روسی تیل سے بچت یا امریکی ناراضی؟ بھارت کا نازک سفارتی توازن
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
بھارت ایک پیچیدہ سفارتی موڑ پر کھڑا ہے، امریکی سینیٹ میں پیش کردہ ایک بل کے تحت، جو روسی تیل درآمد کرنے والے ممالک پر 500 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی تجویز دیتا ہے، بھارت کی توانائی کے تحفظ کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں، بھارت اس وقت اپنی تقریباً نصف خام تیل کی ضروریات روس سے پوری کرتا ہے، جو اسے مہنگی عالمی منڈی سے بچانے کا ذریعہ بنا ہے۔
2024-25 کے دوران بھارت نے سستے روسی تیل کے ذریعے تقریباً 7.
یہ بھی پڑھیں: بھارتی معیشت کو بڑاجھٹکا،امریکا کیساتھ تجارت پر 10فیصد ٹیرف عائد ہوگا
تاہم بھارت کی ’تذویراتی خودمختاری‘ کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ قومی مفاد پر مبنی آزادانہ پالیسی سازی ہے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے اس تبصرے کو ’جب وقت آئے گا، ہم فیصلہ کریں گے‘ کچھ مبصرین حکمت عملی پر مبنی ابہام قرار دیتے ہیں۔
بھارت روسی تیل اکثر جی7 کی مقرر کردہ 60 ڈالر فی بیرل حد سے کم قیمت پر خریدتا ہے، لیکن وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس حد کا پابند نہیں ہے۔ اگر امریکا یہ بل منظور کرتا ہے، تو بھارت پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا کہ وہ یوکرین کی حمایت میں واضح پوزیشن لے یا سخت معاشی نتائج کا سامنا کرے۔
یہ ممکنہ 500 فیصد ٹیرف صرف توانائی کا معاملہ نہیں بلکہ بھارت کی امریکا کو 80–90 ارب ڈالر سالانہ برآمدات کے لیے ایک خطرہ ہے، جن میں دوا سازی، آٹو پارٹس، ٹیکسٹائل اور انجینئرنگ مصنوعات شامل ہیں۔ یہ شعبے بالواسطہ طور پر تیل سے منسلک ہیں، اور ٹیرف لگنے کی صورت میں انہیں شدید نقصان ہو سکتا ہے۔
یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے: کیا تزویراتی شراکت داری معاشی دباؤ کے ساتھ چل سکتی ہے؟
بھارت کی ممکنہ حکمت عملیممکنہ امریکی پابندیوں اور روسی تیل کی درآمدات پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے پیش نظر، بھارت کو اپنی توانائی پالیسی میں جامع تیاری کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو متعدد محاذوں پر حکمت عملی اپنانا ہوگی، جن میں سب سے اہم تیل کے ذرائع کی تنوع کاری ہے، خاص طور پر خلیجی ممالک اور افریقہ جیسے متبادل سپلائرز سے درآمدات بڑھانا۔
اس کے ساتھ ساتھ، اسٹریٹجک پیٹرولیم ذخائر میں اضافے پر بھی توجہ دینا ناگزیر ہے تاکہ کسی فوری عالمی بحران کی صورت میں ملک کے پاس وافر ذخائر موجود ہوں۔
مزید پڑھیں: بھارت میں آئی فون بنائے تو 25 فیصد ٹیرف عائد ہوگا، امریکی صدر ٹرمپ نے خبردار کردیا
بھارت کو چاہیے کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کے تحت قانونی چارہ جوئی کے راستے کو بھی اختیار کرے، جیسا کہ مشاورت یا جوابی محصولات جیسے اقدامات، تاکہ یکطرفہ پابندیوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، توانائی کے شعبے میں پائیداری کے لیے صاف اور قابلِ تجدید ذرائع کی طرف تیزی سے منتقلی کو بھی حکومتی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں تیل پر انحصار کم ہو اور معیشت بیرونی جھٹکوں سے محفوظ رہ سکے۔
روس بھارت کا پرانا تزویراتی شراکت دار ہے، خاص طور پر دفاع، توانائی، اور خلائی تعاون کے شعبوں میں۔ اگر بھارت امریکی دباؤ میں آ کر روسی تیل خریدنا کم کرتا ہے تو روس ناراض ہو سکتا ہے، جس سے مستقبل کے معاہدے مہنگے اور شرائط سخت ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف، اگر بھارت امریکا کے خلاف جاتا ہے تو بھارت-امریکا شراکت داری — جو دفاع، کوانٹ کواڈ، سیمی کنڈکٹر اور ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے — سست ہو سکتی ہے۔
تذویراتی خودمختاری کا اصل مفہوم500 فیصد ٹیرف کی دھمکی بھارت کے لیے معاشی خودمختاری، سفارتی لچک اور عالمی حیثیت کا امتحان ہے۔ بھارت کو امریکا یا روس کے درمیان ایک کا انتخاب نہیں کرنا، بلکہ اپنی راہ خود طے کرنی ہے۔ اسے توازن، حکمت، اور خود انحصاری پر مبنی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔
اگر امریکا بھارت کو واقعی اسٹریٹجک شراکت دار سمجھتا ہے تو اسے دباؤ کے بجائے لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ورنہ بھارت دیگر آپشنز، حتیٰ کہ چین سے بھی قربت اختیار کر سکتا ہے تاکہ دباؤ کا متبادل تلاش کیا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا بحران بھارت تذویراتی خودمختاری تیل ٹیرف خام تیل خلائی تعاون دفاع روس سینکشننگ رشیا ایکٹ عالمی منڈیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا بھارت تذویراتی خودمختاری تیل ٹیرف خام تیل خلائی تعاون دفاع سینکشننگ رشیا ایکٹ عالمی منڈی فیصد ٹیرف حکمت عملی روسی تیل بھارت کی بھارت کو کرتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پینٹاگون نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنےکی منظوری دیدی
ایک روز قبل روسی صدر سے فون پر گفتگو کی تھی، جس میں پیوٹن نے خبردار کیا تھا کہ ٹوماہاک میزائل ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ جیسے بڑے روسی شہروں تک پہنچ سکتے ہیں اور انکی فراہمی سے امریکا روس تعلقات متاثر ہونگے۔ اسلام ٹائمز۔ پینٹاگون نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی۔ امریکی میڈیا کے مطابق یوکرین کو امریکی ساختہ ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ امریکی اور یورپی حکام کے مطابق پینٹاگون نے وائٹ ہاؤس کو آگاہ کیا ہے کہ یوکرین کو میزائل دینے سے امریکی دفاعی ذخائر پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے حال ہی میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات میں کہا تھا کہ وہ یہ میزائل یوکرین کو نہیں دینا چاہتے۔
ٹرمپ نے یوکرینی صدر سے ملاقات سے ایک روز قبل روسی صدر سے فون پر گفتگو کی تھی، جس میں پیوٹن نے خبردار کیا تھا کہ ٹوماہاک میزائل ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ جیسے بڑے روسی شہروں تک پہنچ سکتے ہیں اور ان کی فراہمی سے امریکا روس تعلقات متاثر ہوں گے۔ یاد رہے کہ اپنی رینج اور صحیح ہدف پر لگنے کے لیے مشہور ٹوماہاک کروز میزائل امریکی اسلحے میں 1983ء سے ہے اور اب تک کئی فوجی کارروائیوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔