کلاسیکی غلاموں کی تشویش
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250919-03-6
باباالف
پاگل کتا لوگوں کو کاٹتا پھررہا ہو تو اس مسئلے کا حل انفرادی اور اجتماعی سطح پر کتے کی مذمت نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل کتے کے شکار لوگوں سے محض ہمدردی بھی نہیں ہے، اس مسئلے کاحل زخمیوں کی مرہم پٹی، ویکسی نیشن اور ان کی امداد تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ کتے کا خاتمہ ہے۔ یہودی ریاست کے باب میں مسلم حکمرانوں کا خواب آور لاشعور ایسے ہی حل تجویز کرتا ہے۔ انفرادی اور ریاستی سطح پر اسرائیل کی مذمت، اقوام متحدہ میں قراردادیں اور او آئی سی کے اجلاس یا پھر اسرائیل کے شکار ممالک اور لوگوں سے اظہار ہمدردی اور ان کی مالی امداد۔ پاگل کتے کے خاتمے کی بات تو درکنار کوئی اسے پٹا ڈالنے پر بھی تیار نہیں ہے۔
پاگل کتا ہی نہیں اگر کوئی انسان بھی پر امن نہتے شہریوں پر حملہ کررہا ہو، انہیں زندگی سے محروم کررہا ہو تو وہ اسی وقت اپنی زندگی کے حق سے دستبرار اور لوگوں کے درمیان رہنے کی سہولت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ افراد ہی نہیں اقوام اور ریاستوں کے معاملے میں بھی یہی کلیہ نافذ ہے۔ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے جو جبر اور ظلم سے اپنے قبضے اور توسیع پسندی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر قبضے کے پہلے دن سے اس کی حالت ایک پاگل کتے کی سی ہے۔ جو اپنے سامنے آنے والے مظلوم انسانوں پر حملے کررہا ہے، انہیں کاٹ رہا ہے، بھنبھوڑ رہا ہے، زخمی اور قتل کررہا ہے۔ اس کے مجروحین کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ انسانیت کے خلاف کون سا ظلم ہے اسرائیل نے جس کا ارتکاب نہ کیا ہو۔
انسانیت کے مقابلے میں اسرائیل ’’توسیع ہی سب کچھ ہے‘‘ پر یقین رکھتا ہے خواہ اس مقصد کے لیے فلسطین کے مسلمانوں کی نسل کشی کا ارتکاب کرنا پڑے، ان کی عورتوں اور بچوں کو آگ کے شعلوں میں بھسم کرنا پڑے یا پھر ان کی آبادیوں پر دن رات وحشی فوجی قوت سے بمباری کرنا پڑے۔ یہ لڑائی نہیں ہے، یہ جنگ بھی نہیں ہے۔ جنگ میں فوجوں کا مقابلہ فوجیں کرتی ہیں۔ یہ نہتے انسانوں پر حملے ان کا قتل عام اور نسل کشی ہے۔ جس کی اجازت نہ کسی ریاست کودی جاسکتی ہے، نہ کسی فوج کو، نہ کسی انسان کو اور نہ کسی پا گل کتے کو۔
ان حالات میں انسانیت کے قبرستان میں کھڑے ہوکر اجتماعات منعقد نہیں کیے جاتے، کانفرنسیں طلب نہیں کی جاتیں، قراردادیں پاس نہیں کی جاتیں، گولی کا جواب گولی سے دیا جاتا ہے۔ جہاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمارے بزدل مسلم اور عرب حکمران! اللہ کی آخری کتاب نے ان ہارے ہوئے بے شرموں کی کیا ہی خوب منظر کشی کی ہے: ’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے؟ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے‘‘۔ (التوبہ: 38)
یہودی ریاست سے جنگ جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ اس وقت انسانیت کی اس سے بڑی خدمت نہیں ہوسکتی کہ یہودی وجود کے ظالم بھیڑیوں اور پاگل کتوں کے خون سے صفحہ ہستی کو سرخ کردیا جائے۔ ان شیطانوں اور مفسدوں کے شرسے اللہ کے مظلوم اور بے کس بندوں کو نجات دلائی جائے۔ یہ انسان نہیں، انسانوں کے بھیس میں درندے اور انسانیت کے دشمن ہیں، یہ شیطان کی امت ہیں جو انسانوں پر ہرطرح کی تباہی اور مصیبتیں نازل کررہی ہیں۔
’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے؛ کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے، ان کا قصور صرف یہ تھاکہ یہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتے تھے‘‘۔ (الحج: 39-40)
ایسے مواقع پر جنگ کی اہمیت، ضرورت اور فرضیت! اللہ کی آخری کتاب کی صدا آفرینی کا رنگ اور قول فیصل ملاحظہ فرمائیے: ’’جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا ہے وہ ظلم وسرکشی کی خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں‘‘۔ (النساء: 76) قرآن شیطان کے دوستو سے لڑنے کا حکم دیتا ہے لیکن مسلم اور عرب حکمرانوں نے شیطان کے دوستو ں کو اپنا دوست ہی نہیں آقا بنا رکھا ہے۔ قطر نے امریکا اور اسرائیل کو دوست بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود شیطان کے دوستوں کی نظر میں ان کی اوقات؟ محض ٹوائلٹ پیپر، ضرورت پوری کرو اور پھینک دو۔ اسرائیل کو کھلی اجازت تھی کہ قطر کے دارالحکومت پر حملہ کرے اور مزے مزے سے ٹہلتا ہوا واپس چلا جائے۔
قطر کی لیوش فائیو اسٹار ائر فورس کا اب کیا کیا جائے؟ سوائے ٹکٹ لگا کر کسی میوزیم کی زینت بنانے کے۔ وہ قطر کی حفاظت تو نہ کرسکی کسی میوزیم میں پڑی قطری شیخوں کے مہنگے داموں خریدے گئے کھلونوں کی داستان عبرت ہی بیان کرسکے گی کہ تیل کے خزانے لٹا کر خریدی گئی ائر فورس دس منٹ بھی اپنے ملک کادفاع نہ کرسکی۔ کسی رن وے پر طیاروں کے فیشن شو میں بھی اس ائر فورس کو عیاشی کے منفی مظہر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جیسے پہلے شاہی محلوں میں ہاتھی جھو متے تھے۔ ائر کنڈیشنڈ ہینگروں سے کبھی باہر نہ نکلنے والے یہ طیارے فضا کے شاہین نہیں پنجروں کے توتے ہیں۔ اس لیوش ائر فورس سے تو فلسطینی بچوں کے ہاتھوں میں دبے ہوئے وہ پتھر زیادہ باوقعت تھے جو یہودی وجود کے خلاف نفرت، حقارت اور احتجاج کے مظہر تھے۔
دیگر عرب ممالک کی نمائشی فوجی قوت بھی اسرائیل کے مقابلے میں ڈیکوریشن پیس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ ان کی افواج بھی نیشنل آرمی کے بجائے ریمپ پر چلنے والی ماڈل کے سوا کچھ نہیں۔ یہ افواج اپنے بادشاہوں اور ان کے محلات کی حفاظت کرتی ہیں اور بس۔ اس سے پہلے کہ یہ چو کیدار اپنی گنیں سیدھی کرنے کا سوچیں اسرائیلی طیارے اپنا کام کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ قطر پر حملے کے بعد واضح ہو گیا کہ اربوں ڈالر کے مٹی کے کھلونوں کے انبار کھڑے کرلینے اور نمائشی فوج ترتیب دینے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کرلینے سے بھی عربوں کا دفاع ناقابل شکست نہیں بن سکتا جب تک امریکا اور اسرائیل کے ایجنٹ حکمران ان ممالک پر قابض ہیں۔
یہ حکمران امریکا اور اسرائیل کے خلاف کوئی حقیقی پر خطر قدم اٹھانا تو درکنار اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ان کا اقتدار امریکا اور اسرائیل کی مخبریوں اور انٹیلی جنس معلومات کا مرہون منت ہے جو انہیں محلاتی سازشوں سے آگاہ کرتے ہیں، ان کے رقیبوں اور حکومت کے دعویداروں کا صفایا کرکے ان کے اقتدار کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ حکمران امریکا اور اسرائیل سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر سابقین سے زیادہ ان کے وفادار اور غلام رہیں گے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ قطر پر حملے نے ان کلاسیکی غلاموں کو خوف ناک تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ آقائوں پر ان کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکا اور اسرائیل انسانیت کے اسرائیل کے کرتے ہیں شیطان کے ائر فورس پر حملے نہیں کی اللہ کی ہی نہیں نہیں ہے ان کی ا اور ان
پڑھیں:
کس پہ اعتبار کیا؟
اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔
ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔
ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔
ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔
ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔
حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔
ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔
خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا