Jasarat News:
2025-07-09@00:51:08 GMT

تحقیق میں ایشیا کی برتری

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

فی زمانہ کسی بھی ملک کی ترقی اور برتری کا مدار اِس بات پر ہے کہ اُس نے فطری علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بنائے رکھنے کا اہتمام کس قدر کیا ہے۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت ہی اب اِس بات کا فیصلہ کرتی ہے کون سا ملک کس طور محض زندہ رہے گا اور کون سا ملک بہت آگے جائے گا، دوسروں کو بھی راہ دکھائے گا۔ فطری اور سماجی علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بنانے کے لیے تحقیق پر بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور اِس عمل کو جاری بھی رکھنا پڑتا ہے۔ آج کے تمام ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی برتری صرف اِس بات میں ہے کہ وہ تحقیق و ترقی کا عمل کس طور جاری رکھتے ہیں اور اِس معاملے میں فنڈنگ کے حوالے سے کہاں تک جاتے ہیں۔ چند عشروں کے دوران چین اور دیگر بہت سے ایشیائی ممالک بہت تیزی سے ابھرے ہیں اور اُنہوں نے باقی دنیا کو ٹف ٹائم دینا شروع کردیا ہے۔ چین اِس معاملے میں بہت نمایاں ہے۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک فطری اور سماجی علوم میں کس قدر پیش رفت کی ہے اور خود کو کس حد تک منوایا ہے۔
فطری علوم و فنون کے حوالے سے چین کا مقام اِس قدر خاصا بلند ہے۔ عالمی معیار کی تحقیق میں چین اپنا حصہ دھیرے دھیرے بڑھاتا رہا ہے۔ اب اِس عمل کی رفتار بہت بڑھ چکی ہے۔ چین کی قیادت اور اہم سرکاری ادارے جدید علوم اور اُن سے متعلق ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کا گراف بلند کرتے جارہے ہیں۔ نیچر انڈیکس ریسرچ لیڈرز کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۴ میں چین علوم و فنون سے متعلق تحقیق کے میدان میں بہت نمایاں اور آگے رہا۔ ساتھ ہی ساتھ دوسرے کئی ایشیائی ممالک بھی تحقیق کے میدان میں اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ چین دیگر رینکنگز میں بھی نمایاں ہوتا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فطری علوم و فنون میں اُس کے اثرات کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ مغربی دنیا کے بیش تر ادارے تحقیق و ترقی کے شعبے میں خاصی غیر متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ رینکنگز میں بھی بہت پیچھے ہیں اور فنڈنگ میں بھی۔ ایسے میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اعلیٰ درجے کی علمی و فنی تحقیق کا مرکز مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ نیچر انڈیکس ریسرچ لیڈرز کی رینکنگ فطری علوم و فنون کے علاوہ صحت و تعلیم اور دیگر سماجی شعبوں میں کے ۱۴۵ عالمی شہرت یافتہ اور کامیاب جرائد میں شایع ہونے والے مقالوں کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔ ۲۰۲۳ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اِس رینکنگ میں چین نے امریکا کو پیچھے چھوڑ کر ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔ پانچ سال میں چین نے بہت تیزی سے اپنے معاملات کو درست ہی نہیں کیا بلکہ بہتر بھی بنایا ہے۔ چین کی کارکردگی میں رونما والی بہتری کا یہ حال ہے کہ اُس نے صرف ایک سال میں اپنی اعلیٰ درجے کے تحقیقی مقالوں کی تیاری کے حوالے سے اپنی کارکردگی چار گنا کی ہے۔ ۲۰۲۳ کے مقابلے میں اُس کے مقالوں کی تعداد میں ۱۷ فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ چین نے رواں سال عالمی معیار کے جرائد میں ۳۲۱۲۲ تحقیقی مقالے شایع کروائے ہیں۔
شمال مشرقی اور جنوبی ایشیا خود کو فطری و سماجی علوم و فنون کے شعبے میں پیش رفت کے حوالے سے خوب منوا رہا ہے۔ نیچر انڈیکس رینکنگ میں ایشیائی ادارے پہلے ۱۰ میں سے ۸ مقامات پر ہیں۔ گزشتہ برس پہلے ۱۰ میں سے ۷ تھے۔ اس بار رینکنگ میں دی چائنا اکیڈمی آف سائنسز کا پہلا نمبر ہے۔ دی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنا تیسرے نمبر پر ہے۔ چین ہی کی شی ژیانگ یونیورسٹی چوتھے نمبر پر ہے۔
ورلڈ انٹیلیکچوئل پراپرٹ آرگنائزیشن کی سرپرستی میں جاری کیے جانے والے گلوبل انوویشن انڈیکس میں مسلسل دوسرے سال چین کا پہلا نمبر ہے۔ یہ رینکنگ ۱۰۰ سے زائد ٹیکنالوجی کلسٹرز میں کی جانے والی تحقیق اور پیش رفت کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔ ان میں سے ۲۶ کلسٹرز میں چین کی کارکردگی غیر معمولی اور نمایاں ہے۔ چین نے ایک عشرے کے دوران ٹیکنالوجی میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بناکر اپنی معیشت کو قابل ِ رشک حد تک مستحکم کردیا ہے۔ چین نے تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں خاصی ذہانت کے ساتھ سرمایہ کاری کی ہے۔ چینی قیادت نے اس بات کو اچھی طرح سمجھا ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو دوسروں کے ساتھ مل کر چلنا پڑے گا، اشتراکِ عمل یقینی بنانا پڑے گا۔ تحقیق کے میدان میں جنوبی کوریا، بھارت، سنگاپور اور دوسرے ایشیائی ممالک بھی اپنے آپ کو نمایاں کر رہے ہیں۔ بھارت سے آنے والے اعلیٰ معیار کے تحقیقی مقالوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ جنوبی کوریا بھی تحقیق کی مد میں خوب خرچ کر رہا ہے اور اِس کے نتیجے میں اُس کی معیشت کا اچھا فیڈ بیک مل رہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فطری علوم و فنون اور چند ایک سماجی معاملات میں تحقیق کے حوالے سے جاپان پیچھے رہ گیا ہے۔ جاپان کے تعلیمی ادارے تحقیق پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے اور اِس مد میں کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں کر رہے۔ جاپان نے ایک زمانے تک تحقیق و ترقی پر غیر معمولی توجہ دی اور اُس کا پھل کھایا۔ اب شاید اُن کا معاملہ سیچیوریشن پوائنٹ تک پہنچ چکا ہے۔ بہت زیادہ کام کرنے اور ترقی کے پیچھے بھاگتے رہنے سے وہ اُوب سے گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اِن تمام معاملات سے پیچھے ہٹ کر زندگی بسر کرنے میں بھی دلچسپی لیں۔ (www.

visualcapitalist.com)

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فطری علوم و فنون علوم و فنون میں ایشیائی ممالک کے حوالے سے میں پیش رفت غیر معمولی مقالوں کی تحقیق کے رہے ہیں میں بھی ہیں اور میں چین اور ا س ہے کہ ا چین نے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

مریخ پر زندگی کی تلاش: ناسا کے تازہ ترین انکشافات کی کہانی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سائنس کی دنیا میں مریخ پر زندگی کے امکان پر ہونے والی بحث نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ ناسا کے حالیہ تحقیقی نتائج نے سرخ سیارے کے بارے میں کئی دیرینہ سوالات کے جواب دیے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے سائنسدان ڈاکٹر ایڈون کائٹ کی قیادت میں کی گئی اس تحقیق نے مریخ کے ماضی اور موجودہ حالات کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مریخ نے اپنے ارتقائی سفر میں مختصر مدتی نمی کے دورانیے ضرور دیکھے ہیں، لیکن یہ سیارہ بنیادی طور پر ایک خشک اور زندگی کےلیے بنجر دنیا رہا ہے۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’مریخ پر پانی کے وجود کے ثبوت تو موجود ہیں، لیکن یہ کبھی بھی زمین جیسا مستقل اور پائیدار آبی ماحول نہیں رہا‘‘۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں مریخ کی چٹانوں کے نمونوں اور زمینی ماڈلز کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق مریخ پر پانی کے بہاؤ کے شواہد ضرور ملتے ہیں، لیکن یہ واقعات وقتی اور مقامی نوعیت کے تھے۔ ڈاکٹر کائٹ اس کا موازنہ صحرا میں کسی نخلستان سے کرتے ہیں جو ایک محدود اور عارضی کیفیت ہوتی ہے۔

زمین اور مریخ کے ماحولیاتی نظاموں میں بنیادی فرق کو واضح کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ جہاں زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا توازن برقرار رہتا ہے، وہیں مریخ پر یہ نظام کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکا۔ مریخ کے آتش فشانی نظام کے کمزور ہونے سے یہاں کا درجہ حرارت ہمیشہ کم رہا، جس کے نتیجے میں پانی طویل عرصے تک سطح پر موجود نہ رہ سکا۔

حالیہ برسوں میں ناسا کے کیوروسٹی روور اور دیگر مشنز نے مریخ کی سطح پر کاربونیٹ معدنیات کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔ یہ معدنیات زمین پر چونے کے پتھروں کی طرح فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہیں۔ اس دریافت نے سائنسدانوں میں اس خیال کو تقویت دی ہے کہ شاید ماضی میں مریخ کا ماحول زندگی کےلیے زیادہ موزوں رہا ہو۔

فلکیاتی تحقیق کے موجودہ دور میں مریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر کائٹ کہتے ہیں کہ ’’مریخ ہمارے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ زمین کے قریب ترین سیارہ ہے جہاں سے ہم نمونے لے کر ان کا زمین پر تجزیہ کرسکتے ہیں‘‘۔

اگرچہ اب تک کی تحقیق سے مریخ کی سطح پر زندگی کے موجودہ یا ماضی کے ثبوت نہیں ملے ہیں، لیکن سائنسدان زیر زمین پانی کے ذخائر میں زندگی کے آثار کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’اگر ہم مریخ سے نمونے زمین پر لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو ہم اس بنیادی سوال کا جواب دے سکیں گے کہ کیا زمین کے علاوہ کسی اور جگہ زندگی موجود ہے‘‘۔

یہ تحقیق نہ صرف مریخ کے ماضی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی، بلکہ یہ ہمیں یہ جاننے میں بھی معاون ہوگی کہ کائنات میں زندگی کا ظہور ایک عام واقعہ ہے یا پھر ایک نایاب اور منفرد عمل۔ جیسے جیسے ہماری تحقیق آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہم کائنات اور اس میں زندگی کے مقام کو بہتر طور پر سمجھ پا رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • انسان کا جسم روشنی خارج کرتا ہے جو موت آتے ہی ختم ہو جاتی ہے، نئی تحقیق
  • کاربوہائیڈریٹس کا کم استعمال خطرناک دماغی بیماری سے بچا سکتا ہے
  • بھارتی روپیہ ایشیا کی بدترین کرنسیوں میں شامل؛ مودی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے
  • 1500 سال پرانا قرآن مجید، ایشیا کی دوسری بڑی لائبریری پاکستان کا فخر
  • زیتون کے تیل سے ہڈیاں مضبوط: نئی تحقیق میں دلچسپ اور کارآمد معلومات
  • امریکی A-10 تھنڈر بولٹ طیارے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کی فضائی نگرانی پر مامور
  • مریخ پر زندگی کی تلاش: ناسا کے تازہ ترین انکشافات کی کہانی
  • انڈر 18 ہاکی ایشیا کپ: پاکستان کی شاندار کارکردگی، سری لنکا کو 0-9 سے عبرتناک شکست
  • پاکستان نے انڈر 18 ہاکی ایشیا کپ میں ہانگ کانگ کو شکست دیدی