بچوں میں بڑھتا ہوا شوگر کا مرض
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں صحت کے شعبے کو درپیش مسائل میں اب ایک اور خطرناک پہلو شدت اختیار کر رہا ہے، جو کہ محض نوجوانوں یا بڑوں تک محدود نہیں بلکہ اب کمسن بچوں کو بھی لپیٹ میں لے رہا ہے، اور وہ ہے ’’ذیابیطس‘‘ یعنی شوگر کا مرض۔ حالیہ رپورٹوں اور مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں بچوں میں ذیابیطس کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو نہ صرف والدین کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے تشویشناک ہے۔ شوگر کے مریض کی خبریں محض اب گھر گھر کی ہے۔ ہزاروں گھروں کی ہے، لیکن جہاں والدین اب اس پریشانی سے دوچار ہیں کہ اْن کے چھوٹے بچے بھی انسولین ڈپنڈنٹ ذیابیطس (ٹائپ 1) یا غیر صحت مند طرزِ زندگی کے باعث ٹائپ 2 ذیابیطس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر پاکستان اس وقت ذیابیطس کے مریضوں کی شرح کے حوالے سے بدترین مقام یعنی پہلا نمبر حاصل کر چکا ہے۔ یہ حقیقت محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم کس طرف جدید دنیا کی دلکشی سے متاثر ہوکر جارہے ہیں، شوگر کا مرض ایک دائمی بیماری ہے جو صرف جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ معاشی اور نفسیاتی زندگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اور جب یہ مرض بچوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو ایک مکمل خاندان متاثر ہوتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے بحران کی بڑی وجوہات میں غیر متوازن خوراک، جسمانی سرگرمیوں کی کمی، مسلسل اسکرین ٹائم، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا رجحان، اور نیند کے غیر متوازن اوقات شامل ہیں۔ اگرچہ جینیاتی عوامل بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر کیسز میں مسئلہ طرزِ زندگی کی خرابی کا ہے۔ آج کے بچے کھیل کے میدان سے زیادہ موبائل اسکرین کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ ناشتے میں پروسیسڈ اشیاء، لنچ میں فاسٹ فوڈ اور رات کو سونے سے قبل چاکلیٹ اور کولڈ ڈرنکس، یہ سب کچھ ایک ’شوگر بم‘ ہے جو آہستہ آہستہ پھٹتا ہے اور جسم کو اندر سے تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے وقت آ چکا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایک بڑی اور سنجیدہ تبدیلی کی طرف بڑھیں۔ ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے طرزِ زندگی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے معمولات میں جسمانی سرگرمی کو شامل کریں، صحت بخش خوراک کو ترجیح دیں، اور میٹھے مشروبات و جنک فوڈ سے بچوں کو دور رکھیں۔ اسکولوں میں بھی صحت سے متعلق تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ بچے خود بھی اپنے جسم کی ضروریات کو سمجھ سکیں۔ حکومت اور طبّی اداروں کو چاہیے کہ وہ بچوں میں ذیابیطس کے بارے میں آگاہی مہمات شروع کریں، اور والدین کے لیے آسان ٹیسٹنگ اور مشورہ سازی کی سہولتیں فراہم کریں۔ ہمیں صرف مرض کے علاج پر نہیں بلکہ اس کی روک تھام پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ بچوں میں شوگر کا بڑھتا ہوا مرض ایک الارم ہے، اگر ہم نے بروقت اقدام نہ کیا تو یہ خاموش قاتل ہماری آنے والی نسلوں کو گھائل کر دے گا۔ ابھی بھی وقت ہے، طرزِ زندگی بدلیے، آگہی پیدا کیجیے اور صحت مند کل کی طرف قدم بڑھائیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ بچوں میں شوگر کا
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟