سعودیہ پاکستان معاہدہ، خلیجی ریاستوں اور امریکہ و اسرائیل کے درمیان دراڑ کا مظہر
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سعودیہ بقیہ خلیجی ریاستوں کی طرح اسرائیل کو حقیقی خطرہ قرار دے رہا ہے، یہ دفاعی معاہدہ مشرق وسطیٰ میں تیز رفتار اور غیر متوقع تبدیلیوں کا ایک کثیر جہتی ردعمل ہے۔ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد امریکی سلامتی کے وعدوں پر عدم اعتماد نے خلیجی ریاستوں کو متبادل اتحاد تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ نہ صرف واشنگٹن پر انحصار کا متبادل ہے، بلکہ اسرائیل کو ایک مضبوط پیغام بھی دیتا ہے کہ سعودی عرب ہر ممکن طریقے سے اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔ یہ نتائج عرب اسلامی اتحاد کو مضبوط کرنے سے لے کر خلیج فارس میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے تک علاقائی مساوات کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد چند روز کے اندر ہی سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کا ردعمل ہے۔ 17 ستمبر 2025 کو سعودی عرب اور پاکستان نے ایک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جس نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ فوجی تعاون کو ادارہ جاتی شکل دی، بلکہ یہ مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی سیاسی پیش رفت کی علامت اشارہ ہے۔ 9 ستمبر 2025 کو قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد علاقائی کشیدگی اور فیصلہ کن امریکی ردعمل کے فقدان کے تناظر میں اس معاہدے کو خلیجی ریاستوں کے امریکی سلامتی کے وعدوں پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کے ردعمل سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، اس معاہدے نے اسرائیل کو ایک قطعی پیغام بھیجا ہے کہ سعودی عرب کسی بھی ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاریخی تناظر اور معاہدے کے محرکات:
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے فوجی، اقتصادی اور مذہبی تعاون پر مبنی تعلقات ہیں۔ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کا حامل واحد اسلامی ملک ہے، اپنے ایٹمی پروگرام کے آغاز سے سعودی، ایرانی اور لیبی مالی امداد سے مستفید ہوا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے دستخط کیے گئے نئے معاہدے میں کسی بھی جارحیت کے خلاف باہمی دفاع کے مشترکہ عزم کی وضاحت کی گئی ہے۔ پاکستان کی طرف سے جاری کیے گئے سرکاری بیان میں اس معاہدے کو باہمی ڈیٹرنس اور علاقائی امن کو مضبوط کرنے کے لیے ایک قدم قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کا وقت، قطر پر اسرائیل کے حملے کے صرف ایک ہفتے بعد، واضح طور پر کچھ فوری محرکات کی نشاندہی کرتا ہے۔
جیسا کہ ایک سینئر سعودی اہلکار نے رائٹرز گفتگو میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ برسوں کے مذاکرات کا نتیجہ تھا اور یہ کسی خاص واقعہ کا ردعمل نہیں تھا۔ تاہم، قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد کی صورتحال اور اسرائیلی حملے کے بعد امریکہ کیطرف سے فوری اور واضح ردعمل نے اآنے کی وجہ سے، دنیا کے تجزیہ کاروں کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ یہ معاہدہ حالیہ پیش رفت کا ایک تزویراتی ردعمل ہے۔ اس معاہدے میں "تمام فوجی اثاثے" استعمال کرنا شامل ہے، یہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو جوہری چھتری فراہم کرنے کے امکان کو ظاہر کرتا ہے، لیکن بظاہر سعودی حکام نے اسے محض ایک "جامع دفاعی معاہدہ" قرار دیا ہے۔
امریکہ پر اعتماد اور انحصار کا ناکافی ہونا:
9 ستمبر 2025 کو قطر پر اسرائیل کا حملہ، خلیجی ریاستوں کی علاقائی سلامتی کے تصورات اور تفہیم میں تبدیلی کا سبب بنا ہے۔ دوحہ میں حماس کے سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنا کر، جو غزہ میں جنگ بندی پر بات چیت کر رہے تھے، اسرائیل نے نہ صرف قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی، بلکہ قطر کی جانب سے ثالثی کی کوششوں پر علاقائی اور عالمی اعتماد کو مجروح کرنے کیساتھ ساتھ قطر کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا۔ اس حملے میں ایک قطری سیکیورٹی افسر سمیت چھ افراد جاں بحق ہوئے، عرب ممالک کی جانب سے وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔ قطر نے اسے "ریاستی دہشت گردی" قرار دیا اور سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا، لیکن امریکہ نے صرف تشویش کا اظہار کیا۔ حالانکہ امریکہ نہ صرف قطر کا اہم اتحادی ہے بلکہ اس کے پاس دوحہ کا وسیع و عریض العدید فوجی اڈہ بھی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی واضح مذمت کیے بغیر اس حملے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے حماس کو ختم کرنے کے ہدف پر زور دیا۔ قطر کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچنے اور العدید ایئربیس کو استعمال کرنے والے امریکہ کا یہ کمزور موقف خلیجی ریاستوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ قطر کو واشنگٹن کی مضبوط حمایت کی توقع تھی اسے اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ اسرائیل کے خلاف امریکی تحفظ کی ضمانتیں غیر موثر تھیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ قیاس کو چکنا چور ہو گیا ہے کہ خلیجی ریاستیں سلامتی کے حتمی ضامن کے طور پر امریکہ پر انحصار کرتی تھیں۔ پلیٹ فارم X پر متعدد پوسیں اس عدم اعتماد کی عکاسی کرتی ہیں جیسا کہ صارفین کہہ رہے ہیں کہ "قطر پر اسرائیل کے حملے اور امریکہ کی خاموشی نے خلیج کو نئے اتحادوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔" یہ عدم اعتماد سعودیہ پاکستان معاہدے کا ایک اہم محرک تھا، کیونکہ اس صورتحال میں ریاض واشنگٹن پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے متبادل تلاش کر رہا ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملے کے اثرات:
قطر پر اسرائیلی حملے کے بہت دور رس نتائج نکلے، جو قطر اور امریکہ کے باہمی تعلقات سے آگے نکل چکے ہیں۔
1۔ سب سے پہلے، اس حملے نے غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات کو بری طرح متاثر کیا، جس میں قطر ثالثی کر رہا تھا۔ اگرچہ قطر نے کہا ہے کہ وہ اپنا ثالثی کا کردار جاری رکھے گا، لیکن اس عمل میں اعتماد ختم ہو گیا۔
2۔ دوسرا، اس واقعے نے عرب اتحاد کو مضبوط کیا۔ 15 ستمبر کو عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی سربراہی اجلاس میں قطر کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا گیا اور اسرائیل کو مزید حملوں کی صورت میں ردعمل کی وارننگ بھی دی گئی۔
3۔ تیسرا، اس حملے نے خلیجی ریاستوں کے لئے اسرائیل کو سلامتی کے خطرے کے طور پر واضح کر دیا ہے۔ ترجیحات میں اس تبدیلی نے خلیجی ریاستوں کو اپنی سیکورٹی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔
4۔ اقتصادی نقطہ نظر سے، امریکہ پر عدم اعتماد توانائی کی عالمی منڈیوں کے استحکام کو متاثر کر سکتا ہے، کیونکہ خلیج فارس تیل اور گیس کا ایک بڑا منبع اور ذریعہ ہے۔
5۔ واشنگٹن پر اعتماد میں کمی بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کم سرمایہ کاری اور چین اور ایران جیسی طاقتوں کے ساتھ تعاون میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
اسرائیل کے لیے سخت پیغام:
سعودیہ پاکستان معاہدے کا ایک اہم مقصد اسرائیل کو ڈیٹرنس کا پیغام دینا تھا۔ قطر پر حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل تیزی سے جارحانہ رجحان کیوجہ سے امریکہ کے قریبی اتحادیوں کو بھی نشانہ بنانے کے لیے تیار ہے۔ اسی وجہ سے ریاض میں گہری تشویش پیدا ہوئی۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی سفارتی تعلقات کو بھی مضبوط کیا تھا۔ پاکستان کے ساتھ جوہری صلاحیتوں کے استعمال کے حامل معاہدے پر دستخط تل ابیب کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ سعودی سرزمین پر کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، یہ جواب جوہری حملہ بھی ہو سکتا ہے۔
نتیجہ:
سعودیہ بقیہ خلیجی ریاستون کی طرح اسرائیل کو حقیقی خطرہ قرار دے رہا ہے، یہ دفاعی معاہدہ مشرق وسطیٰ میں تیز رفتار اور غیر متوقع تبدیلیوں کا ایک کثیر جہتی ردعمل ہے۔ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد امریکی سلامتی کے وعدوں پر عدم اعتماد نے خلیجی ریاستوں کو متبادل اتحاد تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ نہ صرف واشنگٹن پر انحصار کا متبادل ہے، بلکہ اسرائیل کو ایک مضبوط پیغام بھی دیتا ہے کہ سعودی عرب ہر ممکن طریقے سے اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔ یہ نتائج عرب اسلامی اتحاد کو مضبوط کرنے سے لے کر خلیج فارس میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے تک علاقائی مساوات کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قطر پر اسرائیلی حملے کے قطر پر اسرائیل کے حملے اسرائیلی حملے کے بعد کرنے پر مجبور کیا نے خلیجی ریاستوں کے لیے تیار ہے دفاعی معاہدہ کہ سعودی عرب کہ اسرائیل یہ پاکستان واشنگٹن پر اسرائیل کو پاکستان کے کی جانب سے اس معاہدے سلامتی کے یہ معاہدہ ردعمل ہے کو مضبوط کے ساتھ کرنے کے نے خلیج اس حملے رہا ہے قطر کی کا ایک
پڑھیں:
دفاعی معاہدہ: پی سی اے اے ہیڈکوارٹر پر سعودی پرچم لہرا دیا گیا
—فائل فوٹوزپاکستان سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہونے پر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم کے ساتھ سعودی پرچم لہرا دیا گیا۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (پی سی اے اے) کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ اقدام سعودی عرب سے پاکستان کے برادرانہ تعلقات کی علامت ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوجی طاقت اور سعودی مالی وژن سے خلیج کی سلامتی میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جس کا مرکز سعودی عرب و پاکستان کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت داری ہے۔
سعودی اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ دفاعی معاہدہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان طویل المدتی تعاون کا عکاس ہے۔
گزشتہ روز ریاض میں ہونے والے تاریخی معاہدے کے تحت کسی بھی ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
سعودی عرب اور ایٹمی طاقت پاکستان کے درمیان ریاض میں جامع دفاعی معاہدہ ہو گیا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پاک سعودی ’اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی 8 دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری ہے۔