محرم الحرام،سائبر پیٹرولنگ سیل سے 1600 سے زائد منافرت پھیلانے والے اکاؤنٹ رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
کابینہ کمیٹی نے لاہور میں اسلامپورہ، شادمان اور کینٹ کے جلوسوں کی لائیو مانیٹرنگ کی۔ چیئرمین کابینہ کمیٹی برائے امن و امان و صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ تمام اضلاع، داخلی و خارجی راستوں پر کڑی نگرانی اور فول پروف سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت پنجاب کی اولین ترجیح ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کابینہ کمیٹی برائے امن و امان نے محکمہ داخلہ کے مرکزی کنٹرول روم کا دورہ کیا اور صوبہ بھر میں 9 اور 10 محرم الحرام کے انتظامات و صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ چیئرمین کابینہ کمیٹی خواجہ سلمان رفیق کی قیادت میں صوبائی وزراء بلال یاسین اور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن بھی محکمہ داخلہ پہنچے۔ کابینہ کمیٹی نے پنجاب بھر میں جاری جلوسوں کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے لائیو مانیٹرنگ کی۔ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے پنجاب بھر کی صورتحال کےبارے میں بریفنگ دی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ پولیس کے 1 لاکھ 13 ہزار افسران و جوان سکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔ محکمہ داخلہ کے سائبر پیٹرولنگ سیل سے 1600 سے زائد منافرت پھیلانے والے اکاؤنٹ رپورٹ کیے گئے۔ اب تک سوشل میڈیا پر فرقہ واریت پھیلانے والے 170 افراد گرفتار کیے گئے اور مقدمات کا اندراج کیا گیا ہے۔
کابینہ کمیٹی نے لاہور میں اسلامپورہ، شادمان اور کینٹ کے جلوسوں کی لائیو مانیٹرنگ کی۔ چیئرمین کابینہ کمیٹی برائے امن و امان و صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ تمام اضلاع، داخلی و خارجی راستوں پر کڑی نگرانی اور فول پروف سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت پنجاب کی اولین ترجیح ہے۔ سائبر کرائم اور نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کیخلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے کہا کہ بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کیلئے علمائے کرام سے قریبی رابطہ قائم ہے اور تمام ادارے باہمی رابطے سے امن و امان برقرار رکھنے میں متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔
صوبائی وزیر ہاؤسنگ و اربن ڈویلپمنٹ بلال یاسین نے کہا کہ صوبہ بھر میں پولیس، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو، صحت اور صفائی کے محکمے الرٹ اور مکمل ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں۔ محکمہ داخلہ کا مرکزی کنٹرول روم پنجاب بھر کے ضلعی کنٹرول رومز سے منسلک ہے اور اس مؤثر نظام کی بدولت تمام اضلاع سے رئیل ٹائم مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ سیکرٹری داخلہ پنجاب ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے ہدایت کی کہ تمام عزاداروں کی بحفاظت واپسی تک ڈیوٹی پر مامور افسران فیلڈ میں مستعد رہیں۔ سپیشل سیکرٹری داخلہ فضل الرحمان، کمشنر لاہور زید بن مقصود، ایڈیشنل سیکرٹری انٹرنل سیکیورٹی و دیگر حکام بھی موجود تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کابینہ کمیٹی مانیٹرنگ کی محکمہ داخلہ نے کہا کہ کیے گئے
پڑھیں:
سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کا خطرناک پھیلاؤ، 24 گھنٹوں میں 33 ہزار سے زائد مریض رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے حکام اور صحت کے شعبے کے لیے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں بخار، جلدی امراض، آشوب چشم، ڈائریا، سانپ اور کتے کے کاٹنے کے 33 ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوئے ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں مجموعی طور پر مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 55 ہزار تک جا پہنچی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک دن کے دوران سانس کی تکلیف کے شکار 5 ہزار افراد، بخار سے متاثرہ 4300، جلدی الرجی کے 4 ہزار اور آشوب چشم کے 700 مریض سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائریا کے 1900 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ سانپ کے کاٹنے کے 5 اور کتے کے کاٹنے کے 20 واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 405 مستقل طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں اب تک 2 لاکھ 79 ہزار سے زائد مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا جا چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ ان کیمپوں میں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن بیماریوں کے تیزی سے پھیلاؤ نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی وسائل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جبکہ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور طبی امداد کے لیے قریبی کیمپوں سے رجوع کریں۔
یہ صورتحال نہ صرف صحت کے شعبے بلکہ امدادی اداروں کے لیے بھی ایک امتحان ہے، کیونکہ متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے۔