لندن(نیوز ڈیسک) پاکستان کی سیاست ہمیشہ حیرتوں اور جذبات سے بھری رہی ہے، اور جب بات عمران خان کی ہو تو یہ جذبات مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں عمران خان کے بیٹے سلیمان خان نے ایک غیر رسمی انٹرویو میں اپنے والد کی سیاسی زندگی کے بارے میں جو خیالات ظاہر کیے، وہ ایک نئی بحث کا آغاز بن گئے ہیں۔

سلیمان خان کا کہنا ہے کہ جب وہ چھوٹے تھے، تو انہیں اپنے والد کی سیاست میں شمولیت پسند نہیں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ عمران خان ایک سادہ، پُرامن اور آرام دہ زندگی گزاریں ، جیسے لندن میں کرکٹ پر تجزیے کریں اور خود کو متنازعہ سیاست سے دور رکھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ انہوں نے سمجھا کہ سیاست عمران خان کا جنون ہے، اور وہ اس کے بغیر ادھورے ہیں۔

سیاست سے نفرت سے فخر تک: سلیمان خان کی بدلتی سوچ
سلیمان خان کے مطابق، بچپن میں انہیں یہ سب ناپسند تھا۔ ان کا کہنا تھا:

“جب ہم چھوٹے تھے، تو میں واقعی اس بات سے نفرت کرتا تھا کہ وہ سیاست میں ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ صرف کرکٹ کی تجزیہ کاری کریں اور لندن میں آسان زندگی بسر کریں۔”

یہ جملہ اس جدوجہد کی تصویر پیش کرتا ہے جو اکثر بڑی شخصیات کے خاندانوں کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ عمران خان کی سیاست نے نہ صرف ان کی عوامی زندگی کو متاثر کیا بلکہ ان کے قریبی رشتہ دار بھی اس دباؤ کو محسوس کرتے رہے۔

لیکن سلیمان خان نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ان کے والد کے لیے سیاست صرف ایک کیریئر نہیں، بلکہ ایک مشن ہے۔ وہ کہتے ہیں:

“مجھے اب لگتا ہے کہ اگر وہ یہ کام نہ کر رہے ہوتے تو وہ کبھی خوش نہ ہوتے۔ یہ ان کا جنون ہے۔”

عمران خان کی سیاست: مقصد یا ضد؟
عمران خان کی سیاست ہمیشہ نظریاتی اور جذباتی رہی ہے۔ 1996 میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے کے بعد سے انہوں نے کرپشن کے خلاف، عدل کے قیام، اور پاکستان کی خودمختاری کے لیے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ ان کے مخالفین انہیں ضدی اور آمرانہ سوچ کا حامل کہتے ہیں، جبکہ ان کے حامی انہیں اصولوں کا پیکر اور تبدیلی کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔

" ہم چاہتے تھے کہ ہمارے والد کرکٹ پہ تجزیہ کرے، لندن میں آسان زندگی گزارے لیکن اہنے ملک اور اپنی قوم کی خدمت کرنا ان کا passion ہے،

وہ ایک آسان زندگی گزار سکتے تھے لیکن انھوں نے اس راستے کا انتخاب کیا " سلیمان خان@Jemima_Khan #تحریک_تو_چلے_گی
pic.

twitter.com/GBuCwNCL4t

— Haider Ali (@Haider4PTI) July 11, 2025

Post Views: 3

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: عمران خان کی سلیمان خان کی سیاست

پڑھیں:

پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور

اسلام آباد:

ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ خان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری کی کمی کے باعث لاکھوں بچے، خصوصاً لڑکیاں، اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ موسمی رکاوٹیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔

چیئرپرسن، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن گلمینہ بلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ آگاہی کی کمی اور روایتی معاشرتی رویوں سے متاثر ہے، جو صنفی امتیاز اور تکنیکی شعبوں میں صنفی فرق کم کرنے میں حائل ہیں۔

ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی عزم اور مساوی مالی معاونت ضروری ہے، اگر صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو ترجیح نہ دی گئی تو پاکستان ایک اور نسل کو محرومی اور عدم مساوات کے اندھیروں میں کھو دے گا۔

گزشتہ روز سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن (ایس اے کیو ای) کے پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) کے سالانہ کنونشن سے خطاب کے دوران سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرہ ارشد نے کہا کہ تعلیم میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے اور صنفی مساوات و سماجی شمولیت کو پالیسی اور عمل کے ہر درجے میں شامل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ استعمال کو یقینی بنائے بغیر جامع تعلیم کے وعدے محض کاغذی رہ جائیں گے۔ تعلیمی فنڈنگ میں حکومتوں کا احتساب صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ احتساب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ بجٹ کا ہر روپیہ ہر لڑکی کی تعلیم کے حق کی تکمیل میں خرچ ہو۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد سرویا نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تعلیم کی ایمرجنسی سے نکلنے کے لیے کم از کم جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ وسائل ہر سال اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں 1.7 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

پنجاب کے وزیر تعلیم کے مشیر ڈاکٹر شکیل احمد نے وضاحت کی کہ اسکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے نہ صرف اسکول سے باہر بچوں بلکہ کم فیس والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا اندراج بھی بڑھا ہے، تاہم مالی مشکلات اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث اس پالیسی کی پائیداری ایک چیلنج بن سکتی ہے۔

بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے اسپیشل سیکریٹری عبدالسلام اچکزئی نے اعلان کیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بڑھائی جا سکے، جبکہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ پروگرامز بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ اسکول واپسی اور حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔

خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم کے مشیر محمد اعجاز خلیل نے بتایا کہ ترقیاتی تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے، جس میں 10 ہزار کلاس رومز اور 350 واش رومز کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارکردگی میں کمزور اسکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور 1,000 مقامی گاڑیاں لڑکیوں کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کریں گی۔

اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ نے کہا کہ 90 فیصد معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ معذور بچوں کے لیے مخصوص بجٹ لائنز اور اساتذہ کی شمولیتی تربیت کی عدم موجودگی لاکھوں بچوں کو نظام سے باہر رکھتی ہے۔

جینڈر اور گورننس ماہر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ صنفی مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کا آغاز ابتدائی عمر سے ہونا چاہیے، جہاں آئینی حقوق مقامی زبانوں میں پڑھائے جائیں اور والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی اس عمل کو مضبوط کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، جبکہ ملک میں جنوبی ایشیا کی بلند ترین ماں اور بچے کی اموات اور 40 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔

خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر مہنور چوہدری نے کہا کہ ٹرانس جینڈر طلبہ کی شمولیت کے لیے جامع نصاب، اساتذہ کی حساسیت، ٹراما سے آگاہی، کونسلنگ اور زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی
  • شادی میں دلہن کے والد کا نیا انداز، جیب پر کیو آر کوڈ چسپاں کرکے ‘آن لائن سلامی’ وصول کی
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  •  عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • ہماری کوشش ہے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی
  • ذاتی مفادات کی سیاست چھوڑ کر قومی مفاد کے لیے کام کریں، رانا ثنا اللہ کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو تلقین
  • سابق آئی جی پنجاب عامر ذوالفقار کے والد انتقال کر گئے
  • ہماری کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک مؤثر رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی کا شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد بیان
  • محمد عامر ابوظہبی ٹی10 لیگ میں کوئٹہ کیولری کے کپتان مقرر