Express News:
2025-07-10@03:34:19 GMT

کتے اور بلیوں کے مالکان کی انوکھی خواہش

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

ایک سروے میں معلوم ہوا ہے کہ کتے اور بلیوں کے مالکان کی تقریباً نصف تعداد مستقبل میں ایسی ٹیکنالوجی چاہتی ہے جو ان کے پالتو جانوروں کی زبان کا ترجمہ کر سکے۔

سروے کے مطابق 10 میں سے چار مالکان ایسے ٹیکنالوجی چاہتے ہیں جو ان کے کتوں کے بھونکنے اور بلیوں کے میاؤں کرنے کا ترجمہ کرنے میں مدد گار ہو۔

2000 افراد پر کیے جانے والے سروے میں معلوم ہوا کہ وہ مستقبل میں اسمارٹ واچ اور خودکار دانتوں کے برش جیسی ڈیوائسز سمیت اپنے پالتوؤں کے لیے ٹیکنالوجیکل جدت کے حوالے سے پُرامید ہیں۔

20 فی صد افراد کا کہنا تھا کہ وہ ایسی ڈیوائس چاہتے ہیں جس سے وہ اپنے کتے یا بلی سے ان کی صحت کے متعلق پوچھ سکیں جبکہ 17 فی صد یہ جاننا چاہتے تھے کہ ان کو معلوم ہو کہ ان کے جانور کتنے خوش یا ناخوش ہیں۔

سروے میں 34 فی صد افراد نے جانوروں کا فضلا اٹھانے والی خودکار ڈیوائس، 13 فی صد نے اپنے پالتوؤں کے  ساتھ دوستی کے لیے اے آئی جانور جبکہ 29 فی صد نے اینگزائٹی اور جذباتی سہارے کے حوالے سے بتایا۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس خطرناک بیماری کا ممکنہ سبب قرار

سائنس دانوں کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ برسوں سے بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس پارکنسنز (رعشے) بیماری کا ایک ممکنہ سبب ہو سکتا ہے۔

نارتھ ویسٹرن میڈیسن سے تعلق رکھنے والےتحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر آئگر کورلِنک نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ سائنس دان ممکنہ ماحولیاتی عوامل (جیسے کہ وائرسز) جو اس بیماری میں حصہ ڈال سکتے ہیں کی تحقیق کرنا چاہتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ کہ تحقیق میں انہوں نے ’وائرو فائنڈ‘ نامی ٹول سے رعشے کے مریضوں اور اس بیماری سے پاک افراد کی اموات کے بعد دماغ کے حاصل شدہ بافتوں کا جائزہ لیا۔ جائزے میں انسانوں کو متاثر کرنے والے اب تک کے معلوم تمام وائرسز کو دیکھا گیا تاکہ دونوں گروہوں کے درمیان کسی فرق کی نشان دہی کی جا سکے۔

جائزے میں سائنس دانوں نے رعشے کے مریضوں کی نصف تعداد کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گودے میں ہیومن پیگی وائرس کی نشان دہی کی۔ یہ وائرس ہیپاٹائٹس سی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور خون کے ذریعے پھیلتا ہے۔

جرنل جے سی آئی انسائٹ میں شائع ہونے والی تحقیق اس پیچیدہ بیماری کے کچھ مزید عوامل کو واضح کرنے میں اہم کامیابی ثابت ہو سکتی ہے اور ماضی میں بے ضرر سمجھے جانے والے وائرس کے متعلق نئی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر آئگر کا کہنا تھا کہ HPgV ایک عام علامت کے بغیر انفیکشن ہے جس سے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مسلسل دماغ کو متاثر کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شہداد پور: مسلح شخص کے حملے میں ایک دکاندار زخمی
  • بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس خطرناک بیماری کا ممکنہ سبب قرار
  • گجرات میں 40 سال پرانے پل کا حصہ گر گیا، 10 افراد ہلاک، متعدد گاڑیاں دریا برد
  • کاربوہائیڈریٹس کا کم استعمال خطرناک دماغی بیماری سے بچا سکتا ہے
  • پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نے بات چیت شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی: بیرسٹر گوہر
  • بھارت سے شکست پر بین اسٹوکس کی انوکھی منطق، انگلش شائقین برہم
  • دعوت میں ساس سسر سمیت تین افراد کو زیریلا کھانا کھلا کر قتل کرنے والی خاتون بارے بڑی خبر آگئی
  • ’میری خواہش ہے کہ اپنے بچوں کو پاکستان لے جاسکوں‘، شاہ رخ خان کی ویڈیو وائرل
  • کوئٹہ، عزاداروں پر پتھراؤ کرنیوالے شرپسندوں کیخلاف مقدمہ درج