غیر ملکی سرمایہ کاری میں پاکستانی بیوروکریسی اور ریگولیٹرز کی رکاوٹیں باعث تشویش: محمد اظفر احسن
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
معروف کاروباری رہنما اور سابق وزیر مملکت محمد اظفر احسن نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری سنجیدہ خطرات سے دوچار ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستانی بیوروکریسی اور ریگولیٹری اداروں کا غیر لچکدار اور منفی رویہ ہے۔
اظفر احسن کے مطابق سعودی حکومت اور نجی سرمایہ کار پاکستان میں دس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں، مگر کے-الیکٹرک میں سعودی گروپ ال جومیع کو درپیش مسائل حل نہ ہونے کے باعث اُن کے اعتماد کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم پاکستان کی اعلیٰ سطحی یقین دہانیوں کے باوجود ال جومیع گروپ کے مسائل حل نہیں ہو سکے، جس کے باعث سعودی حکومت اور سرمایہ کاروں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
اظفر احسن نے کہا، "جب تک حکومت ال جومیع گروپ کے ساتھ انصاف نہیں کرے گی اور کے-الیکٹرک میں ان کی سرمایہ کاری کے مسائل حل نہیں ہوں گے، مزید سعودی سرمایہ کاری ممکن نہیں۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر سعودی سرمایہ کار پیچھے ہٹتے ہیں تو پاکستان کی حیثیت بطور غیر ملکی سرمایہ کاری کے پرکشش ملک کے ختم ہو جائے گی، جو معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔
اظفر احسن نے بتایا کہ سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک نے پاکستان میں تعینات سفیر احمد فاروق سے ملاقات میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ال جومیع گروپ کو پاکستان میں درپیش مسائل پر سخت نوٹس لیا۔
انہوں نے کہا، "یہ معاملہ اب صرف کاروباری نہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی حساس بن چکا ہے۔ اگر ہم سعودی شراکت دار کو اعتماد نہیں دے سکتے، تو باقی دنیا کے سرمایہ کاروں کو کیسے مطمئن کریں گے؟”
اظفر احسن کے مطابق ال جومیع کے ساتھ ناانصافی کا عالمی سطح پر منفی پیغام جا رہا ہے، جس سے پاکستان کا نجکاری پروگرام بھی بدنام ہو رہا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سرمایہ کاروں کے فیصلے ہفتوں میں نہیں بلکہ دنوں میں کرے، تاکہ اعتماد بحال ہو۔
"پاکستان کو ایک محفوظ، منصفانہ اور قابلِ اعتبار سرمایہ کاری کا ماحول دینا ہوگا، ورنہ عالمی سرمایہ کاروں کی نظر میں ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہوگی،” اظفر احسن نے انتباہ کیا۔
اشتہار
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کی سرمایہ کاری سرمایہ کاروں پاکستان میں ال جومیع انہوں نے
پڑھیں:
وزیراعظم کا سہ ملکی دورہ شروع،سعودی عرب پہنچ گئے
وزیراعظم شہباز شریف نے سہ ملکی دورے کا آغاز کر دیا ہے. پہلے مرحلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے. دورے کے دوران وزیراعظم سعودی ولی عہد سے ملاقات کریں گے.جس میں پاکستان سعودی عرب تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔بدھ کو وزیراعظم شہباز شریف وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے. رائل ٹرمینل پر ڈپٹی گورنر ریاض شہزادہ محمد بن عبدالرحمان بن عبدالعزیز نے ان کا استقبال کیا۔استقبال کرنے والوں میں دیگر سعودی اعلیٰ شخصیات بھی موجود تھیں جب کہ پاکستانی سفیر احمد فاروق اور دیگر سفارتی افسران نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کا خیر مقدم کیا۔
بعدازاں ریاض ایئر پورٹ لاؤنج میں وزیراعظم شہبازشریف اور ڈپٹی گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمان بن عبدالعزیز کے درمیان اہم ملاقات ہوئی. جس میں پاک سعودی تعلقات اور دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سہ ملکی دورے کا آغاز کر دیا ہے، پہلے مرحلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب پہنچے ہیں۔وزیراعظم سعودی عرب کے سرکاری دورے پر اسلام آباد سے ریاض کے لیے روانہ ہوئے، ان کے ہمراہ وفد میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر ِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، وفاقی وزیر ماحولیات مصدق ملک اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی شامل ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف آج سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے، ملاقات میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔دونوں رہنماؤں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے حوالے سے بھی گفتگو کی جائے گی جب کہ معاشی تعاون میں وسعت، سرمایہ کاری کے نئے مواقعوں کی تلاش، توانائی کے منصوبوں اور خطے میں امن و استحکام پر تفصیلی بات چیت کریں گے۔سعودی عرب کا دورہ مکمل کرکے وزیراعظم برطانیہ جائیں گے جہاں ان کی برطانوی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں.وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ سے 21 ستمبر کو امریکا کے لیے روانہ ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف کی 22 ستمبر کو فلسطین سے متعلق 2 ریاستی حل کی سربراہ کانفرنس میں امریکی شہر نیویارک میں شرکت متوقع ہے۔اس کے بعد وزیراعظم نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے، جنرل اسمبلی سے ان کا خطاب 26 ستمبر کو ہوگا جب کہ 27 ستمبر کو امریکا سے وطن واپس روانہ ہوں گے اور 29 ستمبر کو براستہ برطانیہ وطن واپس پہنچیں گے۔