیے سلامتی کا معاملہ تھا، جسے ہم نے واپس ماسکو کا راستہ دکھایا۔ اس میں بہت سی بے اعتدالیاں ہوئیں، جن کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ پھر امریکہ بہادر خود تشریف لے آئے، یہ بھی اسی پالیسی کی زد میں آگئے۔ ہم نے امریکہ کے اتحادی بن کر اسی کے دیئے ہوئے وسائل سے بقول جنرل حمید گل مرحوم، امریکہ کے تعاون سے افغانستان میں امریکہ کو شکست دی۔ یہ سب کچھ بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا۔ یہ بہرحال ایک بڑی کامیابی تھی کہ یورپ و امریکہ کے سامنے ہم نے ایٹمی پروگرام بنایا، چلایا اور دھماکے بھی کیے، مگر اپنی ضرورت ان کے لیے ایسے بنائے رکھی کہ اگر ہم سے بگاڑیں گے تو مسئلہ خراب ہو جائے گا اور روس طاقتور ہو کر سامنے آجائے گا۔
امریکہ ذلیل ہو کر افغانستان سے نکلا، ہم اور پورا خطہ کامیاب ہوئے کہ ایک بین الاقوامی استعمار یہاں سے چلا گیا۔ پاکستان کی پالیسی جسے اسٹریجک ڈیپتھ کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان میں ہماری دوست حکومت ہو یا نہ ہو کم از کم ہماری دشمن حکومت نہیں ہونی چاہیئے۔ امریکہ کے بعد طالبان کو لانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں سے کم از کم ہمارے خلاف کارروائیاں نہیں ہوں گی اور خطہ کو تجارتی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ طالبان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی بھی گوریلا فورس کی طرح رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو ایک حکومت کے طور پر سمجھنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ امریکہ کی جگہ ایک دشمن چاہتے ہیں، جو ان کی نظر میں پاکستان ہے۔ ویسے بھی افغانستان کی بڑی آبادی انہیں قبول نہیں کرتی۔ اس لیے انہیں کچھ ایسا چاہیئے، جس پر سب افغانستانی متحد ہو کر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ فقط پاکستان دشنمی ہے۔ اٹک تک کے علاقے کا دعویٰ کرکے، دریائے کنڑ کا پانی بند کرنے کا اعلان کرکے وہ بار بار پاکستان سے گویا نظریاتی اور دیرپا تنازعات کو جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہوئے مسلسل حملے اس باعث بنے کہ پاکستان نے براہ راست کابل میں کارروائی کی، جو طالبان کے وہم گمان میں بھی نہ تھی۔ اس کے جواب میں طالبان نے پاکستان پر حملہ کیا اور کئی چوکیاں اب پاکستان کے قبضے میں ہیں۔ قطر ہوئے مذاکرات سے جنگ رک گئی ہے۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تین روز سے مذاکرات جاری ہیں۔ اس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپنا حتمی موقف پیش کر دیا ہے۔
اے پی پی کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس (سرپرستی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ طالبان کے دلائل "غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔ نظر آرہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویئے پر منحصر ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ طالبان کسی خبط عظمت کے زعم میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ وہ سمجھ رہی ہیں کہ انہوں نے روس کو اڑا دیا، انہوں نے امریکہ کو شکست دے دی، اب پاکستان تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
جنگ کی معیشت پر قائم افغانستان کو وہ جنگ پر ہی رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ لڑائی جھگڑے سے انہیں انڈیا یا دوسرے پاکستان دشمنوں سے بلینک چیک کی صورت ماہانہ خرچہ ملتا رہے۔ طالبان یہ بھول رہے ہیں کہ روس کے خلاف وہ فقط پیادے تھے، جنگ کسی اور نے لڑی۔ اسی طرح امریکہ کے خلاف بھی جنگ میں وہ فقط پیادرے تھے، جنگ کہیں اور سے ترتیب دی جا رہی تھی۔ روس، امریکہ باہر سے آئی ہوئی قوتیں تھی، جنہیں بہرحال جانا ہی تھا۔ مزاحمت کے ایکسپرٹ بتاتے ہیں کہ نقصان کے اعتبار سے بھی طالبان نے امریکہ کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا، جتنا عراقیوں نے پہنچایا۔ اسی لیے امریکی جلد عراق چھوڑ کر بھاگے تھے۔ پاکستان کو کوئی جلدی نہیں ہے، ہم یہیں ہیں اور یہیں رہیں گے۔ ہم نہیں تو ہماری اگلی نسلیں یہیں رہیں گے۔ وقت کا عنصر گوریلہ جنگوں میں بہت اہم ہوتا ہے۔ اس وقت ہم سے غلطی ہوئی کہ سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیئے۔
آپ ہمارے علاقوں میں گوریلے بھیج رہے ہیں، دو چار سال یہی صورتحال رہی تو آپ کے گوریلے ہی کابل و قندھار میں پھٹنے لگیں گے۔ بہت سے گروہ افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں بس اشارہ درکار ہے اور وہ پرانی تنخواہ پر کام کے لیے بھی جلد میدان میں ہوں گے۔ ایک اہم عنصر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ افغانستان سے زیادہ پختون تو ہمارے ہاں موجود ہیں۔ آپ کی جنگ باہر کی فورس سے نہیں بلکہ مقامی پختون سے ہے۔ یقین نہ آئے تو پچھلے ایک ماہ کے شہداء کی فہرست پر نظر دوڑا لیں۔ اسّی فیصد پختون ہی ان حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ انڈیا کی شہ پر پاکستان پر حملہ کیا گیا، ویسے انہی سے پوچھ لیتے کہ آخری جنگ میں پاکستان نے ان کا کیا حال کیا ہے۔؟ ہم بنئے کی فطرت کو جانتے ہیں، وہ خود نہیں لڑتا، کسی اور کو آگے کر دیتا ہے۔ اسی لیے اس نے ہمیشہ سکھوں کو ہم سے لڑایا ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان پر عمل نہیں ہوگا۔ جو لوگ خانہ کعبہ میں معاہدہ کریں اور وطن پہنچنے پر پھر جائیں، وہ ہمارے ساتھ معاہدے کے پاسداری نہیں کریں گے۔؟ اس لیے بطاہر یہ لگ رہا ہے کہ معاملہ طول کھینچے گا۔ پاکستان کی ریاستی پالیسی سے لگ رہا ہے کہ ادارے لمبی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بغیر کسی ابہام کے بالکل واضح کر دیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو جنگ ہوگی۔ بلی چوہے کا کھیل نہیں چلے گا اور دو بدو مقابلہ ہوگا۔ جو میں نے لکھا یہ میری خواہش نہیں تجزیہ ہے اور جو ہوتا نظر آرہا ہے، اس پر میری رائے تھی۔ خواہش کا پوچھتے ہیں تو ہمارے دوست جناب ہمدرد حسینی جو پی ٹی آئی کے رہنماء اور عمران خان پر ایک کتاب کے مصنف پختون لکھاری اور دانشور ہیں، اس پوری صورتحال پر بہت ہی اچھا تجزیہ کیا ہے۔ ہماری خواہش بھی یہی ہے: افغان حکومت کی اصل کامیابی جنگ سے بچ کر تعمیر و ترقی یقینی بنانے میں ہے۔
ایک عرب مہمان کیلئے بیس برس کی جنگ اپنے ملک پر لادنا خلاف حکمت کام تھا۔ دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرانی چاہیئے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ اس وقت ساری توجہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود پر مرکوز کی جائے، بین الاقوامی برادری کے خدشات دور کیئے جائیں اور خصوصاً عورتوں کی تعلیم پر پابندی سے گریز کیا جائے، کیونکہ یہ قدم انہیں پہلے ہی بیرونی دنیا میں غیر مقبول بناچکی ہے اور اندرون ملک بھی انہیں زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ جنگ ان کے مفاد میں نہیں، بلکہ دونوں طرف کے مسلمانوں کی مشکلات بڑھانے کا سبب ہے۔ چند ہزار جنگجووں کو سمجھایا جاسکتا ہے، انہیں مصروف رکھنے کیلئے کوئی کام حوالہ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بندوق لے کر کوئی اور ذمہ داری تھمائی جاسکتی ہے، نہ ماننے کی صورت میں ان سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ بہرحال ایک آزاد، خود مختار، پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان اس خطے کیلئے بہت اہم ہے۔ حسینی صاحب سے بہت اختلاف رہتا ہے، مگر یہاں ہماری یہی خواہش ہے، مگر وہاں سے اٹک تک قبضے کے لیے یلغار کے نعرے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔