data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وہیل کو آج ہم سمندر کی عظیم مخلوق کے طور پر جانتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کبھی وہیل کے پاؤں بھی ہوا کرتے تھے؟

مصر کے صحرائی علاقے میں موجود وادی الحتان، جسے دنیا ’’وہیل ویلی‘‘ کے نام سے جانتی ہے، میں حالیہ برسوں میں ہونے والی حیران کن دریافتوں نے یہ حقیقت دنیا کے سامنے رکھ دی ہے کہ وہیل کا سفر زمین سے سمندر تک ایک شاندار ارتقائی کہانی ہے۔

مصری صحارا میں واقع اس تاریخی مقام پر اب تک 400 سے زائد قدیم وہیل کے ڈھانچے دریافت کیے جاچکے ہیں، جو آخری Eocene دور یعنی 33.

9 ملین سے 55.8 ملین سال پہلے کے درمیان اس علاقے کے ٹیتھیس سمندر کے نیچے ڈوب جانے کے بعد وہاں دفن ہوئے۔ یونیسکو کے مطابق یہاں سے ملنے والے فوسلز اس بات کا ثبوت ہیں کہ موجودہ سمندری ممالیہ وہیل کبھی خشکی پر رہنے والے جانور تھے، جنہوں نے ارتقا کے دوران پانی میں رہائش اختیار کی۔

وہیل ویلی کی پہلی بڑی دریافت 1902 میں ہوئی جب سائنسدانوں نے وہیل کی ایک نامعلوم نسل کا پتہ لگایا، جس نے قدیم حیاتیات کی تحقیق میں نئی راہیں کھولیں۔ اس مقام کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب 2019 کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہاں ملنے والی قدیم وہیل کی لمبائی تقریباً 60 فٹ تھی اور وہ ممکنہ طور پر چھوٹی وہیلوں کا شکار کرتی تھی، انہیں نگلنے سے پہلے ان کی کھوپڑی کو چبا ڈالتی تھی۔

برلن میوزیم آف نیچرل ہسٹری سے وابستہ سمندری ممالیہ کی ماہر اور 2019 کی تحقیق کی مرکزی مصنف مانجا ووس کے مطابق اس قدیم وہیل کی تھوتھنی لمبی اور اس کے جبڑے تیز دانتوں سے لیس تھے، جس کی مدد سے وہ شکار کو گرفت میں لے کر آسانی سے کھا سکتی تھی۔

یہ حیرت انگیز دریافتیں نہ صرف زمین کی قدیم تاریخ کو جاننے کا ذریعہ ہیں بلکہ ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد دیتی ہیں کہ ارتقا کے عمل نے کس طرح ایک خشکی پر رہنے والے جانور کو سمندر کی گہرائیوں کا شہنشاہ بنا دیا۔ وہیل ویلی آج بھی محققین اور ماہرین حیاتیات کے لیے ایک ایسی لیبارٹری بنی ہوئی ہے جہاں ماضی کی تہیں کھل کر ارتقا کی کہانی سناتی ہیں۔

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

انسان کا جسم روشنی خارج کرتا ہے جو موت آتے ہی ختم ہو جاتی ہے، نئی تحقیق

لاہور:

کیلگری یونیورسٹی کینیڈا کے سائنس دانوں نے خصوصی کیمروں کی مدد سے یہ تحیّر خیز دریافت کر لی کہ ہر انسان کا جسم مدہم روشنی خارج کرتا ہے جو موت آتے ہی ختم ہو جاتی ہے تاہم یہ ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ یوں صوفیا کا یہ دعویٰ سچ نکلا کہ انسان روشنی کا ’’ہالہ‘‘ (اورا) رکھتا ہے۔

ماہرین نے اْسے ’’Ultra weak photon  emission‘‘  کا نام دیا ہے جو طبّی طور بھی اہم ہے۔

ماہرین کے بقول ہمارا جسمانی نظام ’’ری ایکٹوآکسیجن مالیکول‘‘پیدا کرتا ہے جب روشنی میں ان مالیکولز کی تعداد بڑھ جائے تو سمجھیے کہ انسان اسٹریس میں ہے اور اس کو علاج درکار ورنہ صحت متاثر ہو گی۔

انوکھا انکشاف یہ کہ حالت اِسٹریس میں انسان سے پھوٹتی روشنی زیادہ چمکدار ہو جاتی۔ ممکن ہے تب حقیقی روحانی بزرگ یہ روشنی دیکھ لیتے ہوں اور یوں نظریہ ہالہ وجود میں آیا۔

متعلقہ مضامین

  • اطالوی مصور کا قدیم فن پارہ ساڑھے 11 ارب روپے میں نیلام
  • آزادکشمیر : جہلم ویلی میں کلائوڈ برسٹ ، متعدد مکان تباہ، گاڑیاں اور موٹرسائیکل متاثر
  • گلیشیئرز کا پگھلاؤ آتش فشانی دھماکوں میں شدت کا باعث بن سکتا ہے، تحقیق میں انکشاف
  • حیدرآباد ،قدیم قربرستان کچراکنڈی میں تبدیل،نوٹس لیا جائے،شہری
  • انسان کا جسم روشنی خارج کرتا ہے جو موت آتے ہی ختم ہو جاتی ہے، نئی تحقیق
  • تحقیق میں ایشیا کی برتری
  • ڈائنوسار کے رشتے دار دیوہیکل پرندوں سے متعلق دلچسپ حقائق دریافت
  • مظفرآباد: جہلم ویلی میں اسکول وین کھائی میں گر گئی، 26 بچے زخمی
  • اسلام آباد: عدالت کا 27 مشہور یوٹیوب چینلز فوری بلاک کرنے کا حکم