پی یو سی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں فلسطینی ریاست کے قیام کے متعلق بین الاقوامی کانفرنس 28-29 جولائی کو متوقع ہے، مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل اور ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے یہ کانفرنس جون میں منعقد ہونی تھی، تاہم اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد منسوخ کر دی گئی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے متعقلق بین الاقوامی کانفرنس 28 اور 29 جولائی کو متوقع ہے، جس کی صدارت سعودی عرب اور فرانس مشترکہ طورپر کریں گے۔ حافظ طاہر اشرفی نے کہاکہ ابراہیم اکارڈ کا معاملہ صرف فلسطین کیلئے نہیں بعض دیگر مسائل کی وجہ سے بھی قابل قبول نہیں، پاکستان سعودی عرب سمیت اسلامی دنیا نے ابراہیم اکارڈ پر دستخط نہیں کیے، بلاوجہ پاکستان اور سعودی عرب اور اسلامی دنیا کے حوالے سے افواہ سازی نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں فلسطینی ریاست کے قیام کے متعلق بین الاقوامی کانفرنس 28-29 جولائی کو متوقع ہے، مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل اور ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے یہ کانفرنس جون میں منعقد ہونی تھی، تاہم اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد منسوخ کر دی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے طلب کردہ کانفرنس نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہوگی، اس کا مقصد فوری طور پر ایسے ٹھوس اقدامات کو اپنانا ہے جو فلسطین کی آزاد و خود مختار ریاست کے قیام، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دہائیوں سے جاری تنازعات کے خاتمے کا باعث بنیں گے، اُمید ہے کہ فرانس اور دیگر ممالک کانفرنس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کریں گے، اس ہفتے فرانس نے برطانوی حکومت پر بھی ایسا ہی کرنے پر زور دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے147 نے فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہوا ہے۔ فلسطین عالمی ادارے میں مبصر کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن مکمل رکنیت حاصل نہیں، یہ کانفرنس ایسے موقع پر ہونے جا رہی ہے جب غزہ’’ناقابل تصور مصائب‘‘برداشت کر رہا ہے۔ طاہراشرفی  نے کہا کہ سعودی عرب، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کیساتھ کھڑا ہے جو حقیقی اور دائمی تبدیلی لانے کی غرض سے سفارتی کوششوں کیلئے پُرعزم ہیں تاکہ مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کو ایک بار اور ہمیشہ کیلئے یقینی بنایا جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کے قیام سعودی عرب اور

پڑھیں:

پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

اے اے سید گلزار

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • فرانس: دہشت گردی کا الزام، افغان شہری گرفتار
  • فرانس: داعش سے تعلق کے شبے میں افغان شہری کو گرفتار کرلیا گیا
  • فرانس میں دہشت گردی کے الزام میں افغان شہری گرفتار
  • فرانس ، دہشتگردی کے الزام میں افغانی گرفتار، داعش خراسان سےرابطہ
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے
  • نومبر 2025: سعودی عرب میں ثقافت، سیاحت، معیشت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا غیر معمولی مہینہ
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
  • یہ تاثر درست نہیں کہ وظیفہ دے کر حکومت مسلط ہوجائے گی، طاہر اشرفی
  • اسرائیل کے فلسطین پر حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں، طیب اردوان