اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جولائی2025ء) وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا ء اللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی تحریک کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں، ان کی تحریک صرف بیانات کی حد تک ہے، اگر انہوں نے سڑکوں پر انتشار پھیلانے کی کال دی تو بہت کم لوگ نکلیں گے، اگر کسی نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی تو مقدمات ہوں گے۔

ایک انٹرویو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے، تحریک انصاف کی تحریک میں کوئی دم خم نظر نہیں آرہا، قاسم، سلیمان برطانوی شہری ہیں، ان کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر وہ تحریک میں حصہ لیں گے تو انہیں کیا مشکلات ہوں گی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، بانی خود دیکھ لیں انہیں 20 سے 27 سال بھی جیل ہوسکتی ہے، بانی کو کیلکولیشن کو مدنظررکھتے ہوئے چلنا چاہئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو ملک کے حالات کو بھی دیکھنا چاہئے، نوازشریف نے دومرتبہ انتہائی حکمت عملی سے پارٹی کو بحرانوں سے نکالا، بانی کی آج بھی کوشش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ بات کرے، بانی آج بھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ چارٹر آف اکانومی کرنے کو تیار نہیں۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ میری بات نوٹ کر لیں اسٹیبلشمنٹ بھی اسے کچھ نہیں دے سکتی، اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی بانی کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، راستہ تب ہی نکلے گا جب سیاسی جماعتیں ٹیبل پر بیٹھیں گی، ہمیشہ سیاسی جماعتوں نے بیٹھ کر ہی مسائل کا حل نکالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی بانی سے ملاقات کرنے کی باتوں میں بالکل صداقت نہیں ہے، نواز شریف سیاسی ڈائیلاگ کے حق میں ہیں، وزیراعظم نے اپوزیشن کو تین مرتبہ سیاسی ڈائیلاگ کی دعوت دی، وزیراعظم نے ڈائیلاگ کی دعوت نوازشریف کی منظوری سے ہی دی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے بڑا مشکل ہے، اسرائیل ہمارا دشمن ہے، اسرائیل نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہم کیسے کر لیں، اسرائیل نے فلسطین پر بہت ظلم کیا ہے، ہمیں اپنا وزن فلسطینیوں کے پلڑے میں ڈالنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے تسلیم کرنے سے پریشر تو بڑھے گا، فلسطین کے باعزت مسئلے کے حل کے بغیرسعودی عرب بھی تسلیم نہیں کرے گا، سعودی عرب، ایران، ترکیہ، پاکستان کو اکٹھے ہی فیصلے کرنے چاہئیں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اللہ نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کی تحریک انہوں نے

پڑھیں:

پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

اے اے سید گلزار

متعلقہ مضامین

  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • تجدید وتجدّْ
  • صرف بیانات سے بات نہیں بنتی، سیاست میں بات چیت ہونی چاہیے: عطاء تارڑ
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • سابق رہنماؤں کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سیاسی جماعتوں و دیگر سے رابطوں کا فیصلہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • ذاتی مفادات کی سیاست چھوڑ کر قومی مفاد کے لیے کام کریں، رانا ثنا اللہ کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو تلقین
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
  • سہیل آفریدی اپنے بیانات میں ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں، خواجہ آصف