اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 جولائی 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان اور ایران سے بڑی تعداد میں واپس آنے والے افغان پناہ گزینوں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے مزید امدادی وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں سمیت واپس آنے والے بیشتر لوگوں کے پاس معمولی زاد راہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

انہیں ہنگامی طبی مدد، خوراک اور پناہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادارے کی طبی ٹیموں نے بتایا ہے کہ پناہ گزینوں میں بہت سے لوگ زخموں، انفیکشن، پانی کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں جنہیں ضروری مدد پہنچانے کے لیے اضافی وسائل کی ضرورت ہے۔ Tweet URL

رواں سال اپریل کے بعد ایران اور پاکستان سے تورخم، اسلام قعلہ، میلاک اور سپن بولدک سمیت کئی سرحدی راستوں سے 836,000 سے زیادہ لوگوں کی واپسی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

پناہ گزینوں کے طبی مسائل

'ڈبلیو ایچ او' کی مدد سے سرحدی راستوں اور پناہ گزینوں کی وصولی کے مقامات پر 84 ہزار سے زیادہ لوگوں کو بنیادی طبی خدمات فراہم کی گئی ہیں۔ تورخم کے سرحدی راستے پر ہی 850 افراد کو زخموں کا علاج فراہم کیا جا چکا ہے۔ ادارے نے بچوں کو پولیو اور خسرے سمیت مختلف ویکسین کی ایک لاکھ 98 ہزار خوراکیں دی ہیں اور اس طرح انہیں قابل انسداد بیماریوں کے خلاف تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

افغانستان میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر ایڈون سینیزا سلواڈور نے کہا ہے کہ مائیں، بچے اور معمر افراد بے یقینی کی حالت میں واپس آ رہے ہیں جن میں بہت سے لوگوں کو صحت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ادارہ انہیں مدد پہنچانے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ مزید ہنگامی امداد کے بغیر ایسے اقدامات کی صلاحیت میں کمی آںے کا خدشہ ہے جن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

طبی خدمات پر بڑھتا بوجھ

'ڈبلیو ایچ او' پناہ گزینوں کی آمد کے راستوں پر 17 متحرک طبی ٹیمیں تعینات کر چکا ہے جبکہ متعدد طبی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ان جگہوں پر 394,000 لوگوں کا طبی معائنہ ہو چکا ہے۔ ان لوگوں کے لیے بنیادی طبی نگہداشت، محفوظ زچگی، زچہ بچہ کی صحت، نفسیاتی مدد اور ذہنی صحت سے متعلق خدمات کی اشد ضرورت ہے جبکہ پینے کے صاف پانی اور ضروری ادویات تک رسائی کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔

ایران کے ساتھ سرحدی راستے اسلام قلعہ اور میلاک میں امدادی خدمات پر بوجھ حد سے بڑھ گیا ہے جہاں خاطرخواہ تعداد میں ایمبولینس گاڑیوں اور خواتین مریضوں کے لیے الگ جگہوں کا فقدان ہے جبکہ عملے کی بھی کمی ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' نے آئندہ تین ماہ کی امدادی ضروریات کے لیے 20 لاکھ ڈالر خرچ کرنے کی مںصوبہ بندی کی ہے۔تاہم، ادارے کا کہنا ہے کہ اضافی وسائل کے بغیر بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے، ہنگامی طبی نگہداشت اور زچہ بچہ کو فراہم کی جانے والی طبی خدمات متاثر ہوں گی۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او پناہ گزینوں فراہم کی کے لیے

پڑھیں:

چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی وفد نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی تاکہ امریکی صنعت کے لیے محفوظ اور شفاف معدنی سپلائی چینز قائم کرنے کے امکانات پر بات کی جاسکے، کیونکہ واشنگٹن کی عالمی نایاب معدنیات پر چین کی بالادستی کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی وفد کی سربراہی رابرٹ لوئس اسٹریئر دوم کر رہے تھے، جو امریکی حکومت کے تعاون سے قائم کردہ کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کے صدر ہیں۔

سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون کے امکانات، سپلائی چین کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور پاکستان کے کریٹیکل منرلز کے شعبے میں ذمہ دار اور پائیدار سرمایہ کاری کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب امریکا اور بھارت نے دفاعی تعاون کے لیے 10 سالہ فریم ورک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔

کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کی توجہ اسٹریٹجک خطرے پر مرکوز ہے، جو بیجنگ کے ان وسائل پر کنٹرول سے پیدا ہوا ہے، اسٹریئر نے سی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپنے واحد مضمون میں لکھا کہ ’چین کا کریٹیکل منرل سپلائی چینز پر غلبہ امریکی قومی سلامتی، اقتصادی مسابقت اور طویل المدتی اسٹریٹجک مقاصد کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے‘۔

اسٹریئر نے پاکستان کو بتایا کہ سی ایم ایف دنیا بھر، خصوصاً ابھرتی ہوئی منڈیوں میں امریکی صنعت کے لیے قابلِ اعتماد سپلائی چینز کے قیام پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فورم کی توجہ نایاب اور مخصوص دھاتوں پر مرکوز ہے جن میں تانبا اور اینٹیمونی شامل ہیں اور اس کا مقصد مالی اور سلامتی کے نقطہ نظر سے سرمایہ کاری کے خطرات کو کم کرنا ہے۔

انہوں نے ٹیکنالوجی کی منتقلی، دانشورانہ املاک کے تحفظ اور امریکی نجی سرمایہ کاروں کے اعتماد کے فروغ کے لیے تعاون کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

بیان کے مطابق اسٹریئر نے اعتراف کیا کہ امریکا، پاکستان کے سائنس، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں موجود ٹیلنٹ کو ایک مسابقتی برتری سمجھتا ہے اور پاکستان کو مستقبل میں کریٹیکل منرلز کی ترقی کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

وفد کے ہمراہ موجودہ اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ پاکستان میں امریکی تجارتی مصروفیات کی حمایت کرتا ہے اور معدنیات کے شعبے میں مضبوط سرمایہ کار اعتماد اور مؤثر ریگولیٹری فریم ورک کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

جواب میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان اہم قانونی و ضابطہ جاتی اصلاحات پر کام کر رہا ہے اور منظم تجاویز کا خیرمقدم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ تعاون کے لیے ایک تفصیلی فریم ورک کے ساتھ واپس آئیں، پاکستان اسے ذمہ دار سرمایہ کاری اور باہمی مفاد کو یقینی بنانے کے تناظر میں جانچے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں توازن قائم کر رہا ہے اور اپنی مضبوط شراکت داریوں کو اجاگر کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آج عالمی تعلقات کے ایک تعمیری موڑ پر کھڑا ہے، پاکستان۔امریکا تعلقات میں نئی جان، چین کے ساتھ آزمودہ تعلقات اور سعودی عرب کے ساتھ تعاون اس کی مثال ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کا معدنی شعبہ ایک انقلابی موقع فراہم کرتا ہے، جو معیشت کو ’کھپت پر مبنی چکروں سے برآمدات پر مبنی ترقی‘ کی طرف منتقل کر سکتا ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ایک مضبوط معدنیات پالیسی فریم ورک پاکستان کو بار بار آنے والے مالیاتی خسارے کے دباؤ سے نکالنے اور مستقبل میں کثیرالجہتی اداروں پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا۔

وفاقی وزیر نے وفد کو بتایا کہ انہوں نے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران کئی عالمی مالیاتی اداروں، بشمول دیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) سے ملاقات کی، جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

امریکی فریق نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ چین عالمی کریٹیکل منرلز پر اپنا کنٹرول تیزی سے بڑھا رہا ہے۔

رابرٹ لوئس اسٹریئر نے کہا کہ چین کی بالادستی، خاص طور پر معدنیات کی پراسیسنگ میں سرکاری سبسڈی، عمودی انضمام اور کمزور ماحولیاتی ضوابط کی بدولت ہے، جو توانائی اور تعمیل پر مبنی شعبہ ہے، اس کے برعکس امریکا نے اس میدان میں کم سرمایہ کاری کی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کے مطابق، کریٹیکل منرلز جدید معیشت اور ریاستی طاقت کی بنیاد ہیں، توانائی، دفاع اور تجارتی ٹیکنالوجیز کے لیے ناگزیر ہیں، یہ مواد لڑاکا طیاروں کے لیے مقناطیسی پرزوں سے لے کر برقی گاڑیوں کی بیٹریوں تک استعمال ہوتے ہیں۔

کونسل نے خبردار کیا کہ ان سپلائی چینز میں ’نہایت نازکیت‘ پیدا ہو چکی ہے، جو چند ممالک تک محدود ہیں، زیادہ تر چین میں ریفائن ہوتی ہیں اور شدید موسمیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔

مزید کہا گیا کہ چین نے اپنی بالادستی کو ’ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی آمادگی‘ دکھائی ہے، جیسا کہ اس نے امریکا کے تجارتی کنٹرول کے جواب میں گریفائٹ اور اینٹیمونی جیسے مواد پر برآمدی پابندیاں سخت کر دی ہیں۔

تاہم رابرٹ لوئس اسٹریئر نے تسلیم کیا کہ امریکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداواری لاگت اور معدنی قیمتوں میں غیر معمولی و غیر یقینی صورتحال ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ غیر یقینی صورتحال ’منفعت کے خواہشمند سرمایہ کاروں کے لیے ایک سرد اثر ‘ رکھتی ہے، کیونکہ سرمایہ کار ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جن میں خطرے کے مقابلے میں متوقع منافع زیادہ ہو۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے
  • پاکستان سے اب تک 8لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے
  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس
  • لاہور: رائیونڈ میں افغان مہاجرین کو رہائش دینے والے کیخلاف مقدمہ درج
  • چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی: صرف ایک دن میں 10 ہزار افراد افغانستان روانہ
  • چمن بارڈر سے ایک روزمیں 10 ہزارسے زائد افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیا گیا
  • ایک روز کے دوران صرف چمن بارڈر سے 10 ہزار افغان مہاجرین واپس اپنے وطن روانہ
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
  • چوروں کی طرح داخل ہونے والے پناہ گزین نہیں دہشت گرد ہیں، خواجہ آصف کا افغان وفد کے بیان پر رد عمل