Jasarat News:
2025-11-03@14:50:42 GMT

فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-5

 

میر بابر مشتاق

فلسطین کی زمین انسانی تہذیب، ثقافت اور مذہبی ورثے کی ایک زندہ علامت رہی ہے۔ ہزاروں سال سے یہاں انسانی تاریخ رقم ہوتی رہی، مقدس مقامات قائم ہوئے اور معاشرتی اصول پروان چڑھے۔ مگر بیسویں صدی میں یہ خطہ ایک غاصب منصوبے کا شکار ہوا، جس نے فلسطینی عوام کی زمین چھین لی اور انہیں بے گھر کر دیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینی بے دخلی کا سلسلہ شروع ہوا، اور آج تک حقیقی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو سکی۔ اسرائیل نے نہ صرف فلسطینی زمین پر اپنی بستیوں کی تعداد بڑھائی بلکہ قدس شریف میں آبادیاتی تبدیلیاں کیں، غزہ میں بمباری کر کے بنیادی سہولتیں تباہ کیں اور انسانی زندگی اُجاڑ دی۔ ہر موقع پر فلسطینی حق ِ ملکیت، حق ِ واپسی اور بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی اقدامات اکثر علامتی رہ گئے، جبکہ اسرائیل عالمی طاقتوں کے تحفظ اور تعاون سے فلسطینی حق کو دباتا رہا۔

دو ریاستی حل، جسے اکثر امن کا حل کہا جاتا ہے، فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔ یہ حل 1967 کی سرحدوں تک محدود ہے اور اسرائیل کو قبضے کو جاری رکھنے کا قانونی جواز دیتا ہے، جبکہ فلسطینی حق ِ واپسی اور تاریخی حقوق پس ِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ اگر دو ریاستی حل واقعی قابل قبول ہوتا تو آج فلسطینی ریاست قائم ہو چکی ہوتی، مگر اسرائیل اور عالمی طاقتوں نے اسے ہمیشہ روکا۔ فلسطینی مزاحمت، خاص طور پر حماس، صرف عسکری نہیں بلکہ عوامی شعور اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ 2006 کے انتخابات میں عوام نے حماس کو مینڈیٹ دیا، جو آج تک اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہے۔ مزاحمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے، جو انسانی، قانونی، اخلاقی اور شرعی اعتبار سے محفوظ ہے۔

اسرائیل نے گزشتہ دہائیوں میں فلسطینی علاقوں میں آبادکاری، قدس میں آبادیاتی تبدیلیاں، غزہ میں بمباری اور بنیادی سہولتوں کی تباہی کا سلسلہ جاری رکھا۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں 64,803 فلسطینی شہید اور 164,264 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ 80 فی صد سے زائد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ مظالم اسرائیل کی غاصب ریاست ہونے کی واضح مثال ہیں۔ یہ سلسلہ 1948 سے نہیں بلکہ 1917 کے بالفور ڈیکلیریشن سے شروع ہوا، جب برطانیہ نے فلسطینی زمین پر یہودیوں کے لیے ’’قومی گھر‘‘ قائم کرنے کا وعدہ کیا، بغیر کسی مالک کی اجازت کے۔ برطانوی انتداب نے فلسطینیوں کے خلاف ظلم کیا: ہتھیاروں پر پابندی، مظاہروں پر گولیاں، اور یہودی آبادکاروں کو زمین کا تحفہ۔ 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا، حالانکہ فلسطینی آبادی 67 فی صد تھی مگر انہیں صرف 45 فی صد زمین دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے موقع پر لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نکالے گئے، جسے ’’نکبت‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1967 کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا اور غیرقانونی بستیاں قائم کیں۔ ہائی ویز صرف یہودیوں کے لیے بنائے گئے اور ’’جدار علٰیحدگی‘‘ نے فلسطینیوں کو اپنی زمین سے کاٹ دیا۔ آج سات لاکھ سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں مقیم ہیں۔ غزہ، جو دنیا کا سب سے بڑا ’’اوپن ائر جیل‘‘ ہے، وہاں 2007 سے محاصرہ ہے۔ بچوں کو دودھ نہیں ملتا، اسپتال بجلی سے محروم ہیں اور گولہ بارود کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔ 2014، 2021 اور 2023 کی جنگیں نسل کشی کی کوششیں تھیں، جن کی تصدیق اقوام متحدہ کے ماہرین حقوقِ انسان کر چکے ہیں۔

دنیا ’’انسانیت‘‘ کے نعرے لگاتی ہے، مگر امریکا ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر دیتا ہے، جو فلسطینی بچوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یورپی یونین حقوقِ انسان کی بات کرتی ہے، مگر اسرائیلی مصنوعات پر پابندی نہیں لگاتی۔ عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے ہیں، جبکہ عوام سڑکوں پر فلسطین کے لیے رو رہے ہوتے ہیں۔ ’’ابراہیمی معاہدے‘‘ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عالمی انصاف کے اصولوں کو پامال کیا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں مفادات کی پیروی کرتی ہیں، نہ کہ فلسطینی انصاف کی۔ فلسطینی مزاحمت صرف حماس کی راکٹ باری تک محدود نہیں۔ یہ وہ بچہ ہے جو پتھر لے کر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، وہ ماں جو اپنے شہید بیٹے کی قبر پر فلسطینی جھنڈا لہراتی ہے، وہ نوجوان جو سوشل میڈیا پر اسرائیلی ظلم کی ویڈیوز شیئر کرتا ہے، اور وہ وکیل جو بین الاقوامی عدالت میں فلسطینی حق کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ فلسطینی ثقافت؛ گرافٹی، نغمے، کہانیاں، ڈائریاں۔ یہ سب مزاحمت کی شکلیں ہیں۔ بچوں کی ڈائریاں، جیسے شذا العجلہ یا محمد الدرہ، دنیا کو جھنجھوڑتی ہیں۔ مزاحمت کا سب سے بڑا ہتھیار ’’حقیقت‘‘ ہے، جو ہر دفعہ اسرائیلی جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے۔

دو ریاستی حل 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست قائم کرنے کا خیال تھا، لیکن اسرائیل نے ہر سال نئی بستیاں بنائیں، ہر معاہدے کے بعد نئی شرائط لگائیں، اور ہر امن مذاکرے کے بعد نئی بمباری کی۔ اوسلو معاہدے کے بعد بھی دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں منتقل ہوئے۔ اسرائیل نے کبھی فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 242 اور 338 بھی نافذ نہ ہو سکیں۔ دو ریاستی حل اب صرف ایک ’’تسلی دینے والا خواب‘‘ ہے، جسے اسرائیل اور امریکا نے کبھی پورا ہونے نہیں دیا۔

فلسطین صرف ایک خطہ نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، ثقافت اور روحانیت کا مرکز ہے۔ بیت المقدس کی اہمیت قرآن و حدیث میں واضح ہے۔ امت ِ مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ فلسطین کے لیے جہاد، دعائیں، مالی امداد، سیاسی حمایت اور ثقافتی مزاحمت کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا: ’’اگر کفار کسی مسلمان علاقے پر قبضہ کر لیں تو اسے چھڑانا فرضِ عین ہے‘‘۔ آج فلسطینی عوام تنہا نہیں، وہ پوری امت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مساجد، مدارس، یونیورسٹیاں اور میڈیا کا فرض ہے کہ فلسطین کی آواز بلند رکھیں۔ خاموشی گناہ ہے، بے حسی ناقابل ِ معافی۔ دو ریاستی حل کی ناکامی کے بعد نوجوان فلسطینی ایک ریاستی حل کی طرف رجوع کر رہے ہیں، جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی۔ اسرائیل کو بائیکاٹ کرنا (BDS Movement) ایک مؤثر ہتھیار ہے، جس سے اسرائیلی معیشت اور عالمی تصویر متاثر ہوتی ہے۔

عالمی عوامی رائے، سوشل میڈیا اور نوجوان نسل کی بغاوت وہ طاقتیں ہیں جو مستقبل میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل کی طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عالمی خاموشی میں ہے۔

قدس اور فلسطین صرف ایک ملک نہیں بلکہ امت مسلمہ کا وقف ہیں۔ جہاد اور مزاحمت، تاریخی، قانونی اور اخلاقی طور پر فلسطینی حق کے لیے جائز اور ضروری ہیں۔ فلسطینی مزاحمت صرف عسکری محاذ نہیں بلکہ عوامی شعور، ثقافت اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلسطینی عوام کی آواز آج بھی زندہ ہے:

نہ منہ چھپا کے جیے ہم، نہ سر جھکا کے جیے

ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے

اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی

یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیے

یہ عزم اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیویارک اعلامیہ اور دو ریاستی حل صرف کاغذ پر ہیں، مگر فلسطین زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ فلسطینی مزاحمت، شہداء کی قربانیاں اور عوامی عزم ہی حقیقی آزادی کی ضمانت ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی مزاحمت فلسطینی ریاست فلسطینی عوام دو ریاستی حل اقوام متحدہ اسرائیل کو پر فلسطینی اسرائیل نے نے فلسطینی فلسطینی حق ہو چکے ہیں پر فلسطین کہ فلسطین نے فلسطین نہیں بلکہ اور عالمی فلسطینی ا کرتی ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید

اسرائیل کی جانب سے غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ تازہ فضائی اور زمینی حملوں میں 7 افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے مختلف علاقوں میں فضائی کارروائیاں کیں، جن میں 3 فلسطینی شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ جنگ بندی کے آغاز سے اب تک 236 فلسطینی شہید اور 600 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق مغربی علاقے میں تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے مزید دو لاشیں برآمد ہوئیں، جبکہ خان یونس سمیت دیگر علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اب تک 68 ہزار 858 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 664 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے کارروائیاں تیز کرتے ہوئے بچوں سمیت 21 فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا۔

ادھر لبنان میں بھی سیز فائر کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ صیہونی فوج نے جنوبی لبنان میں ایک کار کو ڈرون سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار افراد شہید ہوئے۔

عالمی مبصرین کے مطابق اسرائیلی کارروائیاں سیز فائر معاہدے کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید
  • حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
  • حماس نے مزید 3 لاشیں اسرائیل کو واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے ایک فلسطینی شہید
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • غزہ میں اسرائیل فضائی حملے کے دوران نوجوان فلسطینی باکسر شہید
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • ریاستی درجہ کی بحالی سے بی جے پی حکومت مُکر رہی ہے، بے اختیاروزیراعلیٰ کی دہائی
  • اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار