افغان پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی ابہام کا شکار، حکومتی فیصلہ تاحال التوا کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
اسلام آباد(صغیر چوہدری)سیکیورٹی اداروں کے خدشات اور،سفارشات کے باوجود پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے حکومتی پالیسی ایک بار پھر ابہام اور مصلحت کا شکار ہوگئی ہے پروف آف رجسٹریشن(POR) کارڈز کے افغان مہاجرین سے متعلق ابتک کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا۔ حال ہی میں جاری ہونے والے ایک سرکاری مراسلے کے مطابق، PoR (Proof of Registration) کارڈز کی مدت میں توسیع کا معاملہ تاحال زیرِ غور ہے اور حتمی فیصلہ آنے تک پولیس یا،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پی او آر کے حامل افغان مہاجرین کی کسی بھی قسم کی گرفتاری یا ہراسانی سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یعنی انکا دہائیوں پرانا سٹیٹس برقرار رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں وزارت اُمور کشمیر و گلگت بلتستان و فرنٹیئر ریجنز (SAFRON) سیفران کی جانب سے جاری کردہ ہدایت نامے میں تمام متعلقہ اداروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ پی آو آر کارڈ رکھنے والے ، مہاجرین کے خلاف کوئی بھی منفی اقدام نہ اٹھایا جائے جب تک حکومت حتمی فیصلہ نہیں کرتی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر مستقل حکمت عملی کا یہ پہلا موقع نہیں کہ افغان پناہ گزینوں سے متعلق حکومت کی پالیسی میں تضاد یا ابہام سامنے آیا ہو بلکہ گزشتہ کئی ماہ سے یہ صورتحال جاری ہے ایک طرف تو حکومت افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کے اقدامات کرتی ہے،
• تو دوسری طرف عارضی مہلت یا تحفظ دینے کی ہدایات جاری کر دیتی ہے۔ذرائع کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ٹھوس اور مستقل پالیسی یا حکمتِ عملی موجود نہیں جس کے باعث نہ صرف حکومتی ادارے بلکہ متاثرہ افغان خاندان بھی شدید بےیقینی کا شکار ہیں۔ دوسری جانب بین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آتا رہتا ہے ۔مہاجرین کے حقوق کے حوالے سے قائم
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے UNHCR اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا حکومت پاکستان سے واضح پالیسی اپنانے کا مطالبہ کر چکی ہیں تاکہ پناہ گزینوں کو غیر یقینی صورتحال سے نکالا جا سکے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی جامع اور انسان دوست پالیسی تشکیل دینی چاہیے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے تقاضوں پر بھی پوری اترے، اور ملکی سلامتی و وسائل کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو دوسری جانب افغان پناہ گزینوں سے متعلق حکومتی رویہ کئی برسوں سے غیر مستقل اور وقتی فیصلوں پر مبنی رہا ہے۔ جب تک واضح اور مستقل پالیسی تشکیل نہیں دی جاتی، یہ مسئلہ ہر چند ماہ بعد نئی صورت میں سر اٹھاتا رہے گا۔دوسری جانب ہمسایہ ملک ایران سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل تیزی سے جاری ہے اور صرف جون کے مہینے میں تہران سے تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جاچکا ہے ۔۔ افغان مہاجرین کے حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف کا حالیہ بیان بھی بڑی تشویش کا باعث سمجھا جاتا ہے جس میں خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغانی پاکستان میں سب سے زیادہ غیر قانونی سرگرمیوں اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں انہوں بڑے وسیع پیمانے پر محکمہ آبپاشی کی سرکاری زمینوں پر قبضہ کررکھا ہے اس قبضے میں محکمے کے لوگ بھی ملوث ہیں
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: افغان پناہ گزینوں افغان مہاجرین کا شکار
پڑھیں:
سرحد پار دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
فائل فوٹووزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت مکمل ہم آہنگ ہے، افغانستان سے متعلق قومی پالیسی پر مکمل اتفاق رائے ہے۔
افغان طالبان کے گمراہ کن بیان پر خواجہ آصف نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان بھارتی پراکسیوں کے ذریعے دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت اندرونی دھڑے بندی اور عدم استحکام کا شکار ہے، خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر جبر افغان طالبان کا اصل چہرہ ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ طالبان چار برس بعد بھی عالمی وعدے پورے نہیں کرسکے، افغان طالبان بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی امن کے لیے ہے، پاکستان سرحد پار دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے مزید کہا کہ جھوٹے بیانات سےحقائق نہیں بدلیں گے، اعتماد عملی اقدامات سے بحال ہوتا ہے۔