UrduPoint:
2025-07-12@11:28:08 GMT

لا وارث لاش، لاوارث سچ

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

لا وارث لاش، لاوارث سچ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جولائی 2025ء) ہمارا معاشرہ اب رشتوں کی نہیں توقعات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتا ہے۔ جب بیٹی تابعدار ہو، سلیقہ شعار ہو اور خاندان والوں کے مطابق زندگی جیے تو وہ پھر باعث افتخار ہے اور جب وہ اپنی راہ کا خود چناؤ کرے، خواب دیکھے تو وہ یکدم لاوراث قرار دی جاتی ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جہاں کسی والد یا اہل خانہ کو اپنے شرابی، قاتل، بدکردار، ریپسٹ، ظالم یا کرپٹ بیٹے کی لاش وصول کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔

لیکن اگر بیٹی طے شدہ سانچوں میں نہ ڈھلے تو تدفین و آخری رسومات کے لائق بھی نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی سخت گیر معیار کی پٹری سے اترتا ہے تو وہ جیتے جی تنہا ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد لاوارث۔

(جاری ہے)

اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی لاش جب کراچی کے ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی تو شاید موت سے زیادہ ہولناکی اس کے بعد کی ہے کہ اس کے خونی رشتوں نے اس کی لاش کو لینے سے صاف انکار کر دیا۔

اہل خانہ کا یہ کہنا کہ "ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں" سفاکیت تو ایک جانب رہی بلکہ یہ الفاظ تہذیب کے زوال کا نوحہ ہیں۔ کیا یہ وہی غیر مشروط محبت ہے جس کی نظیر نہیں ملتی؟

درحقیقت یہ وقت ہے آئینہ دیکھنے کا۔ اگر عصر حاضر کے والدین واقعی غیر مشروط محبت کے دعویدار ہیں تو انہیں اولاد کو سننا ہو گا ان کے فیصلوں کو قبول کرنا ہو گا۔

جو چیز ان کے حق میں بہتر نہیں اس کو احسن طریقے سے ہینڈل کرنا ہو گا نیز ان کی کامیابیوں میں ان کا ساتھ دینا ہو گا۔

جب سے خبر آئی ہے کچھ لوگ چرب زبانی کے تحت یہ کہہ رہے ہیں کہ "دیکھا یہی ہوتا ہے انجام۔" اکیلی مری، لاوارث، عبرت بن گئی۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر وہ عورت جو اکیلے زندگی گزار رہی ہے پسپا نہیں ہے۔ خودداری کے پیش نظر اکیلا رہنا جدوجہد کی کیٹگری میں آتا ہے۔

تنہا رہنا کوئی مافوق الفطرت بات نہیں یہ اکثر انسان کا انتخاب ہوتا ہے۔ مصروف زندگیوں، رشتوں میں رخنہ اندازی یا آزاد زندگی کی خواہش میں لوگ اکیلے رہنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ لیکن یوں اچانک انتقال کر جانا اور پھر مہینوں تک کسی کو اطلاع نہ ہونا یہ تنہائی کا وہ بھیانک چہرہ ہے جسے ہم قطعاً دیکھنا نہیں چاہتے۔ اکیلا رہنا جرم نہیں مگر لوگوں کے روگ رویے ہی کسی کے اکیلے رہنے کی بدترین تشریح کرتے ہیں۔

یہ واقعہ محض ایک فرد کی موت کا معاملہ نہیں۔ دراصل ہمارے نام نہاد معاشرے کا شیرازہ بکھرنے اور اس کے زوال کا اب بگل بج چکا ہے۔ مزیدبرآں یہ افسوسناک واقعہ خواتین فنکاروں سے غیر منصفانہ سلوک اور نفسیاتی صحت کے مسائل کی سنگین غفلت کی علامت ہے۔

ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے کہ حمیرا اصغر کی لاش پر اہلخانہ کا رویہ انتہائی سفاک ہے۔

یہ الفاظ فقط غصے کا اظہار نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کے زوال کے ساتھ ساتھ اس نام نہاد معاشرے کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جہاں رشتے توقعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

حمیرا اصغر اس جہان فانی سے کوچ کر گئی ہیں مگر اس کا وجود سوال کر رہا ہے کہ رشتہ کیا ہوتا ہے ؟ خون کا ؟ اطاعت کا یا انسانیت کا؟۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی لاش

پڑھیں:

قابض ریاست کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لبنانی صدر کی اسرائیل تعلقات کی دوٹوک تردید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیروت: لبنان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی سے متعلق اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر کے حالیہ بیان کو سختی سے مسترد کر تے ہوئے  لبنانی صدر جنرل جوزف عون نے واضح کیا ہے کہ لبنان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، اور صیہونی ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات خارجہ پالیسی کے دائرے سے باہر ہیں۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق لبنانی صدر نے کہا کہ  اسرائیل اب بھی ہمارے جنوبی علاقوں پر قابض ہے اور واپسی سے انکار کر رہا ہے، ایسے میں ہم قابض ریاست کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ لبنان خطے میں امن کا خواہاں ضرور ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ایسے دشمن کے ساتھ تعلقات بحال کریں جو ہمارے وطن کے ایک حصے پر قابض ہے اور مسلسل جارحیت میں مصروف ہے۔

صدر جوزف عون نے  مزید  کہا کہ  ہماری خارجہ پالیسی میں اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی کوئی گنجائش موجود نہیں، ہم ایک آزاد اور باوقار قوم ہیں، اور ایسے کسی سمجھوتے کا حصہ نہیں بنیں گے جو ہماری خودمختاری یا عوامی جذبات کے منافی ہو۔

واضح رہے کہ ایک روز قبل اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے بیان دیا تھا کہ لبنان اور شام نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس پر عالمی و علاقائی حلقوں میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا تھا۔

یہ بیان ان عرب ممالک کے تناظر میں آیا ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کیے، جن میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان شامل ہیں، اب اطلاعات کے مطابق امریکا، سعودی عرب پر بھی زور دے رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے۔

خیال رہےکہ  لبنان کی عوام اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کی شدید مخالفت جاری ہے، لبنانی عوام کا مؤقف ہے کہ اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے بلکہ لبنانی علاقوں پر قبضے، فضائی حملوں اور سرحدی دراندازی جیسے اقدامات سے بھی باز نہیں آ رہا۔

یادر ہے کہ   اسرائیل کی جانب سے غزہ اور جنوبی لبنان پر وقفے وقفے سے بمباری، ڈرون حملے اور فضائی نگرانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جس سے نہ صرف فلسطینی بلکہ لبنانی شہری بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مذہب اور فلسفہ میں ٹکرائو کہاں پیدا ہوتا ہے ؟
  • پاکستان اور کشمیر کو کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی’، ‘ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفر آباد کا دورہ
  • قابض ریاست کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لبنانی صدر کی اسرائیل تعلقات کی دوٹوک تردید
  • بابر اعظم اوپننگ کریں گے، وکٹ کیپنگ پر کوئی بات نہیں ہوئی، ہیڈ کوچ مائیک ہیسن
  • بھارت نے اگر پانی کے ساتھ کوئی گڑبڑ کی تو جنگ تصور ہو گی: اسحاق ڈار
  • حمیرا اصغر لاوارث نہیں، وزیر ثقافت سندھ کا تدفین کرانے کا فیصلہ
  • حمیرا اصغر لاوارث نہیں، صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت کا اداکارہ کی تدفین کروانے کا فیصلہ
  • حمیرا اصغر لاوارث نہیں‘ صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت کا اداکارہ کی تدفین کروانے کا فیصلہ’
  • سسٹم میں رہ کر نہیں توڑ کر پاکستان کو بچائیں