سرکاری اسکولوں کے صرف 12 فیصد طلبا کراچی کے بڑے کالجوں میں داخلہ لے سکے
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
کراچی کے سرکاری اسکولوں کے صرف 12 فیصد طلبا شہر کے 12 بڑے اور معروف سرکاری کالجوں میں داخلہ لے سکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق تعلیمی معیارات کے حوالے سے کراچی کے معتبر سمجھے جانے والے 12 بڑے اور معروف سرکاری کالجوں میں سرکاری اسکولوں کے صرف 12 فیصد طلبا داخلے لے سکیں ہیں جبکہ ان کالجوں میں باقی 88 فیصد داخلے شہر کے نجی اسکولوں سے میٹرک کرنے والے طلبا نے حاصل کیے ہیں کیونکہ ان کالجوں میں ترتیب دیے گئے میرٹ پر داخلہ حاصل کرنے والوں میں صرف12 فیصد ہی سرکاری اسکولوں کے طلبا پورا اتر سکیں ہیں۔
"ایکسپریس" کو اس حوالے سے ملنے والے اعداد و شمار دلچسپ اور حیرت انگیز ہیں جس کے مطابق کچھ بڑے سرکاری کالجوں میں تو انٹر سال اول(پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور سائنس جنرل) میں 5 سے 11 فیصد تک ہی سرکاری اسکولوں کے طلبا ہیں۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اساتذہ کی بھرتیوں اور خطیر بجٹ کے باوجود سرکاری اسکولوں کی کارکردگی اب تک سوالیہ نشان ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی میں تدریسی اعتبار کے حوالے سے مستند سمجھے جانے والے آدمی جی گورنمنٹ سائنس کالج میں اس برس اگست 2025 میں داخلہ حاصل کرنے والوں میں سے صرف 4 فیصد طلبا کا تعلق سرکاری اسکولوں سے ہے اور 96 فیصد طلبا ایسے ہیں جنھوں نے نجی اسکولوں سے میٹرک پاس کیا ہے۔
کل 825 میں سے 33 طلبا سرکاری جبکہ 792 نجی اسکولوں سے یہاں آئے، سائنس فیکلٹی کا ایک اور مستند ادارہ ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج بھی چونکہ میرٹ میں اوپر ہے لہذا سرکاری اسکولوں کے طلبا کی تعداد یہاں بھی محدود ہے۔
اس کالج میں انٹر سال اول میں داخلہ لینے والے کل 1633 طلبا میں 1486 کا تعلق نجی اور صرف 147 کا تعلق سرکاری اسکولوں سے ہے، یعنی سرکاری اسکولوں کے صرف 9 فیصد طلبا یہاں داخلہ لے سکیں ہیں اسی طرح گورنمنٹ دہلی انٹر سائنس کالج کل 719 داخلوں میں سے 659 نجی اور 60 داخلے سرکاری اسکولوں کے طلبا کے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کے طلبا کے داخلوں کی شرح 8.
مزید براں گورنمنٹ کالج برائے طالبات ناظم آباد میں کل 1841 داخلوں میں 1564 نجی اور 277 سرکاری اسکولوں کی طالبات ہیں سرکاری اسکولوں کی طالبات کی شرح داخلہ 15 فیصد ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرکاری اسکولوں کے طلبا سرکاری اسکولوں کے صرف نجی اسکولوں کالجوں میں اسکولوں سے فیصد طلبا میں داخلہ
پڑھیں:
اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپین: میڈرڈ کی قدامت پسند حکومت نے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت پر خاموشی سے پابندی عائد کردی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپین کے دارالحکومت نے مختلف اسکولوں کو فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے تمام نشانات، جن میں فلسطینی پرچم بھی شامل ہیں، ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی موقف یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور فلسطین کی حمایت ایک سیاسی معاملہ ہے، یہ ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں کیونکہ اس سے قبل میڈرڈ ریجن کے کئی اسکول مہینوں تک فلسطین کے حق میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اسی حکومت نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تعلیمی اداروں میں یوکرین کی حمایت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس سے اس فیصلے پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اسپین کی قومی سیاست میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے، گزشتہ دنوں میڈرڈ ریجن کی پاپولر پارٹی کی سربراہ ایزابیل دیاس اییوسو نے وزیراعظم پیڈرو سانچیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے ملکی آزادی اور کھیلوں کے تقدس پر حملہ ہیں۔
اسی دوران پاپولر پارٹی کے قومی سربراہ البیرتو نونیز فیخوو نے بھی حکومت کی فلسطین نواز پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سانچیز اپنی ناکامیوں اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،میں آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ غزہ میں ہونے والی اموات کو ہسپانوی عوام کے خلاف استعمال کریں۔”
جواب میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے فیخوو کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حالیہ سروے کے مطابق 82 فیصد اسپین کے عوام غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت یورپی یونین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے مؤثر آواز رہی ہے۔ 2024 میں اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر مستقل اسلحہ پابندی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے درآمدات پر بھی پابندی عائد کی۔
میڈرڈ ریجن کی حکومت کی اس پالیسی نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید بحث کو جنم دیا ہے اور یہ واضح تضاد اجاگر کیا ہے کہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ فلسطین کی حمایت کو دبایا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔