وفاقی کابینہ نے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ ڈویژن کی سمری پر5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ کابینہ نے سرکولیشن کے ذ ریعے سمری کی منظوری دی۔
کابینہ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ چینی کی درآمد حکومتی شعبے کے ذریعے کی جائے گی۔ چینی کی درآمد کیلئے تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ کابینہ کے فیصلے پر فوری عمل درآمد شروع کیا جا رہا ہے۔
چینی درآمد کرنے سے متعلق وفاقی کابینہ کے فیصلے پر مختلف حلقوں کی جانب سے خاصی تنقید سامنے آئی ہے۔ ناقدین یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ جب ملکی ضرورت پوری کرنے کیلئے چینی کا وافر ذخیرہ موجود نہیں تھا تو حکومت نے شوگر ملز کو گذشتہ مالی سال کے دوران چینی برآمد کرنے کی اجازت ہی کیوں دی تھی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے ساڑھے 7 لاکھ ٹن سے زائد چینی کی برآمد کی تھی جبکہ اب حکومت نے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری بیان کے مطابق لاکھوں ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت ‘مقامی مارکیٹ میں مناسب سپلائی اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانے کیلئے دی گئی۔
چینی کے بحران نے اس وقت جنم لیا جب حکومت نے 750000 ٹن چینی درآمد کرنے کا کیا جبکہ گذشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 750000 ٹن سے زائد چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ معاشی امور کے ماہرین کا کہناہے کہ جب چینی برآمد کرنے کا فیصلہ لیا گیا اور چینی کے ذخائر کے حوالے سے جو اعداد وشمار دیے گئے تھے ان کا جب آزادانہ جائزہ لیا گیا تو چینی کا اتنا ذخیرہ موجود نہیں تھا ،چینی کی برآمد کی اجازت لینے کیلئے جوظاہر کیا گیا تھا تاہم تمام حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے مبینہ طورپر چند با اثر سیاستدانوں کے دباؤ پر ایک سیاسی فیصلہ کیا گیا اور حقائق کی چھان بین کئے بغیر چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی جس سے شوگر ملز مالکان نے 2 فائدے اٹھائے۔ ایک تو انھوں نے غیر ملکی مارکیٹ سے چینی برآمد کر کے زرمبادلہ کمایادوسرے شوگرملز نے اپنے موجودہ اسٹاکز کودرآمدی قیمت کے مطابق قیمت پر فروخت کیا اور درآمدی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے چینی کی قیمت میں اضافے کا فائدہ بھی انھوں نے اٹھایا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اجناس سے متعلق امور کے ماہرین نے اس وقت بھی چینی کی برآمد کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں اس وقت چینی کی قیمت بعض شہروں میں 190 روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ ہفتے چینی کی فی کلو ریٹیل قیمت 182 فی کلو تھی جو گذشتہ سال 143 روپے تھی۔ سرکاری اعلان کے مطابق چینی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومت نے چینی کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم 30 جون 2025 کو ختم ہونے والے مالی سال میں 750000 ٹن چینی کی برآمد کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے ذریعے شوگر ملز نے چینی برآمد کر کے غیر ملکی زرمبادلہ کی صورت میں آمدنی حاصل کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی ایسا ہی ایک تنازع پیدا ہوتا تھا۔ اپوزیشن کی تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ایف آئی اے نے ایک انکوائری بھی کی تھی جس میں ملک میں چینی کی قلت اور اس کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار شوگر ملز کو قرار دیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی اس انکوائری رپورٹ میں جے ڈی ڈبلیو یعنی جمالدین والی گروپ، رحیم یار خان گروپ، اومنی گروپ، شامین احمد خان گروپ کی شوگر ملز کو اس وقت چینی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔اس انکوائری میں ملز کو چینی کی برآمد کے لیے برآمدی سبسڈی سے فائدہ اٹھا کر منافع کمانے کے ساتھ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے سے زیادہ منافع کمانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس وقت بھی چینی کی برآمد کی وجہ سے اس کی قیمت مقامی منڈی میں کافی اوپر چلی گئی تھی۔دوسری جانب مقامی مارکیٹ میں صارفین کے لیے اس کی قیمت بڑھ گئی تھی ۔ کراچی گروسری ہول سیلرز ایسوسی ایشن رکا کہناہے کہ چینی برآمد کرنے کے فیصلے نے چینی کی قیمت کو بڑھایا تاہم اس کے ساتھ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور سٹے بازی بھی چینی کی قیمت کو بڑھا رہی ہے۔
جہاں تک شوگر انڈسٹری کا تعلق ہے توپاکستان کے صنعتی شعبے میں شوگر انڈسٹری کا حصہ قریب ساڑھے تین فیصد ہے۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے 48 ارکان ہیں۔ تاہم ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نامی سرکاری ادارے کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 72 شو گر ملز کام کر رہی ہیں۔ جبکہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی تعداد 85 ہے جن کی اکثریت یعنی 45 شوگر ملز پنجاب میں قائم ہیں جبکہ سندھ میں ان کی تعداد 32 اور خیبر پختونخوا میں8 ہے۔ جمال دین والی شوگر مل کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق شریف گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی ملکیت میں2 شوگر ملز ہیں جن میں سے ایک رمضان شوگر مل اور دوسری العربیہ شوگر مل ہے۔ شریف گروپ کی بنیاد میاں محمد شریف نے رکھی تھی جو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے والد ہیں۔ اسی طرح کشمیر شوگر مل الشفیع گروپ کی ملکیت ہے جو شریف فیملی کے رشتہ دار ہیں۔حسیب وقاص گروپ 3 شوگر ملوں کا مالک ہے۔ گروپ کی ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات کے مطابق اس کی ملکیت میں حسیب وقاص شوگرملز، یوسف شوگر ملز اور عبداللہ شوگر ملز ہیں۔ حسیب وقاص گروپ میاں الیاس معراج کی ملکیت ہے جو میاں نواز شریف اور میاں شہاز شریف کے کزن ہیں۔ تاندلیانوالہ شوگر ملز کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق اس کی ملکیت میں دوسرے افراد کے ساتھ ہمایوں اختر خان بھی شامل ہیں جو سابق وفاقی وزیر ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون اختر خان بھی ہیں جو اس وقت وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں۔ ملتان میں قائم فاطمہ شوگر مل کی ویب سائٹ پر معلومات کے مطابق اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فیصل مختار ہیں جو ملتان کے سابق ضلع ناظم ہیں۔نون شوگر ملز کے بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیف اللہ خان نون ہیں جو معروف سیاسی خاندان نون فیملی کا حصہ ہیں۔راجن پور کا دریشک خاندان انڈس شوگر ملز راجن پور میں حصہ دار ہے۔ 2018 کے انتخابات میں راجن پور سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے سردار حسنین بہادر خان دریشک ماضی میں صوبے کے وزیر خزانہ اور لائیو سٹاک کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ ان کے الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق وہ اس مل میں حصہ دار ہیں۔ جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ہیں جس کی ملکیت میں3 شوگر ملز ہیں۔ ان میں2پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور ایک سندھ کے ضلع گھوٹکی میں موجود ہے۔اس گروپ کے بورڈ کے ڈائریکٹر اور چیئرمین مخدوم احمد محمود ہیں جو سابق گورنر پنجاب ہیں۔ اسی طرح ان کے بیٹے سید مصطفی محمود بھی ایک بورڈ کے ایک ڈائریکٹر ہیں جو رحیم یار خان سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے ہیں۔رحیم یار خان گروپ کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق اس کی ملکیت شوگر مل رحیم یار خان میں واقع ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مخدوم عمر شہر یار ہیں جو سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہیں۔ الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کے تفصیلات کے مطابق اس گروپ کے مالکان میں کیسکیڈ ٹیک کمپنی بھی شامل ہے جس میں چوہدری مونس الہی شیئر ہولڈرز ہیں۔ وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے بیٹے ہیں۔یہی رحیم یار خان شوگر ملز، الائنس شوگر ملز کی بھی مالک ہے۔ اشرف گروپ آف انڈسٹریز کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع بہاولپور میں واقع اشرف شوگر ملز چوہدری ذکا اشرف کی ملکیت ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اور صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ سندھ میں شوگر ملز کی ملکیت کو دیکھا جائے تو اومنی گروپ کی ویب سائٹ پر فراہم معلومات کے مطابق یہ گروپ 9شوگر ملز کی مالک ہے جن میں انصاری شوگر ملز، باوانی شوگرملز، چمبر شوگر ملز، خوسکی شوگر ملز، لاڑ شوگر ملز، نو ڈیرو شوگر ملز، نیو دادو شوگر ملز، نیو ٹھٹھہ شوگر ملز اور ٹنڈو اللہ یار شوگر ملز شامل ہیں۔ اومنی گروپ انور مجید کی ملکیت ہے جو اگرچہ براہ راست سیاست میں شامل نہیں تاہم ان کا شمار صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ انور مجید کو آصف زرداری کے ساتھ جعلی بینک اکاونٹس کیس میں شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔ سندھ کے ضلع بدین میں قائم مرزا شوگر ملز کی ا سٹاک مارکیٹ پر دی گئی آخری معلومات کے مطابق اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شامل ہیں جو سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور سابق ا سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے شوہر ہیں۔ خیبر پختونخوا میں قائم شوگر ملز میں پریمیئر شوگر ملز اور چشمہ شوگر ملز عباس سرفراز خان کی ملکیت ہیں جو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی وفاقی کابینہ کا حصہ تھے۔اسی طرح تاندلیانوالہ شوگر ملز کا ایک یونٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہے جو اختر فیملی کی ملکیت ہے۔
چینی سے متعلق تنازعات پر اکثر شوگر ملز مالکان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے منافع کی قیمت عام صارفین کو چکانی پڑتی ہے۔درحقیقت ملک میں قائم کئی شوگر ملز کاروباری افراد کے علاوہ بااثر سیاسی شخصیات اور خاندانوں کی ملکیت میں بھی ہیں،یہ ایک حقیقت ہے کہ چینی اس ملک کے ہر طبقے کی روزمرہ کی ضروریات میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں شوگر ملز کو کسی مسابقت کا سامنا نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی پیداوار سے لے کر اس کی مارکیٹ میں فروخت تک، ہر چیز پر اثر انداز ہوتے ہیں پاکستان میں خالصتاً کاروباری گروپوں کے علاوہ سیاسی افراد شوگر ملز کے مالک یا ان میں حصے دار ہیں۔پاکستان میں چینی کی تجارت اور قیمتوں سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر ان کے اثرانداز ہونے کے بارے میں حقیقت کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتا ہے کہ جب شوگر ملز کو سبسڈی چاہیے ہوتی ہے تو انھیں مل جاتی ہے، جب برآمد کرنے کی اجازت چاہیے وہ بھی مل جاتی ہے اور جب چینی درآمد کرنے کی اجازت چاہیے تو وہ بھی مل جاتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ شوگر ملز مالکان کا حکومتی پالیسیوں پر اثر و نفوذ ہے اس سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ یہ پالیسیاں ،عوام کی ضرورت اور آسانی کو مدنظر رکھ کر نہیں بلکہ شوگر ملز مالکان کے نکتہ نظر سے بنائی جاتی ہیں۔ یہ ایک قسم کا کارٹیل ہے اور ان کی ایسوسی ایشن بھی بہت طاقتور ہے۔ اس کی قیمت بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر ہر چند برس بعد بحران جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔چینی کی امپورٹ ایکسپورٹ کے علاوہ ہر سال ملک میں گنے کے کرشنگ سیزن کے وقت قیمت کے تعین سے لے کر کسانوں کو ادائیگی میں تاخیر تک، مختلف نوعیت کے تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔چونکہ خود وزیراعظم اور ان کے قریبی عزیز اور معاونین اس کاروبار سے منسلک ہیں اس لئے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے والا بظاہر کوئی نہیں ہے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کی ویب سائٹ کے مطابق کے مطابق اس کی ملکیت معلومات کے مطابق اس برآمد کرنے کی اجازت چینی درآمد کرنے کی ٹن چینی درآمد کرنے گروپ کی ویب سائٹ چینی برآمد کرنے شوگر ملز مالکان کی ویب سائٹ پر چینی برآمد کر چینی کی برآمد رحیم یار خان کی ملکیت میں چینی کی قیمت شوگر ملز کی ہیں جو سابق شوگر ملز کو مارکیٹ میں اس کی قیمت کے فیصلے حکومت نے مالی سال جاتی ہے ملک میں گیا تھا کے بورڈ بورڈ کے کے ساتھ شوگر مل
پڑھیں:
ایف بی آر نے 5 لاکھ ٹن چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دے دی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی حکومت نے چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کے بعد 5 لاکھ ٹن چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دینے کی منظوری دے دی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے نجی شعبے کو 30 ستمبر 2025 تک درآمد کی جانے والی چینی پر ٹیکس چھوٹ کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق درآمد شدہ چینی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 0.25 فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ 3 فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس سے بھی چھوٹ دی گئی ہے۔یہ فیصلہ پہلے چینی کی بڑے پیمانے پر برآمد کے بعد آیا جس سے ملکی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اب درآمد کے ذریعے قلت کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے پھر ایران کو دھمکی دیدی
مزید :