data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)ایکسپو سینٹر کراچی میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سے جاری تین روزہ، دوسرا بین الاقوامی کھجور پام فیسٹیول اختتام پذیر ہوگیا، کھجور فیسٹیول کے آخری روز پاکستان اور بیرون ملک سے کھجور کے شعبے سے وابستہ سینکڑوں پاکستانی کاشتکار، برآمد کنندگان، بین الاقوامی ماہرین اور کراچی کے شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ہے۔

 تین روزہ انٹرنیشنل کھجور پام فیسٹیول میں پاکستان سمیت متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن سمیت متعدد ممالک کے ا سٹالز لگائے گئے تھے جس میں پاکستانی کاشتکاروں کو کھجور کی مختلف اقسام، کاشتکاری کی تکنیک اور پیکیجنگ کے حوالے سے تجاویز پیش کیں گئی ہے۔دنیا میں کھجور کے پانچویں بڑے پیدا کنندہ کے طور پر پاکستان تقریباً 535,000 ٹن سالانہ کھجور کی پیداوار دیتا ہے ۔ اس بین الاقوامی کھجور پام فیسٹیول کا مقصد مقامی کاشتکاروں کو بین الاقوامی منڈیوں کی ضروریات پورا کرنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔

بین الاقوامی کھجور پام فیسٹیول کے موقعے پرمتحدہ عرب امارات کی ڈیٹ پام فرینڈز سوسائٹی کے بورڈ ممبر انجینئر محمد حسن الشمسی العوضی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا میں کھجور پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے،مگر اب بھی یہاں کی کھجوروں کی پیکجنگ اور ایکسپورٹ کوالٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر توجہ دی جائے تو پاکستان کھجور کی عالمی منڈی میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ فیسٹیول نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون کو فروغ دیگا، بلکہ پاکستانی فارمرز کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کو سمجھیں اور اپنی پیداوار و برآمدات کو بہتر بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان میں کھجور کے بہت سے کاشتکار اور مختلف اقسام دیکھیں ہیں۔ ہم ان سے مل کر اور اس بارے میں بات کر کے بہت خوش ہیں کہ ان کے ساتھ درآمد و برآمد کے لیے کیا تعاون کر سکتے ہیں۔العوضی نے مناسب پیکیجنگ اور کوالٹی کنٹرول کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ بین الاقوامی سطح پر برآمد کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اچھی پیکنگ، اچھی ورائٹی، اچھے سائز کی ضرورت ہوتی ہے اور یورپی مارکیٹیں خاص طور پر معیاری چیزوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں پاکستان میں موجود ہیں تاکہ لوگوں کو یو اے ای میں موجود کھجور کی مختلف اقسام سے متعارف کروا سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں 85 ہزار سے زاید کسان کھجور کی کاشت سے وابستہ ہیں اور ہمارے ہاں 130 سے 160 مختلف اقسام کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم کھجور کی پیداوار کے ساتھ اس کی ایکسپورٹ کے معیار پر بہتری کے لیے بھی توجہ دیتے ہیں تاکہ پاکستانی صارفین کو معیار اور تنوع کا اندازہ ہو سکے۔

یونائیٹڈ نیشن فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے ترجمان اسد علی کا کہنا تھا کہ ایکسپو سینٹر کراچی میں کھجور فیسٹیول میں پاکستان کے 18 کاشت کار شامل ہوئے، جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ یورپی یونین فنڈڈ پروجیکٹ ہے، جس کے تحت کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ13 یورو ملین کے اس پروجیکٹ کے تحت بلوچستان کے 20 اضلاع کے کسانوں کو تربیت اور کاروبار کے فروغ میں امداد دی جارہی ہے، جس سے روزگار میں بہتر تبدیلی آئے گی، تاہم نمائش میں کسانوں کو لانے کا مقصد ان کے باہمی روابط کو قائم کروانا ہے۔

اس فیسٹیول کا مقصد کھجور کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی، بہترین زرعی طریقوں اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہے، جو کسانوں، سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کی ایک اہم کاوش ہے۔

کھجور فیسٹیول میں پہلی بار مصر کی کمپنی ویلورائزن (Velorizon) نے کھجور کے فضلے سے ماحول دوست مصنوعات بنانے کا منصوبہ متعارف کروایا تھا۔ کمپنی نے نمائش میں چپل، دھاگا، کپڑا، گتہ اور کھاد جیسی اشیا پیش کیں۔کمپنی کی نمائندہ توکا بن سالم نے کہا کہ ہمارا مقصد کھجور کے درختوں کے فضلے کو ایسی تجارتی مصنوعات میں تبدیل کرنا ہے، جن کی مارکیٹ میں حقیقی مانگ موجود ہیں۔

اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم پہلی بار اپنا کاروبار مصر سے پاکستان میں متعارف کرنے پہنچے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر کھجور کے درختوں کا فضلہ یا تو جلا دیا جاتا ہے یا کھیتوں میں بکھرا رہتا ہے، جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے بلکہ منظرنامے کی خوبصورتی بھی متاثر کرتا ہے۔ ویلورائزن نے اس چیلنج کو ایک موقع میں بدل دیا ہے، اور اپنی جدت سے نہ صرف کچرے کو قابلِ استعمال بنایا ہے بلکہ روزگار کے نئے دروازے بھی کھولے ہیں۔

توکا بن سالم نے مزید کہا کہ فی الحال ہماری کمپنی مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اپنی فیکٹریوں اور پروسیسنگ یونٹس کے ذریعے کام کر رہی ہے، تاہم اب ہم پاکستان میں بھی شراکت داروں کی تلاش میں ہیں۔

ہم پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کے لیے دلچسپی کو سمجھنے آئے ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں کہ کھجور کے درختوں کی تعداد کتنی ہے اور مقامی افراد اس ماڈل میں کس حد تک شراکت داری کے لیے تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں زرعی فضلہ اور ماحولیاتی مسائل ایک بڑا چیلنج ہیں، ویلورائزن جیسے اقدامات امید کی ایک نئی کرن ہو سکتے ہیں۔اس میلے میں برآمد کنندگان نے بھی دلچسپی لی جو پاکستانی کھجور کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔فیسٹیول میں بلوچستان کے ضلع خاران سے تعلق رکھنے والے ایک کاشتکار امیر سلطان زہری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس نمائش میں آنے کا مقصد دوسرے ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور دبئی سے روابط قائم کرنا ہے تاکہ ہم اپنے کاروبار کو مزید بہتر کریں اور درآمد و برآمد کی طرف جا سکیں۔ پاکستان میں کھجور کی متنوع اور اعلیٰ معیار کی اقسام پیدا ہوتی ہیں لیکن کئی کسانوں کو نقل و حمل اور تکنیکی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے فیسٹیول میں کھجور سے تیار کردہ مختلف اشیا جیسے کیک، مٹھائی اور حلوہ جات نمائش کے لیے رکھیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی زمین کھجور کی پیداوار میں 72 اقسام کی کھجور کاشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس میں سر فہرست سرخ و گلابی رنگ کی مزاواتی کھجور شامل ہے، جس کا ذائقہ دوسرے کھجور سے الگ ہوتا ہے، تاہم اس وقت ہمارا کاروبار پاکستان بھر میں پھیلا ہوا ہے جبکہ اس ایکسپو میں شامل ہونے کا مقصد کاروبار میں دوسرے ممالک کے ساتھ شراکت داری بڑھا کر اسے وسیع کرنا ہے۔

جنوبی صوبہ سندھ خیرپور سے تعلق رکھنے والے غلام قاسم جسکانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس کھجور کو پروسیس کرنے کے لیے کارخانے نہیں ہیں۔ اگر ہمارے پاس ویسی ہی سہولیات، کولڈ اسٹوریج، مارکیٹنگ اور پیکیجنگ ہو تو ہم دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔پاکستانی کھجور کے کاشتکاروں کی ایسوسی ایشن کے سرپرست جسکانی نے مزید بتایا کہ انہوں نے ذاتی طور پر خلیجی ممالک سے کھجور کی 15 اقسام درآمد اور کاشت کیں جس کے بہترین نتائج ملے ہیں لیکن پاکستان میں ضروری پروسیسنگ انفراسٹرکچر کے بغیر برآمد میں بڑی کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔

کھجور فیسٹیول میں جہاں کھجور کی پیداوار میں اضافے اور اس کے پتوں، تنے اور دیگر حصوں سے ماحول دوست اشیا بنانے کے ماڈلز بھی پیش کیے گئے۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کھجور پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے، تاہم اس کی پیداوار اور برآمدات کے عالمی معیار تک پہنچنے کے لیے مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ تین روزہ نمائش میں 50 پاکستانی نمائش کنندگان اور 20 سے زاید غیر ملکی نمائش کنندگان شریک تھے، جن کا تعلق مصر، متحدہ عرب امارات، اردن اور دیگر نمایاں کھجور پیدا کرنے والے ممالک سے تھا۔

نمائش میں کھجور کی مختلف اقسام، بعد از برداشت ٹیکنالوجیز، پیکیجنگ سلوشن اور پائیدار زراعت میں جدت کو نمایاں کیا گیا ہے۔نمائش میں مختلف سفارت کار، ایکسپورٹرز اور کاشتکاروں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی ہے۔پاکستان کا دوسرا انٹرنیشنل ڈیٹ پام شو ٹڈاپ کی ان کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد پاکستان کی زرعی برآمدات کو متنوع بنانا، عالمی تعلقات کو مضبوط کرنا اور باغبانی کے شعبے میں جدت اور پائیداری کو فروغ دینا ہے۔

تین روزہ انٹرنیشنل کھجور پام فیسٹیول میں بلوجستان سے آئی ہوئی خاتون نے کھجورسے بنے کیک، مٹھائی حلوے بسکٹ کا اسٹال توجہ کا مرکز تھا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کھجور کی پیداوار انہوں نے کہا مختلف اقسام فیسٹیول میں پاکستان میں ہے انہوں نے کہ پاکستان کسانوں کو پیدا کرنے میں کھجور تین روزہ کھجور کے کا مقصد کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

14واں آئی ای ای ای پی فیئر 2025 ء ایکسپو سینٹر کراچی میں شروع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(کامرس رپورٹر) آئی ای ای ای پی فیئر کا 14واں ایڈیشن آج ایکسپو سینٹر کراچی میں باضابطہ طور پر شروع ہوگیا، جو 16 سے 18 ستمبر 2025 تک جاری رہے گا۔ یہ ایونٹ آئی ای ای ای پی کراچی سینٹر کی جانب سے، بدر ایکسپو سولیوشنز کے اشتراک سے منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں 200 سے زائد مقامی و بین الاقوامی نمائش کنندگان شرکت کر رہے ہیں جو الیکٹریکل، الیکٹرانکس، اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔اس موقع پر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (KCCI) کے صدر، جناب جاوید بلوانی، مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ انہوں نے منتظمین کو ایک اس نوعیت کے اہم اور وسیع پیمانے کے ایونٹ کے انعقاد پر سراہا۔”آئی ای ای ای پی فیئر الیکٹرانکس، الیکٹریکل اور قابلِ تجدید توانائی کے نمائش کنندگان، کنسلٹنٹس اور تجارتی زائرین کے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا تبادلہ کریں، جدید ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی سے آگاہی حاصل کریں، اور انجینئرنگ کے چیلنجز کے لیے جدید اور کم لاگت حل دریافت کریں۔ میں آئی ای ای ای پی کراچی اور بدر ایکسپو سولیوشنز کو ایک ایسا ایونٹ منعقد کرنے پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جس سے پوری صنعت کو فائدہ پہنچے گا۔”اپنے استقبالیہ خطاب میں، انجینئر نوید اکرم انصاری، چیئرمین آئی ای ای ای پی کراچی سینٹر، نے اس نمائش کی صنعت میں روابط بڑھانے میں اہمیت پر زور دیا۔”یہ نمائش کاروباری اداروں کو آپس میں رابطے قائم کرنے، پیشہ ورانہ شراکت داری بنانے اور مستقبل میں تعاون کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ یہ فیئر مختلف صنعتی شعبوں کے اسٹیک ہولڈرز کے ایک وسیع میدان کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کرتا ہے۔”ایونٹ کے دوران ایک اعلیٰ سطحی صنعتی سیمینار بھی منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں تعمیرات، ٹیکسٹائل، اور متعلقہ صنعتوں میں توانائی کے حل پر توجہ دی جائے گی۔ اس میں پائیدار توانائی سے متعلق ماہرین کی آراء اور رہنمائی شامل ہوگی۔آئی ای ای ای پی فیئر 2025 پاکستان کے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جدت، نیٹ ورکنگ، اور ترقی کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم کے طور پر خدمات انجام دیتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جونا مارکیٹ و کھجور بازار میں سیوریج مسائل حل کیے جائیں گے
  • کراچی میں سب سے بڑی فرنیچر نمائش 20 ستمبر کو شروع ہوگی
  • ٹیکس ورلڈ، اپیرل سورسنگ لیدر ورلڈ، پیرس، کا اختتام، پاکستانی ٹیکسٹائل کی پذیرائی
  • کراچی میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سے جاری 3 روزہ بین الاقوامی کھجور پام فیسٹیول اختتام پذیر
  • متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعویٰ
  • انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کا تین روز فلم فیسٹیول اختتام پذیر
  • ایشیا کپ ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ؛ پاکستان متحدہ عرب امارات میچ کا ٹاس ہو گیا
  • 14واں آئی ای ای ای پی فیئر 2025 ء ایکسپو سینٹر کراچی میں شروع
  • متحدہ عرب امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی