پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ملک میں مسلسل اس قسم کے سانحات کا ہونا انتہائی تشویشناک ہے اور پبلک انفراسٹرکچر اور تحفظ کے نظام کی کمزوریوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ایک ہی دن میں راجستھان میں بھارتی فضائیہ کے طیارے کے کریش ہونے اور گجرات میں پل کے ٹوٹنے کی خبر انتہائی تکلیف دہ اور المناک ہے۔ راجستھان کے چورو ضلع میں ہندوستانی فضائیہ کا جیگوار لڑاکا طیارہ کریش ہوگیا جبکہ گجرات کے سریندر نگر ضلع میں بریج کے ٹوٹنے سے کم از کم 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ہم سبھی متاثرین کے اہل خانہ اور متعلقین سے تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی صحتیابی کے لئے دعاگو ہیں۔ پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ملک میں مسلسل اس قسم کے سانحات کا ہونا انتہائی تشویشناک ہے اور پبلک انفراسٹرکچر اور تحفظ کے نظام کی کمزوریوں کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دونوں حادثات کی شفاف اور مکمل تحقیقات کرائی جائیں، تاکہ ایسے دردناک واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مضبوط اقدامات اور ٹھوس احتیاطی تدابیر اختیار کئے جانے کی ضرورت ہے۔ راجستھان کے چورو میں آج ہندوستانی فضائیہ کا ایک طیارہ تباہ ہوگیا ہے۔ یہ حادثہ رتن گڑھ میں ہوا ہے۔ ملبے سے ایک لاش برآمد ہوئی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ لاش پائلٹ کی ہے۔ بھارتی فضائیہ کی ٹیم بھی جائے حادثہ کے لئے روانہ ہوگئی ہے۔ حادثے کی جانکاری مقامی لوگوں نے پولیس کو دی۔ جانکاری ملتے ہی پولیس کی ایک ٹیم فوراً جائے حادثہ پر پہنچ گئی تاکہ علاقے کو محفوظ کیا جاسکے اور آگے کی جانچ میں مدد مل سکے۔ فی الحال پائلٹ کی پہچان اور طیارہ سے متعلق ابھی تک کوئی باضابطہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

چورو کے رتن گڑھ تحصیل کے بارڈر گاؤں بھانودا بیدا وتان میں طیارہ تباہ ہونے کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکرالی روڈ پر چارنان محلہ کے پاس واقع بیڑ میں آسمان سے جلتا ہوا طیارہ گرا۔ اس کے تقریباً 200 فٹ کے دائرے میں جگہ جگہ پلین کے جلتے ہوئے کئی ٹکڑے گرے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ طیارہ میں سوار لوگوں کی لاش کے ٹکڑے بھی آس پاس بکھر گئے۔ بھانودا گاؤں ہی نہیں آس پاس کے گاؤں سے بھی بڑی تعداد میں گاؤں کے لوگ جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایک فائٹر پلین جلتا ہوا آکر گرا ہے، جس میں ممکنہ طور پر ایک یا دو لوگ سوار تھے۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کے تحت کراچی چلڈرن غزہ مارچ کل ہوگا
  • پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • کراچی؛ پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • غزہ کی بیاسی سالہ جنگجو مریضہ
  • باجوڑ آپریشن، چار گاؤں کلیئر ہونے کے بعد مکینوں کو واپسی کی اجازت
  • قائمہ کمیٹی : گلگت بلستان کے وزیر کا جنگلات کی کٹائی میں ملوث ہونے کا انکشاف
  • 2 ارب لوگوں کی نظریں اسلامی سربراہی اجلاس پر ہیں: اسحاق ڈار