اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جولائی 2025ء) ہمارا معاشرہ اب رشتوں کی نہیں توقعات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتا ہے۔ جب بیٹی تابعدار ہو، سلیقہ شعار ہو اور خاندان والوں کے مطابق زندگی جیے تو وہ پھر باعث افتخار ہے اور جب وہ اپنی راہ کا خود چناؤ کرے، خواب دیکھے تو وہ یکدم لاوراث قرار دی جاتی ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جہاں کسی والد یا اہل خانہ کو اپنے شرابی، قاتل، بدکردار، ریپسٹ، ظالم یا کرپٹ بیٹے کی لاش وصول کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
لیکن اگر بیٹی طے شدہ سانچوں میں نہ ڈھلے تو تدفین و آخری رسومات کے لائق بھی نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی سخت گیر معیار کی پٹری سے اترتا ہے تو وہ جیتے جی تنہا ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد لاوارث۔(جاری ہے)
اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی لاش جب کراچی کے ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی تو شاید موت سے زیادہ ہولناکی اس کے بعد کی ہے کہ اس کے خونی رشتوں نے اس کی لاش کو لینے سے صاف انکار کر دیا۔
اہل خانہ کا یہ کہنا کہ "ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں" سفاکیت تو ایک جانب رہی بلکہ یہ الفاظ تہذیب کے زوال کا نوحہ ہیں۔ کیا یہ وہی غیر مشروط محبت ہے جس کی نظیر نہیں ملتی؟درحقیقت یہ وقت ہے آئینہ دیکھنے کا۔ اگر عصر حاضر کے والدین واقعی غیر مشروط محبت کے دعویدار ہیں تو انہیں اولاد کو سننا ہو گا ان کے فیصلوں کو قبول کرنا ہو گا۔
جو چیز ان کے حق میں بہتر نہیں اس کو احسن طریقے سے ہینڈل کرنا ہو گا نیز ان کی کامیابیوں میں ان کا ساتھ دینا ہو گا۔جب سے خبر آئی ہے کچھ لوگ چرب زبانی کے تحت یہ کہہ رہے ہیں کہ "دیکھا یہی ہوتا ہے انجام۔" اکیلی مری، لاوارث، عبرت بن گئی۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر وہ عورت جو اکیلے زندگی گزار رہی ہے پسپا نہیں ہے۔ خودداری کے پیش نظر اکیلا رہنا جدوجہد کی کیٹگری میں آتا ہے۔
تنہا رہنا کوئی مافوق الفطرت بات نہیں یہ اکثر انسان کا انتخاب ہوتا ہے۔ مصروف زندگیوں، رشتوں میں رخنہ اندازی یا آزاد زندگی کی خواہش میں لوگ اکیلے رہنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ لیکن یوں اچانک انتقال کر جانا اور پھر مہینوں تک کسی کو اطلاع نہ ہونا یہ تنہائی کا وہ بھیانک چہرہ ہے جسے ہم قطعاً دیکھنا نہیں چاہتے۔ اکیلا رہنا جرم نہیں مگر لوگوں کے روگ رویے ہی کسی کے اکیلے رہنے کی بدترین تشریح کرتے ہیں۔
یہ واقعہ محض ایک فرد کی موت کا معاملہ نہیں۔ دراصل ہمارے نام نہاد معاشرے کا شیرازہ بکھرنے اور اس کے زوال کا اب بگل بج چکا ہے۔ مزیدبرآں یہ افسوسناک واقعہ خواتین فنکاروں سے غیر منصفانہ سلوک اور نفسیاتی صحت کے مسائل کی سنگین غفلت کی علامت ہے۔
ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے کہ حمیرا اصغر کی لاش پر اہلخانہ کا رویہ انتہائی سفاک ہے۔
یہ الفاظ فقط غصے کا اظہار نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کے زوال کے ساتھ ساتھ اس نام نہاد معاشرے کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جہاں رشتے توقعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔حمیرا اصغر اس جہان فانی سے کوچ کر گئی ہیں مگر اس کا وجود سوال کر رہا ہے کہ رشتہ کیا ہوتا ہے ؟ خون کا ؟ اطاعت کا یا انسانیت کا؟۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی لاش
پڑھیں:
آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟
راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ خیبرپختونخواہ میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں ؟ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ نے پیر کے روز اڈیالہ جیل کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔(جاری ہے)
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔ اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔