Jasarat News:
2025-11-03@10:33:50 GMT

سندھ کی سیاست میں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

سندھ کی سیاست میں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

(آخری حصہ)

سندھ کی ستر تا اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل کو اچھی طرح سے اس بات کا پتا ہے کہ سندھ میں کون سے خاندان کب سے قبضہ جما کر سیاست کر رہے ہیں، لیکن بعد میں ہوش سنبھالنے والوں کو اس حوالے سے بہت کم معلومات ہیں۔ جبکہ 2000ء کی نسل کو تو کسی بات کا کچھ علم ہی نہیں ہے۔ ان سمیت سندھ کے تمام لوگوں کی معلومات کے لیے یہاں 71ء سے پہلے والی سندھ اسمبلی کے کچھ ارکان کے نام بطور نمونہ اور مثال پیش کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ انہیں اس امر کی بابت آ گہی حاصل ہو سکے کہ سندھ کے ساتھ یہ کتنی بڑی زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ستر فی صد انہی ارکان کی نسل 2025ء کی اسمبلی میں بھی موجود ہے۔ یہ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ گویا سندھ کے آ گے بڑھنے کا سفر ایک طرح سے تھم سا گیا ہے۔ ہم آ ج بھی اسی مقام پر کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے ہم چلے تھے۔ ایسے میں پھر بھلا فقیر مشتاق منگریو، ڈاکٹر اکرم شیخ اور غلام سرور سہاگ جیسے جیالے کارکنان اور عام افراد آ خر کس طرح سے ایوانوں میں پہنچ سکتے ہیں؟

1954ء میں ملک میں ون یونٹ لاگو کیا گیا تھا۔ جس کے لیے سندھ اسمبلی سے 11 دسمبر 1954ء کو ون یونٹ کے حق میں ایک قرارداد بھی پاس کروائی گئی تھی۔ اس اسمبلی میں دادو سے پیر الٰہی بخش بھی موجود تھے۔ جن کے پوتے پیر مظہر الحق 1988ء سے ایم پی اے بننا شروع ہوئے۔ اس وقت بھی پیر مظہر الحق کے بیٹے پیر مجیب رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ جام بشیر احمد ڈہر بھی اس اسمبلی میں موجود تھے۔ اب جام مہتاب ڈہر اسمبلی میں براجمان ہیں۔ علی اصغر شاہ شیرازی کا نام سامنے آتے ہی یہ پتا چلتا ہے کہ اس وقت قومی اور سندھ اسمبلی میں موجود ٹھٹھہ کے شیرازی بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سردار علی گوہر مہر بھی 54ء کی اسمبلی میں موجود تھے۔ اس وقت بھی سردار علی گوہر مہر رکن سندھ اسمبلی ہیں، لیکن یہ 71 سال پہلے والے سردار علی گوہر مہر نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہ ان کے چچا تھے۔ جب کہ ان کے کزن اور برادری کے چیف سردار کہلانے والے محمد بخش مہر اس وقت قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ جن کے والد سردار غلام محمد مہر تھے۔ ان کے سوا ایک اور ایم پی اے کی سیٹ راجا خان مہر اور ضلع گھوٹکی کی چیئر مین شپ محمد بخش مہر کے بھائی کے پاس ہے۔ ماضی کی ذکر کردہ اسمبلی میں امیر بخش مہر بھی تھے۔ جو یقینی طور پر ضلع شکار پور سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ جہاں پہلے تو تین دہائیوں تک سردار غوث بخش مہر نے سیاست کی اور اب انہوں نے اپنے بیٹوں شہر یار مہر اور عارف مہر کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب کروانے کے بعد خود اپنی بقیہ زندگی آرام کرنے کی ٹھان لی ہے۔ آغا بدر الدین درانی کا نام سنتے ہی شکارپور کی سیاست پر حاوی پٹھان خاندان کا نام سامنے آ تا ہے۔ جس کی نمائندگی اس وقت سندھ اسمبلی میں آغا سراج درانی کر رہے ہیں۔ اسی طرح سے مخدوم طالب المولیٰ، سردار سلطان احمد چانڈیو، سیف اللہ خان مگسی بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ مخدوم خاندان سے اس وقت مخدوم جمیل الزمان اور دیگر ایوانوں میں موجود ہیں۔ سلطان چانڈیو کے ورثاء میں سے سردار چانڈیو، جبکہ سردار سیف اللہ مگسی کے خاندان سے نادر مگسی اور عامر مگسی منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اسی طرح سے سردار نور محمد خان بجارانی اور محمد بخش خان سرکی کے نام سنتے ہی کشمور کندھ کوٹ کے موجودہ اراکین ِ اسمبلی ذہن میں آ جاتے ہیں۔ مزاری خاندان بعد یہاں پر سیاست میں حاوی ہوا۔ اب یہ خاندان بھی اس وقت اپنی خاندانی سیاست کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہے۔

یہ وہ تلخ حقائق ہیں، جن پر اگر تفصیل کے ساتھ لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب بھی تیار کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ سندھ کی سیاست پر گزشتہ ایک طویل عرصے سے مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوش حال سندھ کے افراد روز بروز غریب سے غریب تر اور مخصوص خاندان امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے اہل سندھ کو شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان خاندانوں کی اجارہ داری سے اپنی جان چھڑوانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سیاست کرنے والی تمام تنظیموں اور وکلا، اساتذہ، شاگردوں، کسانوں سمیت سول سوسائٹی سمیت دیگر تمام شعبوں سے وابستہ افراد کو بھی اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر مستقبل میں بھی یہی خاندان اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر تے، اقتدار کے مزے لوٹتے اور سندھ پر مسلط رہیں گے۔ (بشکریہ: روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی 24 جون 2025ء)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سندھ اسمبلی اسمبلی میں سندھ کے رہے ہیں بھی اس

پڑھیں:

سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل

سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل WhatsAppFacebookTwitter 0 2 November, 2025 سب نیوز

سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہوکر زندہ بچ جانے والے افراد نے بتایا ہے کہ نیم فوجی دستوں نے وہاں خاندانوں کو الگ کر دیا اور بچوں کو ان کے والدین کے سامنے قتل کیا جبکہ شہر پر قبضے کے بعد بھی دسیوں ہزار لوگ اب بھی محصور ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے اعلیٰ سفارتکار جوہان ویڈیفل نے صورتحال کو ’قیامت خیز‘ قرار دیا، جبکہ نئی سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ پیراملٹری فورسز کی جانب سے اجتماعی قتل عام اب بھی جاری ہے، یہ واقعات اُس کے پانچ دن بعد پیش آ رہے ہیں جب ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا۔
اپریل 2023 سے سوڈانی فوج کے ساتھ جاری جنگ کے دوران آر ایس ایف نے 18 ماہ کے محاصرے کے بعد بالآخر دارفور کے اس آخری فوجی گڑھ پر قبضہ کر لیا، قبضے کے بعد سے وہاں اجتماعی قتل، جنسی تشدد، امدادی کارکنوں پر حملے، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ علاقے کا رابطہ بیرونی دنیا سے تقریباً منقطع ہے۔6 بچوں کی ماں زہرہ نامی خاتون نے سیٹلائٹ فون پر بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا محمد زندہ ہے یا مر گیا، انہوں نے تمام لڑکوں کو پکڑ لیا‘، وہ بتاتی ہیں کہ آر ایس ایف کے اہلکاروں نے ان کے 16 اور 20 سالہ بیٹوں کو پکڑ لیا تھا، تاہم ان کی التجا کے باوجود صرف چھوٹے بیٹے کو چھوڑا گیا۔

ایک اور شخص آدم نے بتایا کہ اس کے 17 اور 21 سالہ بیٹوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا، اس نے بتایا کہ ’انہوں نے کہا کہ یہ فوج کے لیے لڑ رہے تھے، پھر انہوں نے مجھے لاٹھیوں سے پیٹا‘۔

آر ایس ایف کے زیرِ قبضہ قصبے گرنی میں جنگجوؤں نے آدم کے کپڑوں پر خون دیکھا اور اسے بھی فوجی سمجھ کر تفتیش کی، تاہم کئی گھنٹے بعد چھوڑ دیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق اتوار سے اب تک 65 ہزار سے زائد لوگ الفاشر سے فرار ہو چکے ہیں، مگر دسیوں ہزار اب بھی پھنسے ہوئے ہیں، شہر میں آر ایس ایف کے حملے سے پہلے تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار افراد موجود تھے۔
بین الاقوامی تنظیم ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ (ایم ایس این) نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ شدید خطرے میں ہیں اور آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لوگوں کو محفوظ علاقوں تک پہنچنے سے روکا جارہا ہے۔
تنظیم کے مطابق صرف 5 ہزار افراد مغربی قصبے تویلا تک پہنچ پائے ہیں، جو الفاشر سے تقریباً 70 کلومیٹر دور ہے، ایم ایس ایف کے ایمرجنسی ڈائریکٹر مشیل اولیور لاشیریٹے نے کہا کہ ’پہنچنے والوں کی تعداد بیانات سے میل نہیں کھاتی، اور بڑے پیمانے پر مظالم کی اطلاعات بڑھ رہی ہیں‘۔
کئی عینی شاہدین کے مطابق تقریباً 500 شہریوں اور فوج کے ساتھ منسلک اہلکاروں نے اتوار کے روز فرار کی کوشش کی، مگر زیادہ تر کو آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے قتل یا گرفتار کر لیا۔
رپورٹس کے مطابق لوگوں کو عمر، جنس اور نسل کی بنیاد پر الگ کیا گیا، اور متعدد افراد تاوان کے بدلے حراست میں رکھے گئے ہیں، دارفور میں زیادہ تر غیر عرب نسلوں کے لوگ آباد ہیں، جو سوڈان کے غالب عرب باشندوں سے مختلف ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو سکتی ہے، جبکہ فوج کے اتحادیوں نے الزام لگایا کہ آر ایس ایف نے 2 ہزار سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا۔
ییل یونیورسٹی کی ہیومینیٹیرین ریسرچ لیب کے مطابق الفاشر اور اس کے گردونواح میں ابھی اجتماعی قتل جاری ہیں، ادارے نے بتایا کہ نئی سیٹلائٹ تصاویر میں اتوار سے جمعہ تک شہر کے مختلف علاقوں، یونیورسٹی کے احاطے اور فوجی مقامات پر کم از کم 31 جگہوں پر انسانی لاشوں جیسے نشانات دیکھے گئے۔
بحرین میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جرمن سفارتکار ویڈیفل نے کہا کہ سوڈان مکمل طور پر ایک قیامت خیز صورتِ حال میں ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن چکا ہے۔
آر ایس ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے الفاشر پر قبضے کے دوران زیادتیوں کے مرتکب چند جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے، تاہم اقوامِ متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے گروپ کے اس عزم پر سوال اٹھایا۔
آر ایس ایف، جو بیس سال قبل دارفور میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا کرنے والی جنجوید ملیشیا سے وجود میں آئی اور سوڈانی فوج، دونوں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد ہیں، امریکا پہلے ہی یہ قرار دے چکا ہے کہ آر ایس ایف نے دارفور میں نسل کشی کی۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق آر ایس ایف کو متحدہ عرب امارات سے ہتھیار اور ڈرون فراہم کیے گئے، تاہم اماراتی حکام نے بیان میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی کسی بھی حمایت کے الزام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔

دوسری جانب فوج کو مصر، سعودی عرب، ایران اور ترکیہ کی حمایت حاصل ہے۔ الفاشر پر قبضے کے بعد آر ایس ایف نے دارفور کے تمام 5 صوبائی دارالحکومتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے ملک عملاً مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ تشدد اب پڑوسی علاقے کردوفان تک پھیل رہا ہے، جہاں بڑے پیمانے پر مظالم کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

مجموعی طور پر اس جنگ نے دسیوں ہزار افراد کو ہلاک، تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ کو بے گھر کر دیا ہے، اور یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی نقل مکانی اور قحط کا بحران بن چکا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجنگ بندی کے باوجود غزہ میں صیہونی فوج کے حملے، مزید 5 فلسطینی شہید جنگ بندی کے باوجود غزہ میں صیہونی فوج کے حملے، مزید 5 فلسطینی شہید غزہ میں اسرائیل فضائی حملے کے دوران نوجوان فلسطینی باکسر شہید عیسائیوں کے قتل عام کا الزام: ٹرمپ کا نائیجیریا میں فوجی کارروائی کیلئے تیاری کا حکم بھارت سے آنے والی ہواؤں سے لاہور کی فضا انتہائی مضر صحت سابق وزیراعظم شاہد خاقان دل کی تکلیف کے باعث ہسپتال منتقل پشاور: سی ٹی ڈی تھانے میں شارٹ سرکٹ سے بارودی مواد پھٹ گیا، ایک اہلکار جاں بحق TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بلیدہ میں پکنک پر گئے 4نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد، خاندانوں میں صف ماتم
  • خان گڑھ: اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس شاہ ،رکن قومی اسمبلی سردار علی گوہر خان مہر سے والدہ کے انتقال پر تعزیت کررہے ہیں
  • جماعت اسلامی کے سابق رکن سندھ اسمبلی اخلاق احمد مرحوم کی اہلیہ انتقال کر گئیں
  • سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل
  • امریکا میں آنتوں کی مخصوص بیماری میں خطرناک اضافہ
  • بالی ووڈ کے کپور خاندان پر ڈاکیومنٹری جلد نیٹ فلیکس پر ریلیز کی جائے گی
  • رکن قومی اسمبلی علی گوہر مہر اور علی نواز مہر کی والدہ انتقال کر گئیں
  • ایک ماہ میں 9271 گھر مکمل کیے گئے: محکمہ ہاؤسنگ پنجاب
  • اپنی چھت اپنا گھر اسکیم، ایک ماہ میں ریکارڈ قرضے بلا سود جاری
  • ای چالان کے ذریعے شناختی کارڈ بلاک کرنے کی دھمکی سمجھ سے بالاتر ہے‘ سردار عبدالرحیم